درس نظامی ۔۔ماضی،حال اور مستقبل

پروفیسر محمد اسحاق علوی
مغل بادشاہوں اکبر ‘ شاہ جہاں اور عالم گیر کے عہد میں جن علماء نے علوم کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں ان میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی‘حکیم فتح اللہ شیرازی ‘عبدالسلام لاہوری ‘ملا قطب الدین سہالوی اور ان کے فرزند ملا نظام الدین قابل ذکر تھے۔ کہا جاتا ہے برصغیر ہند میں ”درس نظامی“ کا نصاب جو آج پاک و ہند کے دینی مدارس میں رائج ہے، ملا نظام الدین ہی نے مرتب کیا تھا۔تاہم کچھ مورخین اور محققین کی رائے میں درس نظامی کو ملا نظام الدین سے منسوب کرنا درست نہیں، بلکہ یہ نصاب حکیم فتح اللہ شیرازی نے ترتیب دیا تھا؛کیوں کہ ملا نظام الدین ان اہل اللہ میں سے تھے جن کے نزدیک اصل اہمیت ”تزکیہ نفس“ کو حاصل ہے‘ نہ کہ محض ظاہری علوم کو۔ اگر انہوں نے درس نظامی کا نصاب ترتیب دیا ہوتاتو وہ ضرور اس میں تزکیہ نفس‘ تقویٰ یا کردار سازی کی تعلیم وتربیت کو مناسب اہمیت دیتے۔ جب کہ موجودہ درس نظامی ان سب چیزوں سے ”پاک“ ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے یہ نصاب بڑی حد تک محروم ہے۔درس نظامی کے مرتب ملا نظام الدین اس لیے بھی نہیں ہو سکتے کہ ان کی علمی میراث کے وارث ملا بحرالعلوم ہوئے‘ان ہی سے خیرآباد کا علمی خاندان چلا۔ اسی چشمہ صافی سے شاہ عبدالرحیم دہلوی اور ان کے فرزند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ محدث دہلوی سیراب ہوئے۔لہذاوہ نصابِ تعلیم جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے ترتیب دیا تھا ‘ ملا نظام الدین کی فکر سے بہت زیادہ مطابقت رکھتا تھا۔


شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ۔ فکر جدید کے بانی:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے مرتب کردہ نصاب میں قرآن اور سیرت النبی کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی۔ انہوں نے یونانیوں کی نام نہاد معقولات‘فلسفہ و منطق کو مسترد کرکے حقیقی دینی علوم کے فروغ کی ایک جامع سکیم تیار کی تھی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ ”قرآن کریم اور سیرت ہی تمام علوم کی بنیاد اور اصل سرچشمہ ہے جو انسان کی روحانی اور مادی ترقی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ان ہی سے وہ بصیرت پیدا ہو سکتی ہے‘جو دنیاوی امامت و قیادت کے لیے بھی ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنے نصاب میں عربی زبان کو بنیادی اہمیت دی تھی کیوں کہ عربی قرآن فہمی اور سیرت النبی سے فیض حاصل کرنے کی کلید ہے۔المیہ یہ ہے کہ درس نظامی کی شکل میں نہ صرف ملانظام الدین اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی فکر سے بالکل متضاد نصاب مروج ہو گیا ، بلکہ اس میں عربی زبان کی اہمیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔اس نصاب کے ”علماءوفضلا“عربی لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں اصل اہمیت یونانیوں کے باطل اور فرسودہ فلسفے اور منطق کو حاصل ہے یا کچھ فقہی کتابوں اور علم کلام کی موشگافیوں کو ۔ حالانکہ قرآن کریم اور سیرت النبی ‘ کردارسازی یا تزکیہ نفس کے بنیادی مآخذ ہیں‘جب کہ موجودہ درس نظامی میں قرآن کی تعلیم برائے نام ہے اور سیرت النبی داخل ِنصاب ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے والے تزکیہ نفس‘روحانی بالیدگی‘اعلیٰ اخلاق ‘ بلند کردار اور بصیرت سے محروم ہوتے ہیں۔اس کی عملی مثالیں تاریخ میں بھی رقم ہیں اور موجودہ دور میں بھی بہت واضح اور نمایاں ہیں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ ظاہری علوم کے ساتھ باطنی پاکیزگی اور روحانی ترقی کے بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ درسِ نظامی کے بارے میں”تذکرۃ الرشید “میں ہے کہ منطق و فلسفے کے ساتھ مولانا گنگوہی کا تنفر عداوت کے درجے تک پہنچا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ آپ نے ارشاد فرمایا ”میرا جو مرید اور شاگرد فلسفے سے شغل رکھے گا وہ میرا مرید اور شاگرد نہیں ہے۔“

