مشت غبار میں زندگی

مطیبہ کپڑے بدل کر نکلی تو مطاہر کب کا سو چکا تھا ۔اس کے ہلکے ہلکے خراٹے کمرے میں گونج رہے تھے۔مطیبہ بے یقینی میں کھڑی سوچ رہی تھی، میں کدھر لیٹوں، اس شخص کی بغل میں جس نے بے حسی اور بے رخی کی حد کردی یا کمرے میں بچھے صوفے ہر۔ اس کی نسوانی انا سخت مجروح ہوئی تھی، اس کا پندار کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ اچانک اس کے اندر کی ضدی مطیبہ نے انگڑائی لی، اس نے مطاہر کے اوپر سے کمبل کھینچا، تکیہ صحیح کیا اور سیدھی ہوکر بستر پر لیٹ گئی۔ کمرے میں لگی نائٹ لائٹ میں مطاہر بہت ہی معصوم اور پرسکون دکھ رہا تھا۔ مطیبہ نے دل ہی دل میں عزم کیا اور مطاہر کو دل میں مخاطب کیا۔
"مسٹر مطاہر میں ایک ڈرپوک، سسکتی ہوئی لڑکی نہیں ہوں، جو تمھاری توجہ کی بھیک کے لیے مری جارہی ہے۔ تم خود میرا حق میری جھولی میں ڈالو گے۔عزت اور مان کے ساتھ۔"
اس نے آنکھیں بند کرلیں، آخر کار نیند کی دیوی اس پر مہربان ہو ہی گئی ۔
صبح مطیبہ کی آنکھ کھلی ،تو اس کے سرہانے مطاہر بیٹھا اس کو غضب ناک نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ مطیبہ نے آرام سے انگڑائی لی۔ مطاہر غضب ناک انداز میں چیخا:
تم نے میرے بستر پر لیٹنے کی ہمت کیسے کی؟
مطیبہ آرام سے بولی:
مطاہر صاحب کل چار سو لوگوں کی موجودگی میں ہمارا نکاح پڑھایا گیا، آپ نے سب کے سامنے ایجاب و قبول کیا، میں آپ کی شرعی بیوی ہوں، اس لیے میں اس بستر کی بھی مالک یو، جتنے آپ اس کے مالک ہیں، آپ کو تکلیف ہے تو صوفہ حاضر ہے آپ کی خدمت میں ۔"
مطاہر نے دانت پیسے اور غرایا:
"تم پچھتاو گی۔"
مطیبہ نے ہنس کر کہا:
آپ جیسے شخص سے شادی ہوگئی کیا یہ پچھتاوا کم ہے؟
مطاہر پاوں پٹختا، باتھ روم میں چلا گیا ۔
مطاہر باتھ لے کر باہر نکلا تو مطیبہ فون پر محو گفتگو تھی۔ مطاہر کو آتے دیکھ کر مطیبہ باآواز بلند بولی:
"آنٹی! یہ مطاہر سے بات کیجئے ۔"
مطاہر نے جھجکتے ہوئے فون پکڑا، حسب توقع دوسری طرف اس کی والدہ تھیں ۔ مطاہر سعادت مندی سے جی جی کرتا رہا۔ جب فون بند ہوا تو اس نے دیکھا ،مطیبہ سرخ رنگ کے مکیش والے سوٹ میں نفیس میک اپ کیے ،تیار کھڑی تھی۔
اس نے مطاہر کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی:
Shall we go for the breakfast?
