متحدہ عرب امارات اور ٹویٹر انتظامیہ نے خاشقجی کے قتل میں کس طرح سعودی حکومت کی مدد کی

اب جبکہ اس لرزہ خیز قتل کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے لے کر ٹویٹر انتظامیہ تک نے محمد بن سلمان کو اپنے ناقدین کو ٹھکانے لگانے کے لئے معاونت فراہم کی ہے۔
ایک طرف متحدہ عرب مارات نے محمد بن سلمان کے تمام مخالفین کی جاسوسی کرتے ہوئے ان کے بارے میں سعودی حکومت کو مکمل معلومات فراہم کی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے بہت بڑی رقم خرچ کی ہے تو دوسری طرف متحدہ امارات کی طرف سے بڑی مالی پیشکش پر ٹویٹر نے دبئی آفس نے سعودی عرب کو ان تمام لوگوں کی خفیہ معلومات فراہم کی ہیں۔

خاشقجی کے قتل میں متحدہ عرب امارات اور ٹویٹر انتظامیہ کی معاونت

سعودی معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کےبعد جہاں پر امریکہ محمد بن سلمان کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے وہاں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اور بہت سے ممالک محمد بن سلمان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں جب امیرکہ مکمل طور پر محمد بن سلمان کی پشت پر ہے دنیا کا کوئی قانون محمد بن سلمان کی ہوا تک کو بھی نہیں چھو سکتا لیکن اس ساری صورت حال میں جو بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اتنا بڑا اقدام اکیلے محمد بن سلمان نے انجام نہیں دیا۔

بلکہ اس بڑی اور اندوہناک واردات میں کئی ایک ممالک اور بڑے ادارے بھی شامل ہیں اب جبکہ اس لرزہ خیز قتل کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے لے کر ٹویٹر انتظامیہ تک نے محمد بن سلمان کو اپنے ناقدین کو ٹھکانے لگانے کے لئے معاونت فراہم کی ہے۔

ایک طرف متحدہ عرب مارات نے محمد بن سلمان کے تمام مخالفین کی جاسوسی کرتے ہوئے ان کے بارے میں سعودی حکومت کو مکمل معلومات فراہم کی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے بہت بڑی رقم خرچ کی ہے تو دوسری طرف متحدہ امارات کی طرف سے بڑی مالی پیشکش پر ٹویٹر نے دبئی آفس نے سعودی عرب کو ان تمام لوگوں کی خفیہ معلومات فراہم کی ہیں۔

جو اس وقت ٹویٹر پر محمد بن سلمان یا سعودی حکومت کے خلاف فعال ہیں ترکی میں جمال خاشقجی کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اگر دبئی اور ٹویٹر انتظامیہ کی مدد اور معاونت نہ ہوتی تو کسی دوسرے ملک میں اتنی بڑی کارروائی کرنا نا ممکن تھا لیکن کیونکہ دبئی اینٹیلی جنس اور ٹویٹر انتظامیہ خاشقجی کی تمام نقل و حرکت سے آگاہ تھی اسی لئے خاشقجی کوٹھکانے لگانے کے لئے ترکی میں سعودی سفارت خانے کا انتخاب کیا گیا اس لئے کہ اگر ترکی میں کسی اورمقام کا انتخاب کیا جاتا تو ممکن ہے خاشقجی کو تقل کر دیا جاتا ۔

لیکن جس طرح محمد بن سلمان کی خواہش تھی اس انداز سے خاشقجی کا قتل نا ممکن تھا سو دبئی اور ٹویٹر انتظامیہ کے تعاون سے بظاہر انتہائی رازداری کے ساتھ یہ کام انجام دیا گیا ۔لیکن اس آپریشن میں شامل ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ترکی کی حکومت کو خبر دے دی ترکی نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھا دیا تا کہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ترکی کی اینٹیکی جنس بہت تیز ہے لیکن اصل واقعہ بتانے والے کا سرسری ذکرکرنے کے بعد یہ باور کروایا گیا کہ اس قتل کا کھوج ترک اینٹیلی جنس نے لگایا آپریشن میں شامل جس شخص نے قتل کے بارے میں رازداری کے ساتھ بتایا وہ انا انجام بھی کچح ایسا ہی دیکھ رہا تھا اس لئے کہ آپریشن کے دوران اس کی کچھ ایسی سرگرمیوں کا پتہ چلا جو بظاہر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حق میں نہیں تھیں۔

اس لئےء اس کو یقین یو گیا تھآ کہ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے گا جو خاشقجی کے ساتھ ہوا اس لئے اس نے خاشقجی کے قتل کا سارا معاملہ فاش کر دیا اس کے اس اقدام سے ناصرف اس کی جان بچ گئی بلکہ اس نے اپنے اس اقدام کے ذریعے ہزاروں علما اور دوسرے لوگوں کو جیل جانے اور قتل ہونے سے بچا لیا۔

اس لئے کہ امارات اور ٹویٹر انتظامیہ کی معاونت کے بعد ایک بڑے پیمانے پر حکومت مخالف لوگوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس منصوبے کا آغاز مرحوم جمال خآشقجی سے کیا گیا اب جبکہ جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ عالمی سطح پر توجہ حاصل کر چکا ہے اس لئے محمد بن سلمان اپنے منصوبے کے مطابق فی الحال اپنے مخالفین کے خلاف کوئی راست اقدام نہیں اٹھا سکتے۔

لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ آج ان کے ساتھ ہیں وہی کل ان کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے لئے جمال خاشقجی کے قتل کا سہارا لیں گے اور وہ تمام فہرستیں پبلک کر دیں گے جو محمد بن سلمان نے ٹویٹر انتظامیہ سے حاصل کی ہیں اور اس کے بعد ایک بار پھر محمد بن سلمان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر قدم اٹھآیا جائے گا اور کسی نئے محمد بن سلمان کو اقتدار سونپ دیا جائے گا۔سعودی اقتدار کی تاریخ یہی ہے۔
 

عبدالرحمن سلفی
About the Author: عبدالرحمن سلفی Read More Articles by عبدالرحمن سلفی: 4 Articles with 2754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.