درس نظامی میں شامل یونانی فلسفہ و منطق کے بارے میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کی رائے بھی قابل توجہ ہے : ” علمِ کلام و فقہ کا استاد صَرف و نحو کے استاد سے بہتر ہے اور صرف ونحو کا استاد فلسفے کے علوم کے استاد سے بہتر ہے کیونکہ فلسفے کی علوم سے کوئی نسبت نہیں ۔ اس کے اکثر مسائل بے مقصد ‘ لاحاصل بلکہ باطل ہیں۔ اس کے پڑھنے والے جہل مرکب کا شکار ہو جاتے ہیں۔“

خود رو اور سیکولر نصاب:
درس نظامی کا تجزیہ شاہ سلیمان سجادہ نشین پھلواری شریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:” درس نظامی ایک خودرونظام تعلیم ہے‘اس درس کو حضرت قبلہ ملانظام الدین رحمہ اللہ کا درس کہنا سراسر گستاخی اور بے ادبی ہے۔حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ نے نہ یہ موجودہ کتابیں پڑھائیں‘نہ ہی اکثر کتابیں ان کے وقت میں تالیف ہوئی تھیں۔کچھ تو بعضے اساتذہ نے اپنے مذاق کے موافق کتابیں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کے مذاق نے اضافہ کیا۔ حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ کا دامن اس سے پاک ہے۔ حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ صوفی صافی عالی مشرب تھے ‘ اگر وہ اس نظام کو درست فرماتے توباطنی پاکیزگی یا اخلاق کی کوئی کتاب اس میں ضرور داخل کرتے۔ “ (بحوالہ رودِ کوثر)

حضرت شاہ ولی اللہ نے تاریخ کے مطالعے کو ”تذکیر بایّام اللہ “سے تعبیر کیا ہے‘جسے وہ قرآن کے پانچ علوم میں سے ایک علم سمجھتے ہیں۔مسلمانوں کے حکمران طبقے اور نام نہاد مذہبی گروہ جسے اسلام کی حقانیت ثابت کرنے سے کوئی غرض نہیں ،جدید علوم تو کیا یہ پرانے علوم کے بھی دشمن ہیں۔حد یہ ہے کہ درس نظامی میں مسلمانوں کی تاریخ بھی شامل نہیں۔

قرآن و سنت سے دوری:
حال ہی میں ایک ایسے ہی علامہ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں ارشاد فرمایا ” قرآن میں وعدہ وفا کرنے کا کوئی ذکر نہیں ‘ اس کے لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دوبارہ پھیرا لگانا پڑے گا۔“حالانکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں وعدہ پورا کرنے کی تاکید بھی موجود ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزا بھی رکھی ہوئی ہے ۔سورہ بنی اسرائیل میں ہے۔ ”وعدہ پورا کرو ‘ اس کے بارے میں تم سے باز پرس ہوگی ۔ “سورہ بقرہ کی آیت 177میں ارشاد ہوا : ”حقیقی مؤمن وہی ہیں کہ عہد کرکے پورا کرتے ہیں۔ “

یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ درس نظامی سے فارغ ہونے والوں کو قرآنی آیات کیوں یاد نہیں رہتیں؟ اس لیے کہ اس نصاب میں قرآن فہمی کو بنیادی اہمیت ہی نہیں دی گئی ہے۔درس نظامی کے نظام و نصاب کو لادینی (Secular) قراردینا بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے، لیکن عملی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ درس نظامی ہر اعتبار سے لادینی نصاب ہے جو ماضی کے لادین حکمرانوں نے محض حکومتی تقاضوں کو پورا کرنے اور سرکاری کلرک وغیرہ تیار کرنے کے لیے وضع کیا تھا۔اس کی ایک واضح شہادت یہ ہے کہ اس نصاب میں قرآن و حدیث کا جو حصہ شامل ہے وہ ا س سے بھی کہیں کم ہے جتنا کہ موجودہ لادین تعلیمی نصاب میں شامل ہے۔سورہ الانفال اور سورہ احزاب کا ترجمہ اور تفسیر میٹرک کے نصاب میں شامل ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد ‘ ارکان اسلام کی تشریح و تفصیل ‘ 10آیات اور 10احادیث کی تشریح ایف اے کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کے برعکس درس نظامی میں صرف سورہ بقرہ کی تفسیر بیضاوی شامل ہے‘ وہ بھی صرف برکت کے لیے ۔ اس کے بالالتزام اور تحقیقی مطالعے سے درس نظامی کے مدرسین اور طلبہ دونوں ہی محروم رہتے ہیں۔

حدیث نبوی کے ساتھ درس نظامی میں جو سلوک کیاجاتا ہے وہ بھی نہایت افسوس ناک ہے ۔ ان مدارس میں حدیث کا مطالعہ نہیں بلکہ محض ”دورہ“ کرایا جاتا ہے۔حدیث صرف آخری برس میں پڑھائی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ حدیث کی دس کتابوں کی تبرکاً ورق گردانی کے بعد سند فضیلت عطا کر دی جاتی ہے۔ایک برس میں ساری کتابوں کا پڑھنا ممکن ہی نہیں،حدیث کی دس کتب میں سے ہر کتاب جہازی سائز کے کم از کم سات سو صفحات پر مشتمل ہے؛جب کہ ”دورہ“ کا دورانیہ صرف نوماہ کا رکھا گیا ہے۔اتنے دنوں میں تو حدیث کی ان کتب کی ورق گردانی بھی ممکن نہیں۔ درس نظامی کے مدرسین بالعموم اور حدیث کے اساتذہ بالخصوص فروعی اور فرقہ وارانہ مسائل کی تفصیلات میں تو پوری توانائی خرچ کرتے ہیں لیکن اسلام کی بنیادی تعلیمات‘اس کے آفاقی اصول‘اس کے اجتماعی نظام اور اس کی روح کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔راقم الحروف کو بخوبی یاد ہے کہ ”بخاری“ کے درس کے دوران شیخ الحدیث صاحب نے ”رفع یدین“ کے رد میں 16 دن تک دھواں دار بحث فرمائی،لیکن بخاری شریف میں مزارعت ‘ تجارت ‘ معاملات ‘ جہاد اور معاشرتی مباحث شروع ہوئے، تو ایک طالب علم صرف عبارت پڑھتا جاتا تھا اور حضرت شیخ الحدیث آنکھیں بند کرکے سن لیتے تھے یا اگر نیند کا غلبہ ہوتا تو تکیہ لگا کر آرام بھی فرما لیتے تھے۔ان حقائق سے یہ امر واضح کرنا مقصود ہے کہ مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب دین کے اصل ماخذ قرآن وحدیث سے کس قدر عاری ہے۔ وہ نصاب جس میں قرآن و سنت کا تفصیلی اور تحقیقی مطالعہ ہی شامل نہ ہو،وہ کیسے دینی نصاب کہلا سکتا ہے !