مطاہر نے اس کو الجھی الجھی نظروں سے دیکھا اور خاموشی سے اس کے ساتھ ڈائننگ ہال کی طرف چل پڑا۔ مطیبہ جانتی تھی کہ مطاہر سوچ رہا تھا کہ وہ رو رو کر پاگل کیوں نہیں ہورہی ،کیوں واویلا نہیں مچا رہی ۔ مطیبہ نے دل ہی دل میں کہا:۔
"مسٹر مطاہر آج تک لوگ مطیبہ کے آگے جھکے ہیں، تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں تمھارے آگے اپنی عزت نفس دو کوڑی کی ہونے دونگی۔"
ڈائننگ ہال میں پہنچ کر مطیبہ نے بوفے سے اچھی سی پلیٹ بنائی اور بیٹھ کر کھانے لگی۔ مطاہر بھی پلیٹ بنا کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ مطاہر نے جیسے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا تھا، تو مطیبہ بھی کوئی خاموشی توڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ اعصاب کا کھیل ہے اور اس میں اس نے مطاہر کو چت کرنے کی ٹھان لی تھی۔
ناشتے کے بعد مطیبہ نے مطاہر کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور باہر نکل آئی۔ ہوٹل کے ایک باوردی ملازم نے اس کی رہنمائی کی تو وہ خوبصورت باغ کے ایک کونے میں سیٹ اپ کیے ہوئے کینوس کے پاس پہنچ کر پینٹنگ میں مصروف ہوگئی ۔اس نے صبح ہی فون پر ہوٹل کے مینجر سے درخواست کی تھی کہ اس کی پینٹنگ کا سیٹ اپ وہ ہوٹل کے کسی خوبصورت گوشے میں لگوا دے۔ مطاہر دو گھنٹے کے بعد بور ہوتا ،اتفاق سے ہوٹل کے اس باغ میں گھومتا ،گھامتا پہنچا بے اختیار ہی اس کے قدم ٹھٹک سے گئے۔ جھکے جھکے بادلوں، دھند کے مرغولوں کے بیچ، سرخ کپڑوں میں ملبوس پینٹنگ کرتی مطیبہ کسی اور ہی دنیا کی باسی لگ رہی تھی ۔مطاہر کی نظریں اس کی گھنی سیاہ زلفوں کے پیچ و خم میں اٹک سی گئیں ۔مطیبہ کو کسی کی نظروں کی حدت کا اندازہ ہوا تو اس نے بے اختیار ہی مڑ کر دیکھا، مطاہر کو کھڑے دیکھ کر بے اختیار ہی اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ،مگر اس نے بڑی ہی بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی توجہ پھر پینٹنگ کی طرف مبذول کرلی۔مطاہر کھسیانا سا ہو کر اس کے قریب آکر کھنکارا اور بولا:
"دیکھو مطیبہ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے بس میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں پاکستان چند دنوں کے لیے آیا تھا اور ممی پاپا نے زبردستی میری شادی کر دی۔ہم اچھے دوستوں کی طرح وقت گزار سکتے ہیں ۔"
مطیبہ نے مطاہر کو دیکھا اور بے پروائی سے کندھے اچکا کر بولی:
"مجھے بھی شادی بیاہ کے جھنجھٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔میں تو ایف آر سی ایس کرنے بیرون ملک جانا چاہتی تھی، مگر پاپا نے مجھے اکیلے پڑھنے کے لئے جانے کی اجازت نہیں دی اور اس خوف سے کہیں میں ضد نہ کر بیٹھوں، میری شادی کروا دی۔"
مطیبہ نے دیکھا کہ مطاہر کے کھچے کھچے نقوش کچھ نرم ہوئے اور وہ بے ساختہ مسکرایا اس نے ہاتھ مصافحے کے لیے آگے کیا اور بولا:
So we are friends from now on?
مطیبہ نے اس سے ہاتھ ملایا ،ایک لمحے کے لیے مطیبہ کی حسیات سمٹ کر اس کی ہتھیلی میں آگئیں ۔مطیبہ کا پاگل دل اس زور سے دھڑک رہا تھا، جیسے اس کی پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر باہر آجائے گا۔ مطیبہ کے گال شرم سے گلابی ہوگئے۔اس نے فورا جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور پینٹنگ کی طرف متوجہ ہوگئی۔مطاہر لان چئر کھینچ کر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ مطیبہ کو اپنی پیٹھ پر اس کی نظریں کھبتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔مطاہر اچانک بولا:
مطیبہ ابھی تو پانچ دن ہم نے یہاں گزارنے ہیں، کیوں نہ اچھے دوستوں کی طرح گھوم پھر کر گزاریں۔
مطیبہ کا پاگل دل اسے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ مطیبہ انکار کردے ،ورنہ اس ظلمی کے عشق میں مزید گرفتار ہوتی جائے گی۔ مگر اس نے اپنے نادان دل کو ڈپٹا اور دلکشی سے مسکرا کر مطاہر کو کہا:
"اچھا خیال ہے۔"
مطاہر نے اٹھ کر اس کے ہاتھ سے برش پکڑ کر سائڈ پر رکھا اور بولا:
چلو !
