ڈاکٹر شاہد مسعود اور میڈیا مافیا

 ڈاکٹر شاہد مسعود عرصہ اٹھارہ سال سے الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ رہے ہیں، سن دو ہزار میں نجی چینل کا سب سے بڑا سٹلائٹ چینل اے آر وائی سے آغاز کیا تھا، یہ وہ دور تھا جب سابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں پاکستان کی تاریخ میں جہاں بے پناہ مثبت نئے کام شروع کیئے تھےجن میں شفاف اور انصاف پر مبنی احتساب کا ادارہ نیشنل اکاؤنٹی بیلیٹی بیوروجسے نیب کہتے ہیں بنایا گیا ،الیکٹرونک میڈیا کے فروغ اور قوائد و ضوابط کے دائرہ کار میں لانے کیلئے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولر اتھارٹی یعنی پیمرا بنایا گیا ، سابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں نجی چینل کو دوسرا بڑا چینل جیو بھی آن ایئر دو ہزار دو میں ہوا لیکن جیو نے ہمیشہ پرویز مشرف کے خلاف ہی صف آرائی کی کبھی بھی ان کی مثبت اور تعمیری کاوشوں کو کبھی بھی نہیں سراہا، ڈاکٹر شاہد نے اگر کرپشن کی، لوٹ مار کی، مفادات حاصل کیئے تو آج کل وہ سپریم کورٹ کے احاطے میں پیش ہیں بلکہ جیل میں قید ہیں اور اپنے اوپر لگنے والے کیس کا سامنا کررہے ہیں ، ڈاکٹر شاہد سے میرا دوستانہ معاملہ رہا ہے لیکن ان کی پوشیدہ معاملات سے لاعلم ہوں ، ایک ساتھ کام کیا ہے ملن ساز، خوش گفتاراور اچھے شخصیت پایا ہے میں نے ، ڈاکٹر شاہد کے متعلق جب اپنے سینئرز صھافیوں نے گفت و شنود ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ شاہد نے صحافتی شخصیات پر پڑی دھول پر پاؤں مارا ہے جس سے کئی شخصیات کے چہرے عیاں ہوگئے اور ڈاکٹر شاہد وقت کے ساتھ ساتھ صحافتی دنیا میں منفی عناصر کی منفی کاروائیوں کو بے نواب کرنے جارہے تھے کچھ کا ذکر انھوں نے اپنے پروگراموں میں کردیا تھا اور باقی کرنے والے تھے،سینئرز صحافیوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شاہد کے خلاف کون کون سے الزامات عائد کیئے گئے ہیں ان کی تفصیلات کیوں نہیں عوام کے سامنے پیش کی گئیں ہیں، بس پروگرام بند کردیا اور گرفتار کیا گیا، بحرکیف وہ اپنا کیس لڑ رہے ہیں لیکن ممکن ہے وہ بہت جلد کورٹ سے اپنے کیس کو لڑ کر باہر آجائیں گے ، ڈاکٹر شاہد مسعود کی قید کوئی معمولی بات نہیں انھوں نے ایک راہداری کھول دی ہے کہ اب میرے بعد بلترتیب تمام اُن صحافیوں کا بھی احاطہ کیا جائے جوملک دشمن عناصر کے کسی نہ کسی طریقے سے آلہ کار رہے ہیں اور جنھوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کڑوروں، اربوں روپے کمائے ہیں، جنھوں نے اپنا ضمیر ہی نہیں بلکہ ملک کی سالمیت و بقا کی فروخت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، سینئرز صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے الیکٹرونک میڈیا کے اینکروں نے تو حد ہی کردی اور انھوں نے جس قدر توازن کا بگاڑ کیا اس کی دنیا بھر میں کہیں مثال نہیں ملتی، نجی چینلز کے ایسے بھی اینکرز ہیں جن کی تنخواہیں کم و بیش کروڑ یا نصف کروڑ تک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بے پناہ مراعات بھی حاصل کی ہوئی ہیں، ان کے مطابق ان اینکروں کے ساتھ اسٹاف یعنی ٹیم کام کرتی ہے ان کی تنخواہوں کی جانب اگر نظر ڈالیں تو شرم سے سر جھک جائے گا کئی ملازمین ایسے ہیں جن کا گھر کا چولہ جلنا بہت مشکل پڑ جاتا ہے یہ نجی چینلز کا عدم توازن آخر کیوں ؟؟؟ پیمرا اپنے قوانین پر خاموش کیوں ؟؟؟اور کئی ایسے بھی چینلز ہیں جو اپنے اسٹاف کو تنخواہ دینے سے قاصر لیکن اینکروں کی خواہشات کی تکمیل کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ان سینئرز صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بیس پچیس ایسے اینکرز ہیں جو سالانہ اس قدر کماتے ہیںکہ وہ اپنے کئی چینلز لاؤنچ کرسکتے ہیں ، ان کے مطابق اینکرز کیونکہ آن اسکرین ہوتے ہین اور ٹاک شو کے ذریعے بآسانی بلیک میلنگ ہنر کے ذریعے خود اور اپنے باس کی خواہشات کی تعمیل کرتے ہیں گویا اب صحافت کے ایوانوں میں تحریریں فروخت ہوتی ہیں، آوازیں بکتی ہیں، قلم ٹوٹی انگلیوں کی قید میں پھنس کر رہ گئےہیں، مائک اور کمیرے منافق اور جھوٹے چہروں کے نیک اپ میں چھپ گئے ہیں، اب تو زمانے میں آواز بھی نہیں سنی جاتی ہے سچائی اور حق کی ، تلوؤں کی مالش کرنے والے ہنر مند بلند تر دیکھے جاسکتےہیں، صحافت کے رنگ پر گرہن چھایا ہوا ہے ،ایوان صحافت ویراں پڑا ہوا ہے ، ہر ایک کو بازار سے روپیہ پیسہ سمیٹنا ہے پھر کون سنبھالے گا، سمجھے گا صحافت کو یہاں تو اشرفیہ ہو یا نوکر شاہی کا پنجہ سب دبوچ میں ہیں ۔معزز قارئین ۔۔۔!!بڑی دلچپس بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود حالیہ ادوار میںانسداد کرپشن، انسداد دہشتگردی اور انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے کئی اہم ترین شخصیات کو بے نقاب کرچکے تھے اور کرنے والے تھے پھر کیونکر ممکن ہوسکتا کہ میڈیا مافیا ڈاکٹر شاہد مسعود کو بخش دیتے یقیناً سچ کڑوا ہوتا ہے اور جب جب کسی نے حقائق بیان کیئےاور ملک پاکستان کی سلامتی و کامیابی کیلئے اپنی اپنی خدمات پیش کرنا شروع کیں تب تب ملک دشمن عناصروں نے سچے اور حق بات کرنے والے کا سخت محاصرہ کیا، سچے اینکر ہو یا صحافی کسی طور انہیں آزاد رہنا پسند نہیں کرتے ، پاکستان کے سابقہ دونوں حکومتوں نے عوام کو بے حد مایوس کیا، یہ حقیقت عوام کے ایک ایک بچہ جانتا ہے، عوام کس قدر پستی کا شکار ہوئے اور ملکی دولت کس طرح نوچی گئی یہ حقیقت اب آشکار ہوچکی ہیں، دنیا بھر کے ممالک اور بینکوں نے پاکستانی سیاسی رہنماؤں، نوکر شاہی طبقے، تاجر، شاشل ورکرز اور صحافیوں کی ایک بڑی فہرست پیش کردی گئی ہے، میں بارہ سال سے کالم حق و سچ کی ترجمانی کیلئے لکھتا چلا آرہا ہوں اور کرپشن ، لوٹ مار، بد عنوانی اور لا قانونیت کے خلاف جہاد کرنا میرا مشن ہے ،پاکستان کی سلامتی، خوشحالی، امن، ترقی کیلئے ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہونگا اور جہاں کہیں بھی پاکستان مخالف قوتوں، عناصر اور سہولت کاروں کی راہ میں رکاوٹ بن جاؤنگا، پاکستانی عوام اب شعور کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے بہت آگے جاچکی ہے اب اس قوم کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

