سئوچ آف کنٹرول

علامہ خادم حسین رضوی کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں توڑ پھوڑ کروائی ۔راستوں کو بند کیا۔کارسرکارمیں مداخلت کے جرم وار ہوئے۔علامہ صاحب کو ان دنوں مختلف اطراف سے مشکلات کا سامنا ہے۔دہشت گردی اوربغاوت کے مقدمات بننا ان مشکلات کی انتہاسمجھا جاسکتاہے۔ان پر فیض آباد دھرنے کے حوالے سے عدالتی دباؤ بڑھ رہا تھا۔ان کی پارٹی فنڈ کا حساب مانگا جارہاتھا۔ایک نیا معاملہ آسیہ بی بی کی رہائی پر دیا جانے والا دھرنا ہے۔اس دھرنے کے دوران تین دن تک ملک جام رہا۔اس ایشو پر بدتدریج سختی بڑھتی چلی جارہی ہے۔پہلے خبریں آئیں کہ وزیرا عظم عمران خاں نے ملک بھر میں ہونے والی توڑ پھوڑ کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔انہوں نے شرپسندوں کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا۔بعد میں کچھ اسی قسم کے اشارے سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کی طرف سے ملنے لگے۔پچھلے ہفتے علامہ خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔اعلامیہ یہ جاری کیا گیا کہ انہیں تیس دنوں تک حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔اب اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ علامہ صاحب او ر ان کے قریبی ساتھیوں کے خلااف دہشت گردی او ر بغاوت کے مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔لگ رہا ہے کہ اب اس جماعت کو سبق سکھانے کا ذہن بن چکا۔میڈیا مکمل تعاون کررہاہے۔تحریک لبیک کا مکمل بلیک آؤٹ جاری ہے۔اول تو اس جماعت اور اس کی قیادت کی کچھ خبر آہی نہیں رہی۔کبھی آئی بھی تو اس جماعت کے خلاف ۔مجموعی تاثر یہی دکھایا جارہا ہے کہ علامہ خادم رضوی کی گرفتاری پرعوام میں کچھ تشویش نہیں پائی جارہی۔ان کے ورکر دبک کر بیٹھ چکے۔عوام ان سے متعلق کچھ توجہ نہیں رکھتی۔ایسا پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ جیسے اس گرفتاری کو مکمل عوامی حمایت حاصل ہے۔حکومت کی طاقت او ر نیک نیتی کا ڈھنڈورہ پیٹاجارہا ہے۔تاثر دیا جارہا ہے کہ پہلی بار حکومت میں کچھ ایمانداراور قابل لوگ آچکے جو اب قانون او ر اصول کی عملدار قائم کررہے ہیں۔

علامہ صاحب کی گرفتاری اور ان پر مقدمے چلنا غیر معمولی بات ہے۔ان پر فیض آبا ددھرنے اور بعد میں آسیہ بی بی کی رہائی پر دیے جانے والے دھرنے میں توڑ پھوڑ کروانے کاالزام ہے۔فیض آباد دھرنا میں زیادہ لوٹٖ مار کی گئی تھی۔میٹرو کا پورا اسٹیشن جلا دیا گیا۔پورے مہینے تک لوگو ں کی آمدورفت کا مسئلہ رہا۔دکانوں کو لوٹا گیا۔گاڑیوں کی توڑپھوڑ ہوئی۔آسیہ بی بی کی رہائی پردیے جانے والے دھرنے میں بھی کچھ اسی طرح کی توڑ پھوڑ ہوئی ۔گالیاں بکتے کچھ لوگ اندھا دھند گاڑیوں کوڈنڈے مارتے ۔آگ لگاتے دکھائی دیے۔اس سب کا حساب ضرور ہونا چاہیے۔