مطیبہ مطاہر کے ساتھ چل پڑی۔ خوبصورت پہاڑوں کے بیچ میں گاڑی میں مطاہر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے ،مطیبہ سوچ رہی تھی، کاش یہ خواب نہ ہوتا ،یہ حقیقت ہوتی اور ہم دونوں حقیقت میں ہم سفر ہوتے ۔اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی۔ مطاہر نے سڑک کے ایک طرف گاڑی روکی اور مطیبہ کو بولا:
"چلو تمھیں اپنی پسندیدہ ایک جگہ دکھاوں ۔میں جب بھی پاکستان آتا ہوں ادھر ضرور آتا ہوں۔"
اونچے نیچے رستوں پر چلنے میں مطیبہ کو کافی دقت ہو رہی تھی، اس کی ہائی ہیل کی سینڈل اس کی جان کا عذاب بنی ہوئی تھی ۔ گھنٹے کی واک کے بعد جس مرغزار میں وہ پہنچے مطیبہ اس کو دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ دور پہاڑ سے آبشار بہتی ہوئی نیچے آرہی تھی۔مرغزار میں نت نئے جنگلی پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔ایک طرف ہرنوں کا ایک ٹولہ گھاس چر رہا تھا۔ رنگ برنگی تتلیاں اڑ رہی تھیں ۔ مطیبہ کو لگا وہ شاید کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ دور کچھ کاٹیجز نظر آرہے تھے،جن کی سفید دیواریں اور سرخ کھپریل کی چھتیں عجیب بہار دکھا رہی تھیں اس نے خوشی سے بے اختیار ہی مطاہر کا ہاتھ پکڑ کر کہا:
"واو! کتنی خوبصورت جگہ ہے۔"
اس کی نظر مطاہر کے چہرے پر پڑی تو ایک منٹ کے لیے وہ گڑبڑا سی گئی، مطاہر اسے بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا،اس کی نظروں کی تپش بتا رہی تھی کہ وہ اسے کس طرح دیکھ رہا تھا۔ مطیبہ نے جھٹ سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس سے فاصلے پر ہوگئی ۔ابھی وہ کچھ دور ہی چلے ہونگے کہ مطیبہ کی سینڈل کی ہیل ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں وہ لڑکھڑا کر بری طرح گری اور اس کے ٹخنے میں موچ آگئی۔ مطاہر دوڑ کر اس کے قریب آیا اور پریشانی سے بولا:
کیا ہوا؟
جب اس کو اندازہ ہوا کہ کیا ہوا ہے۔ تو وہ جھلا کر بولا:
"ایک تو تم پاکستانی عورتوں کو اتنی لمبی ہیل پہننے کی کیا بیماری ہے؟ اوپر سے پہاڑی علاقے میں ہائکنگ ان سینڈلز میں کرکے تمھارا شہید ہونے کا ارادہ تھا۔"
مطیبہ کی آنکھوں میں تکلیف اور بے عزتی کے احساس سے آنسو آگئے ۔وہ روتے روتے بولی:
"تم نے کون سا مجھے بتایا تھا کہ اتنا پیدل چلاو گے؟"
مطاہر اس کے آنسو دیکھ کر چپ ہوگیا اور اس کا دھیان بدلتے ہوئے بولا:
"چلو شاباش اٹھنے کی کوشش کرو۔"
مطیبہ نے کوشش کی مگر لڑکھڑا کر پھر گر پڑی ۔اب مطاہر کے چہرے پر بھی فکرمندی کے آثار نمودار ہوئے۔ اچانک ہی بادلوں نے برسنے کی ٹھان لی، مطاہر اور مطیبہ اس نئی افتاد سے بوکھلا اٹھے، مگر اچانک ہی مطاہر نے جھک کر مطیبہ کو گود میں اٹھایا اور دور واقع کیبن کی طرف چل پڑا۔ مطیبہ چوٹ اور بارش سے ہی بوکھلائی ہوئی تھی، اب نئی افتاد یہ تھی کہ وہ دشمن جان اسے گود میں اٹھا کر چل رہا تھا۔ کیبن کے پورچ میں پہنچ کر مطاہر نے اسے پورچ میں بچھے منقش جھولے پر لٹایا اور دروازے کے پاس بچھے ویلکم میٹ کے نیچے ہاتھ مارا، اسے چابی مل گئی۔اس نے برق رفتاری سے دروازہ کھولا اور مطیبہ کو اٹھا کر اندر لے گیا۔