مردہ لاشیں اٹھانے والے:
کمیو نسٹ انقلاب سے پہلے وسط ایشیا کی ریاستوں میں بھی قرآن وحدیث پڑھنے کا رواج نہ تھا ۔ اس کے بجائے وہاں کا ’مدرسہ‘ یونانی فلسفہ و منطق کے خبط میں مبتلا اور فقہی لاف زنیوں اور موشگافیوں میں غرق تھا۔ فلسفہ و منطق کی ان مردہ لاشوں نے نئی نسل کو قرآن و حدیث اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چشمہ صافی سے محروم رکھا۔ اس کے نتیجے میں علم کی حقیقی و پختہ بنیادیں مسمار ہو گئیں اور اخلاق و کردار ناپید ہوتا چلا گیا۔اس کی کوکھ سے علمائے سوء کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس نے دین فروشی اور فتویٰ فروشی سے زر و جواہر تو خوب سمیٹے مگر دین کے لیے بدنامی کے سوا کچھ کما نہ سکے ۔ اب سوال یہ ہے ان لوگوں کو آج بھی مردہ لاشیں اٹھانے کا شوق اور زندہ علوم سے نفرت کیوں ہے؟جواب بہت سادہ ہے‘اللہ کے رسول نے جن نفوس کا تزکیہ فرما کر انہیں دنیا کا امام بنایا‘دنیا کی روحانی‘ اخلاقی اور تہذیبی قیادت کا اہل بنایا‘ان کی تعلیم و تربیت کی بنیاد قرآنی تعلیمات اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھی۔سیدنا صدیق اکبر رحمہ اللہ اور حضرت عمر فاروق رحمہ اللہ کی سیرت ان ہی بنیادوں پر تعمیر ہوئی تھی جب کہ درس نظامی ان بنیادوں سے محروم ہے۔ تزکیہ نفس اور کردار سازی کے اصل ذرائع سے محروم رہ جانے والے لوگوں سے خدا پرستی‘حقیقت بینی‘اور باطنی بصیرت کی نعمت اللہ تعالیٰ چھین لیتا ہے اور ان میں بے شمار دوسری”پرستیوں“کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ان میں بت پرستی‘زرپرستی‘دنیا پرستی اوراسلاف پرستی جیسی مہلک بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

قرآ ن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام تعلیم وتربیت چار ستونوں پر کھڑا ہے۔سورۃ بقرہ آیت129اور آیت151سورۃ آل عمران آیت164اور سورۃ جمعہ آیت2 میں اسلام کے اس نصاب کا تذکرہ ان ہی چار عنوانات کے تحت کیا گیا ہے:”درحقیقت اہل ایمان پر اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے ان کو کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور ان کو حکمت سکھاتا ہے(آل عمران۔164)۔ “تعلیم وتربیت کی ان ہی چار بنیادوں سے درس نظامی کو محروم رکھا گیا ہے کہ جن کے بغیر قرآن کی رو سے انسان”کھلی گمراہی میں پڑا ہوا تھا“۔آئیے ایک نظر قرآنی نصاب کے چار بنیادی ارکان پر ڈالیں اور پھردرس نظامی کے نصاب کا جائزہ لیں:
۔ تلاوت آیات
۔تعلیم کتاب
۔تعلیم حکمت
۔تزکیہ

درس نظامی میں یہ چاروں اجزاء کہاں نظر آتے ہیں؟ تلاوت آیات کا تقاضا کسی حد تک تحفیظ کے اداروں میں نبھایا جاتا ہے، جن کا درس نظامی سے کوئی واسطہ نہیں۔ درس نظامی کے مدارس میں آپ کو تلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اس کے برعکس اکابر پرستی اور ماضی کے فرسودہ خیالات و مردہ افکار کی یلغار دکھائی دیتی ہے ۔ان مردہ افکار میں یونانی فلسفے اور منطق کو مرکزیت حاصل ہے ۔ ان ہی فرسودہ خیالات اور مردہ علوم نے مسلمانوں کو بھی مردہ بنا دیا ہے اور اندھی تقلید ان کا جزو ایمان بن گئی ہے۔جمود وتعطل کا گہن ان کی ذہنی صلاحیتوں کو چاٹ گیا ‘ ضد اور ہٹ دھرمی ان کا قومی نشان بن گئی ۔ ماضی پر اِترانا اور حال و مستقبل سے آنکھیں بند کرکے زندگی گزارنا نیکی‘تقویٰ اور بزرگی کی علامت ٹھہرا۔ سقوط بغداد سے لے کر سقوط اسپین تک اور ترکی میں خلافت عثمانیہ کے زوال سے سقوط ڈھاکہ تک مسلمانوں پر جتنی قیامتیں بھی ٹوٹیں‘اس کی بڑی ذمے داری ان ہی لاش برداروں‘عقل کے دشمنوں اور قرآن و حدیث سے انحراف کرنے والوں پر عاید ہوتی ہے۔

