اسلام اور اصلاح معاشرہ

دنیا میں جانے کتنے مذاہب پائے جاتے ہیں لیکن دین اسلام چراغوں کے درمیان سورج کی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام مذاہب اصلاح معاشرہ کی تگ و دو میں کوشاں ہیں اور لوگوں کو راہ راست کی جانب ہدایت کرتے ہیں اور اس پر گامزن رہنے اور منکرات سے دور رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ مگر نظریاتی دنیا سے بالاتر عملی میدان میں اسلام انفرادی امتیاز کا مالک ہے۔ رواں دور میں بدکاری اور شہداپن کے بڑھتے شیطانی پنجے دیکھ کر دنیا کی ہر فرد اس کی نکوہش کررہی ہے۔ لیکن اس کی عملی اور آسان راہ فقط اسلام نے پیش کی ہے۔
عصر حاضر کی انگنت پنپتی برائیوں میں صنف نسواں کا تحفظ انتہائی دشوار ہوا جارہا ہے۔ اس بحرانی کیفیت سے رستگاری کے لئے ہر شخص اپنی استطاعت بھر کدو کاوش کر رہا ہے۔ اسلام نے اس مسئلہ کی ناعاقبت اندیشی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے بچنے کی راہیں بتائی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس الجھے ہوئے مسائل کا سلجھاو بھی پیش کیا ہے ۔
قرآن مجید میں اس بڑھتی ہوئی وبا کے خاتمہ کی خاطر مرد و عورت دونوں کو پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پہلے مرد اور بعد میں عورتوں سے پردہ کا مطالبہ کیا گیا ۔ جیسا کہ ارشاد پروردگار عالم ہورہا ہے:’قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذالک ازکی لھم‘
اور پیغمبر آپ مومنین سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں کہ یہی زیادہ پاکیزہ بات ہے ۔ (سورہ نور ۳۰)
عورتوں کی عفت اور پاکدامنی کا لحاظ رکھتے ہوئے ارشاد الہی ہو رہا ہے:’وقل للمومنت یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن‘
اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں ۔ (سورہ نور ۳۱)
حجاب یعنی نہ ہی عورتیں خواہشات نفسانی کے ابھارنے کا سبب بنیں اور نہ ہی مرد کسی نامحرم پر بری نگاہ ڈالے۔ حجاب یعنی ناموس کا حفاظتی حصار جیسا کہ ارشاد رب العزت ہورہا ہے: یا ایھا النبی قل لازواجک و بناتک و نساء المومنین ید نین علیھن من جلٰبیبھن ذالک ادنی ان یعرفن فلا یوذین‘
اے پیغمبر! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں کہ یہ
طریقہ ان کی شناخت اور شرافت سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی۔ (سورہ احزاب ۵۹)
آئین محمدی میں کسی نامحرم کو بری نگاہ سے دیکھنا گناہ ہے ۔ اگر کسی بے حیاء کی جراتیں بڑھ جائیں اور وہ حیاء و عفت کے حدود پارکر جائے تو قرآنی سزا یہ ہے کہ ’ الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ ولا تاخذکم بھما رافۃ فی دین اللہ‘
زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤ اور خبردار دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا۔ (سورہ نور۲)
بظاہر مذکورہ حکم ہر زناکار عورت اور مرد کے لئے ہے لیکن روایات اس بات کا سہارا دیتی ہیں کہ اگر مرد یا عورت شادی شدہ ہوں اور اس جرم کے مرتکب ہوجائیں تو ان کی سزا کوڑے لگانے کے بجائے’رجم‘(سنگسار)کرنا ہے یہاں تک وہ دنیا سے رخصت ہوجائے۔ (حاشیہ قرآن از سید ذیشان حیدر جوادی، سورہ نور ۲)
جب مذکورہ سزا کا ذکر ہوتا ہےتو بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ تو کہتے ہیں کہ اسلام امن پسند ہے اور پھر یہ سزا۔۔۔؟!
آسان ساجواب یہ ہےکہ اسلام عفت اور پاکدامنی کا مرکز ہے ۔ وہ ان مسائل میں کسی قسم کی مروت کا قائل نہیں ہے۔ ورنہ مجرموں کی جراتیں اور بھی بڑھتی چلی جائیں گی۔ البتہ جرم کی تحقیق اور پوچھ تاچھ پر بہت زور دیتا ہے ۔ شک و شبہ کا دھندلا پن چھٹ جانے اور حقیقت آشکا ر ہوجانے کے بعد ہی نرمی اور رعایت کا کوئی امکان نہیں بچتا بلکہ مجرم کو منظرعام پر لاکر سزا دی جاتی ہے تاکہ انصاف ہوجائے اور لوگ درس عبرت بھی حاصل کریں۔
آپ کسی سے یوں ہی سوال کرکے دیکھ لیں کہ فرض کرلیں کہ آپ کی ناموس کے ساتھ کسی نے جنسی تجاوز کرلیا اور آپ عدالت میں عہدہ قضاوت پر فائز ہوں تو مجرم کے اقبال جرم یا ثبوت جرم کے بعد آپ اس کے لئے کون سے سزا تجویز کریں گے؟
عقل سے بعید ہے یہ بات کہ کوئی زندہ دل اور باحیا شخص اس کی زندگی سے راضی ہوگا۔ ہر با ضمیر شخص کا یہی فیصلہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کو سماج میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہر مذہب اپنی عزت و ناموس کا تحفظ اپنے آئین کا اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے ۔ البتہ تحفظ عفت کے عملی شواہد پیش کرنا اسلام کا طرہ امتیا زہے ۔ شریعت مصطفوی کا نظریہ ہے کہ اگر خاندانی شرافت کو برقرار رکھنا ہو تو چرب زبانی سے نکل کر عملی میدان میں قدم جماناہوگا۔ تانکا، جھانکی، چشم چرانی، بے پردہ برسر عام پھرنا اور لباس شہرت پہن کر سر بازار گھومنا بند ہوجائے تو ساری معاشرتی مشکلات خود بخود ختم ہوجائیں گی۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ آج کے دور میں ایک عورت کا اپنی پاکدامنی بچانا کتنا دشوار ہے ۔ ہر روز آبروریزی کی ایک نئی روداد غم سننے کو ملتی ہے ۔ ہر دن انسانیت درجہ بدرجہ مدہم پڑتی جارہی ہے اور ہر گھڑی انسان کو اپنی آبروئے خانہ کی عزت پامال ہونے کا خطرہ ڈسے جاتا ہے ۔ لہذا، ہر شخص کو چاہئے کہ صنف نسواں کی عفت کے تحفظ کی خاطر اسلامی نظریہ؛ حجاب کو عملی جامہ پہنائے۔ ’عورت چراغ خانہ ہے، شمع محفل نہیں‘ کو سمجھنا چاہئے اور اس آفاقی مہم کو کامیاب بنا نا چاہئے تاکہ لوگوں کی عزت و ناموس احساس امن کریں۔