مطیبہ نے دیکھا وہ کاٹیج مکمل طور پر لکڑی کا بنا ہوا تھا، اس کے مکین بہت ہی کوئی بازوق لوگ تھے ،اس کا اندازہ وہاں پڑے ہوئے فرنیچر اور ڈیکوریشن سے ہورہا تھا ۔ تیز بارش کے ساتھ اب اولے بھی برسنے لگے تھے۔ ہوا خنک ہوگئی تھی ۔ مطیبہ سردی سے ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ مطاہر نے فورا آتشدان میں لکڑیاں ڈال کر آگ بھڑکائی۔وہ مطیبہ کو صوفے پر لٹا کر خود اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود کپڑے بدل کر ایک زنانہ جوڑا ہاتھ میں لئے برآمد ہوا،اس نے کپڑے مطیبہ کی طرف اچھالے اور اسے کہا :
"کپڑے بدل لو ورنہ بیمار ہوجاو گی۔"
"میں دیکھتا ہوں کچن میں اگر کچھ کھانے کے لیے میسر ہے۔ "
مطیبہ نے احتجاج کے لیے لب کھولے مگر مطاہر کچن میں غائب ہوچکا تھا۔ ٹھنڈ کے مارے مطیبہ کی قلفی جم رہی تھی،اس نے مجبورا کپڑے بدل لیے۔ مطیبہ اس وقت اس فکر میں مبتلا تھی کہ اگر اس کاٹیج کے اصل مالکان آگئے تو وہ ان دونوں کو ان کے گھر میں، ان کے کپڑوں میں ملبوس چور تو نہیں سمجھیں گے۔مطاہر تھوڑی دیر میں کھانے کی ٹرے تیار کیے واپس آیا۔ مطیبہ کراہی اور بولی:
"مطاہر ہم چوری کے الزام میں اندر ہوجائنگے ۔کسی کے گھر میں آپ کیا کرتے پھر رہے ہیں ۔"
مطاہر ایک لمحے کے لیے حیران ہوا، اگلے لمحے اس کے قہقہے چھت پھاڑ رہے تھے ۔مطیبہ اس کو ناسمجھی سے تک رہی تھی ۔مطاہر ہنستے رکا، اس کی آنکھیں زیادہ ہنسنے سے پانی سے بھر گئی تھیں ۔اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔
گہرا سانس لیا اور بولا:
"مطیبہ بی بی میں ہی اس کاٹیج کا مالک ہوں۔ اس لئے بے فکر ہوجاو اور کھانا کھاو۔"
مطیبہ کا دل ایک لحظے کے لئے تھم سا گیا۔ وہ اور مطاہر آبادی سے دور ایک مرغزار میں تن تنہا تھے، باہر طوفان کے تیور بتا رہے تھے کہ یہ طوفان جلد چھٹنے والا نہیں ہے۔ مطیبہ نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور خاموشی سے کھانا کھایا جو خشک گوشت، ٹن کے چنوں پر مشتمل تھا۔ کھانے کے بعد مطاہر نے مطیبہ کو درد کی گولی کھلائی، اس کے پیر پر درد کش کریم کا مساج کیا اور اس کو صوفے پر لٹا کر خود کمرے میں سونے چلا گیا۔
مطیبہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔
مطیبہ کے آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے ۔
دور کہیں گیدڑ اور بھیڑیوں کے غول غرا رہے تھے ۔منیبہ کی جان پر بنی ہوئی تھی ۔اسی خوف میں مطیبہ کو بخار چڑھ گیا ۔وہ تکلیف اور بے چینی سے نیم بے ہوشی میں سر مار رہی تھی ۔اچانک اسے لگا کہ کسی نے اسے اٹھایا ہو،اس کے ساتھ ہی اس کا ذہن اندھیروں میں ڈوب گیا۔
کیا مطیبہ اپنا پیار جیت پائے گی۔اس کے لئے پڑھتے ہیں اگلی قسط ۔
(باقی آئندہ )☆☆

 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 264380 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More