خوشامد و چاپلوسی ایک مذموم وصف

بسم اﷲ الرحمان الرحیم

کسی کے منہ پر اس کی جھوٹی تعریف کرنے کو ’’خوشامد‘‘ اور ’’چالوسی‘‘ کہتے ہیں۔ کسی کے منہ پر اس کی جھوٹی تعریف اخلاقی پستی، دِنایت اور ذلت کی علامت ہے۔خوشامد اور چاپلوسی کرنے والا شخص بہ یک وقت تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے: (۱)ایک تو یہ کہ وہ اپنے مدمقابل کی ایسی مبالغہ آراء تعریف کرتا ہے جو واقع کے مطابق نہیں ہوتی، یہ جھوٹ ہے۔ (۲)دوسرے یہ کہ وہ اپنے منہ سے جو تعریف کرتا ہے اسے وہ خود اپنے دل میں درست نہیں سمجھتا ٗ یہ نفاق ہے۔ (۳)تیسرے یہ کہ اس سے اخروی ثواب کے بجائے دنیوی جاہ و قدر مطلوب ہوتی ہے جو بذاتِ خود ذلت و رسوائی ہے ٗ یہ دھوکا ہے۔ اس طرح کسی کی جھوٹی تعریف کرکے اَن جانے میں انسان تین طرح کے گناہوں کا ارتکاب کربیٹھتا ہے۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ جس کی خوشامد و چاپلوسی کی جاتی ہے وہ بھی دو طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے: (۱)ایک یہ اس کے دل میں اپنے متعلق بڑائی اور غرور پیدا ہوجاتا ہے۔ (۲) اور دوسرے یہ وہ اپنے متعلق تعریف و توصیف سن کر اپنے عیوب و نقائص کو بھلاکر دوسروں میں برائیاں تلاش کرنے کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے۔

قرآنِ مجید اور احادیث نبویہؐ میں خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے کی بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: جو لوگ اپنے کارناموں پر اِتراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے تو آپ یہ گمان مت رکھیں کہ وہ ہمارے عذاب سے بچ جائیں گے بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘علامہ شوکانیؒ لکھتے ہیں کہ ان آیات کا شانِ نزول اگرچہ خاص ہے مگر اپنے اثر کے لحاظ سے یہ آیات عام ہیں جو سب کو شامل ہیں۔(فتح القدیر للشوکانی)

حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تعریف کی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے تین دفعہ فرمایا کہ تم نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی۔ تم میں سے اگر کسی نے کسی کی تعریف ضرور ہی کرنی ہو اور اسے اس کی اچھی صفات یقینی طور سے معلوم ہوں تو یوں کہنا چاہیے کہ میرا فلاں کے بارے میں یہ گمان ہے اور اﷲ ہی اسے بہتر جانتے ہیں، اﷲ کے سامنے وہ کسی کو مقدس بناکر پیش نہ کرے بلکہ یوں کہے کہ میرا گمان یوں ہے میرا خیال یہ ہے۔(بخاری ، مسلم، ابوداؤد)حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک آدمی دوسرے کی تعریف کررہا ہے اور تعریف میں حد سے آگے بڑھ رہا ہے تو فرمایا کہ تم نے (زیادہ تعریف کرکے) اس آدمی کی کمر توڑ دی۔ (بخاری) حضرت محجن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم! یہ فلاں ہیں اور یہ مدینہ والوں میں سے سب سے اچھے ہیں اور مدینہ والوں میں سے سب سے زیادہ نماز پڑھنے والے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو یاتین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اسے مت سناؤورنہ تم اسے ہلاک کردوگے۔(مسند احمد)

حضرت ابراہیم تیمی رحمہ اﷲ کے والد بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی نے ان کے پاس آکر سلام کیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے اس کے منہ پر اس کی تعریف کرنی شروع کردی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ تم نے تو اس آدمی کو ذبح کرڈالا۔اﷲ تمہیں ذبح کرے، تم اس کے منہ پر اس کے دین کے بارے میں اس کی تعریف کررہے ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، الادب المفرد) حضرت حسن رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی تعریف کی تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ تم مجھے بھی ہلاک کر رہے ہو اور اپنے آپ کو بھی۔(مسند ابن ابی الدنیا) حضرت ابومعمر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑے ہوکر ایک امیر کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اﷲ عنہ اس پر مٹی ڈالنے لگے اور فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اسی بات کا حکم دیا ہے کہ (غلط مقصد کے لئے )تعریف کرنے والوں کے چہروں پر ہم مٹی ڈالا کریں۔ (مسلم، ترمذی، ادب المفرد) حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس ایک آدمی دوسرے آدمی کی تعریف کرنے لگاتو حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما اس آدمی کے چہرے کی طرف مٹی ڈالنے لگے اور فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈالو۔ (الادب المفرد) حضرت نافع اور دیگر حضرات بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے کہا اے لوگوں میں سے سب سے بہتر! یا یوں کہا اے لوگوں میں سے سب سے بہتر کے بیٹے! تو حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ نہ میں لوگوں میں سے سب سے بہتر ہوں اور نہ میں سب سے بہتر کا بیٹا ہوں ، بلکہ اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں ، اﷲ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں اور اﷲ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ اﷲ کی قسم! (بلا وجہ تعریفیں کرکے) تم آدمی کے پیچھے پڑجاتے ہواور پھر اسے ہلاک کرکے چھوڑتے ہو (کہ اس کے دل میں عجب اور بڑائی پیدا ہوجاتی ہے) (حلیۃ الاولیاء)

البتہ اگر کوئی شخص مؤمن اور نیک کار اور متقی و پرہیز گار ہو اور اس کے منہ پر اس کی تعریف کرنے سے اس کے دل میں عجب و بڑائی پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو بلکہ امید ہو کہ اس سے اس کا ایمان اور زیادہ بڑھے گا اور یہ شخص نیک اعمال میں اور زیادہ لگے گا تو ایسے شخص کے منہ پر اس تعریف کرنا مذموم نہیں بلکہ محمود و مستحسن ہے۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو لیث کے ایک آدمی نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر تین مرتبہ عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! میں آپ کو شعر سنانا چاہتا ہوں (آخر چوتھی مرتبہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دے دی) تو انہوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہ اشعار سنائے جن میں آپ کی تعریف تھی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اشعار سن کر ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شاعر اچھے شعر کہتا ہے تو تم نے بھی اچھے شعر کہے ہیں۔ (معجم طبرانی) حضرت خلاد بن سائب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کے پاس گیا، انہوں نے میرے منہ پر میری تعریف کی، یوں کہا کہ میں نے آپ کے منہ آپ کی تعریف اس لئے کی کہ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب مؤمن کے منہ پر اس کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کے دل میں ایمان بڑھ جاتا ہے( کیوں کہ تعریف سے وہ پھولے گا نہیں بلکہ اس کا اعمال پر یقین بڑھے گا کہ نیک اعمال کی وجہ سے لوگ کر رہے ہیں) (معجم طبرانی)

Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 254642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.