معزز قارئین ۔۔۔!!سینئرز صحافیوں نے شکوہ انداز میں بتایا کہ الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اس میں صحافت کے رموز، صحافت کی اخلاقیات، صحافت کی ٹیکنکس،صحافتی امور اور ماہرانہ صحافت کے حامل افراد کو موجود مافیا کسی طور برداشت نہیں کرتے اور وہ ایسا جال پھیلاتے ہیں کہ مالکان کے کانوں اور ان کے ذہنوں میں پروفیشنل صحافیوں کو بے دخل کرنے میں بھرپور سازشیں اور گروہ بندی، گروپس بناکر انہیں نکال باہر کرتے ہیں، دور حاضر میں اکثریت میڈیا میں چھائے ہوئے مافیا کی ہے، انھوں نے مزید بتایا کہ ان مافیا کا کام ہی یہی ہے کہ مالکان کو مصنوعی منافع کے خواب دکھا کر ، بہلا پھسلا کر اپنے اپنے گروہ کو توقیت پہنچانا مقصود ہوتا ہے ،یہ مافیا صرف اور صرف اپنی ذات کے ہیں ، انہیں نہ تو دارے کی کوئی پروا اور نہ ہی مالکان کی ، سینئرز صحافیوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ اس میں بڑی ذمہ داری پیمرا کی ہے وہ کیوں نہیں قوانین کی پابندی کراتا اور سپریم کورٹ اس بابت کیوں نہیں نوٹس لیتا گویا کیا یہ مافیا ریاست سے بالا تر ہیں جب چاہیں ملک خلاف کاروائی کرجاتے ہیں۔۔معزز قارئین ۔۔۔!! میں نے اپنے سینئرز صحافیوں کو بتایا کہ میرے مشاہدے اور تجربے کے مطابق میں نے پاکستانی نجی چینل اے آر وائی نیٹ ورک اور بلخصوص نیوز کوہمیشہ اسلام محبت اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار دیکھا ہے ، یہاں تک کہ اس چینل کے مالکان کے عزم کو محسوس کیا، ان کی نفسیات کو پڑھا ہر جانب ان میں حب الوطنی اور عشق رسول پایا، اس چینل کے مالکان اسلام اور پاکستان کیلئے ہر قربانی پیش کرنے کیلئے ہمہ تن تیار رہتے ہیں انہیں پاکستان اور اسلام کی سلامتی و عزت کیلئے ہر نقصان کو گلے لگاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انہیں عزت و احترام کے علاوہ پاکستانی قوم کے دلوں میں بڑا مقام رکھا ہے، اے آر وائی نیٹ ورک کے مالکان بڑے دعوے نہیں کرتے بلکہ بڑے کام کرکے پاکستان اور عوام کی خدمت پیش کرتے چلے آرہے ہیں، مین نے اپنے سینئرز صھافیوں کو یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود الیکٹرونک میڈیا انڈسٹری میں اے آر وائی کے دریچے سے ہی پہلا قدم رکھا تھا ، اے آر وائی نے بے شمار میڈیا پرسن تیار کیئے ہیں جو حق و سچ پر جان بھی دینے میں کوئی دریغ نہیں کرتے کیونکہ اس چینل کا منشور ہی اسلام کی سربلندی اورحب الوطنی ہے۔۔معزز قارئین ۔۔۔!! میری بات سن کر سینئرز صحافیوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود اکیلا نہیں ہے کیونکہ اس کے حق و سچ میں کئی پروفیشنل صحافی حضرات اور حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والے اینکرز بھی ہیں، اپنے بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود ایک قابل ،ذہین، بہادر، ایماندار اور سچا انسان ہے اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہے تم دیکھنا جلد وہ دوبارہ اپنا پروگرام پیش کررہا ہوگا اور میڈیا میں چھپی کالی بھیڑوں کا کس طرح اسٹیٹ احتساب کریگی تاریخ رقم کی جائیگی،ان زرد صحافیوں کے سبب پاکستان کو نا تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور انشا اللہ بہت جلد عملی طور پر الیکٹرونک میڈیا کو پابند اخلاق، پابند عزت وطن اور پابند پروفیشنل ازم میں رکھا جائیگا۔اللہ اپسکتان کا حامی و ناظر رہے آمین ثما آمین ۔۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔!!

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 246181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.