مصر میں ’مبارک کا یوم رخصت‘

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں صدر حسنی مبارک کے مخالفین جمعہ کو ’مبارک کے یوم رخصت‘ کے طور پر منا رہے ہیں اور اس موقع پر شہر کے آزادی سکوائر میں ایک مرتبہ پھر لاکھوں لوگ مظاہرے میں شرکت کررہے ہیں۔

دوسری طرف صدر حسنی مبارک پر اقتدار سے فوری طور پر علیحدہ ہونے کے لیے بین الاقوامتی سطح پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ مصری حکام سے ملک میں پرامن انتقال اقتدار کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق صدر مبارک کے فوری طور پر مستعفی ہو کر ایک تین رکنی آئینی کونسل کو اقتدار منتقل کرنے کی تجویز پر غور ہو رہا ہے۔

امریکی حکام نے ان اطلاعات کی تردید کیئے بغیر کہا ہے کہ بہت سی ممکنہ حل زیر غور ہیں لیکن تمام فیصلے مصر کے عوام کو کرنا ہوں گے۔

امریکہ کے نائب صدر جو بائڈن نے اپنے مصری ہم منصب عمر سلیمان سے بات کی ہے اور مصر کے عوام کی خواہش کے مطابق اقتدار کی فوری منتقلی پر زور دیا ہے۔

صدر حسنی مبارک کے مخالفین جمعہ کو حسنی مبارک کی روانگی کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس موقع پر قاہرہ کے تحریر سکوائر پر ایک مرتبہ پھر لاکھوں لوگوں کے جمع ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

صدر حسنی مبارک کے اقتدار سے فوری طور پر علیحدہ ہونے کا مطالبہ کرنے والوں نے گزشتہ رات بھی شہر کے آزادی سکوائر میں گزاری۔

مبارک کے مخالفین نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حسنی مبارک کے اقتدار میں ’آخری کیل‘ ٹھوکنے کے لیے جمعہ کی نماز کے بعد آزادی سکوائر میں جمع ہوں۔

مصر کی وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ گزشتہ روز حسنی مبارک کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپوں کے دوران تیرہ افراہ ہلاک اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ملک جنوری کی پچیس تاریخ سے شروع ہونے والے حالیہ مظاہروں اور بدامنی کے دوران اب تک تین سو سے زیادہ افراد ہلاک اور چار ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔

مصر کے نائب صدر عمر سلیمان نے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انھیں صدر مبارک کے اس اعلان پر یقین کرنا چاہیے کہ وہ اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں گے اور نئے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ ممکنہ تجاویز میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں اور حکومت کی باگ ڈور عمر سلیمان کی سربراہی میں فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت قائم کر دی جائے۔

ان اطلاعات کی نہ تو وائٹ ہاؤس اور نہ ہی امریکی وزارتِ خارجہ نے تردید کی ہے۔

صدر اوباما کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ’ پرامن، منظم اور بامعنی انتقال اقتدار کے عمل کو قابل اعتماد اور سب کی شمولیت سے شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘

ٹامی وکٹر نے کہا کہ ’ ہم نے مصری حکام کے ساتھ آگے بڑھنے کے بہت سے مختلف طریقوں پر غور کیا ہے لیکن یہ تمام فیصلے مصر کے عوام کو کرنا ہیں،

واشنگٹن میں موجود بی بی سی کے مارک مارڈل نے کہا کہ کچھ اطلاعات کے مطابق یہ ساری تجاویز مصر حکام نے رد کر دی ہیں اور امریکی انتظامیہ مصر کی فوج اور عمر سلیمان کے رویئے سے حیران رہ گئے ہیں۔

گزشتہ روز کے لاکھوں افراد کے مظاہروں کے بعد بدھ کو مصری فوج نے ایک پیغام میں مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ گھروں کو لوٹ جائیں۔

مصر میں انٹر نیٹ کی سروسز بحال ہو رہی ہیں۔ یہ سروسز کئی دنوں سے معطل تھیں۔ سرکاری ٹی وی پر کرفیو میں بھی نرمی کا اعلان کیا گیا ہے۔
ش۔
دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں کہیں الا خوان المسلمون پر دوبارہ سیاست کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں یا اس کو ایک حقیقت تسلیم کر لیا جاتا ہے۔