ممکن ہے علامہ رضوی صاحب یا ان کے دیگر رفقاء اس فساد کا حصہ نہ نکلیں۔کچھ اور لوگ، کچھ غیر متعلقہ لوگ اس توڑ پھوڑ کے ذمہ نکلیں۔حقیقت بہرطور سامنے آنی چاہیے۔ جو اندھیرنگری بن چکی ہے۔اس کا کوئی حل ضرو ر ہونا چاہیے۔آزاد اور خودمختارریاست ہونے کے باوجود ریاستی رٹ بار بار ناکام ہورہی ہے۔جب چاہے کوئی آکر سڑکیں بلاک کردیتاہے۔جب تک چاہے بیٹھا رہتاہے۔ریاستی مشینری مکمل طور پر ناکام رہتی ہے۔ بجائے فسادیوں کو اٹھانے کے ان کے روٹی پانی کی فکر میں لگی نظر آتی ہے۔ریاست کی طرف سے فسادیوں کی سہولت کی کوششیں۔ان سے مذاکرات ۔ان سے مک مکا ۔تباہ کن روایت ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے اسلام آباد لانگ مارچ او ر دھرنے سے متعلق بڑے سخت ریماکس آئے ہیں۔کہا گیا ہے کہ جب بعد میں ثابت ہوگیا کہ دھاندلی نہیں ہوئی۔تو یہ دھرنا بے جواز ثابت ہوتاہے۔بتایا جائے کہ کیاعمران خان اور طاہر القادری نے چار مہینے تک اسلام آباد کو بلاک کیے رکھنے پرمعذرت کی ہے؟ یہ اندھیر نگر ی اچھی نہیں،دھرنا کلچر واقعی ایک لعنت بن کرسامنے آئی ہے۔ابھی تک کوئی دھرنا بھی اپنے مقاصد نہیں پاسکا۔ لانگ مارچ کا دھرنا حکومت گرانے کے لیے تھا حکومت نہیں گئی۔ فیض آباد دھرنے سے کوئی بڑی تبدیلی آئی نہ آسیہ بی بی کی رہائی پر دیے جانے والے دھرنے سے کچھ نکل پایا۔یہ دھرنے صرف اورصرف عام آدمی کو ضرور ہتھل کرنے کا سبب بنے۔ریاست کے ناکام ہونے کا لیبل ضرور لگاگئے۔ایک سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سوئچ آف کنٹرول آخر کس کے پاس ہے؟ کیوں بار بار ریاست کی رٹ مفلوج ہوجاتی ہے؟پولیس ۔رینجراور آرمی سمیت تمام انتظامی ادارے آخر اصل میں کس کے انڈرہیں۔ایک حکومت پولیس او ر فوج کو دھرنے کے خلاف متحرک ہونے کا کہتی ہے تو کان نہیں دھرا جاتا۔ایک دوسری حکومت کی کال پر زبردست ایکشن ہونے لگتاہے۔یہ تضاد کیوں ۔یہ تضاد ہی فساد کی اصل جڑ ہے جب تک یہ دورنہ ہوگاہم بھٹکتے رہیں گے۔فیض آباد دھرنے او ر اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران انتظامیہ اپنا زور دکھانے میں ناکام کیوں ہوئی؟آج یہ انتظامیہ کیوں کر اتنی مظبوط ہوگئی کہ چڑی تک کو پر مارنے کی جرات نہیں ہورہی۔سوئچ آف کنٹرول غیرمتعلقین کے ہاتھ میں ہے۔یہ اصل لوگوں کے پاس آنا چاہیے ۔اصل عوامی نمائندوں کے پاس کبھی بھی یہ سوئچ آف کنٹرول نہیں رہا۔وہ نام نہاد مالک ہونے کے باوجود بے کی کبھی بھی یہ تمنا نہ ہوگی کہ سڑکوں پر خلفشار رہے۔بدامنی نہ ہو۔مگر کیا کریں سوئچ آف کنٹرول کبھی بھی ان کے پاس نہیں رہا۔وہ نام نہاد مالک بننے کے باوجود بے بسی کی تصویر بنے رہے۔جب کہ اشارے پر ناچنے والی پتلیوں کے لیے یہ سوئچ بار بار آن آف کیے جاتے رہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.