دو انتہاؤں کے بیچ کی جماعت
شاہ ولی اللہ، رحمہ اللہ مجدد الف ثانی اور مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے اس اکابر پرست گروہ کو مسلمانوں کے ایمان و کردار کی کمزوری‘علمی پس ماندگی‘معاشی زبوں حالی اور سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔مولانا ابوالکلام جدید ترکی کے دین سے بے زار ہونے کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” مغربی تمدن کی اشاعت نے مشرق میں سخت کشمکش پیدا کر دی ہے۔ایک طرف قدیم افکار ہیں‘ دوسری طرف جدید اصول‘یہی کشمکش عالم اسلام میں بھی جاری ہے۔اس سے تین جماعتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ ایک جماعت قدیم سکول کی ہے جو اپنے تمام تقلیدی رسومات و خیالات پر سختی کے ساتھ جمی ہوئی ہے‘ کسی طرح کی لچک اور حرکت اس میں نہیں پائی جاتی ۔ دوسری جماعت نئی نسل کی ہے۔اس نے مغربی تمدن کی ہوا میں پرورش پائی ہے‘لیکن اسلامی تعلیم و آداب سے بے بہرہ ہے‘ وہ متعصب اور جامد علماءاور عوام الناس کے عقائد و رسوم کو ہی اسلام سمجھتی ہے اور انہیں ترقی میں مانع دیکھ کر متوحش اور مضطرب ہو گئی ہے۔ تیسری جماعت معتدل فکر و نظر کی ہے‘یہ ان دونوں کناروں کے وسط میں ہے۔یہ نہ پہلی جماعت کی طرح تقلید میں جمی ہوئی ہے‘نہ دوسری کی طرح مغربی سیلاب میں بہہ گئی ہے۔اس کا اعتقاد یہ ہے کہ مغربی تمدن کی تمام خوبیاں حاصل کی جا سکتی ہیں‘ بغیر اس کے کہ اسلام کی حقیقی اور خالص روح کو نقصان پہنچایا جائے۔ بدقسمتی سے ترکی میں صرف پہلی دو جماعتیں پائی جاتی ہیں ‘ تیسری جماعت مفقود ہے ‘ میرے خیال میں ساری دقتیں اور مشکلات اسی کا نتیجہ ہیں ۔ “ (تبرکاتِ آزاد،مرتبہ غلام رسول مہر )

شاہ ولی اللہ کے نزدیک امت مسلمہ کا بگاڑ ‘ فساد اور زوال کا بنیادی سبب قرآنی تعلیمات سے انحراف اور سنت کا ترک کرنا تھا۔چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی قرآنی تعلیمات کو پھیلانے اور حدیث نبوی کی اشاعت کے لیے وقف کیے رکھی ۔ ان کے چار فرزندوں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ ‘ شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ ‘شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ اور شاہ عبدالغنی رحمہ اللہ نے اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔سید احمد شہید رحمہ اللہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی تحریک مجاہدین نے اسی عظیم تحریک کی اپنے پاک لہو سے آبیاری کی۔دارالعلوم دیوبند کے بزرگوں میں سے شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تحریک”رجوع الی القرآن“کو دوبارہ زندہ کیا۔مالٹا میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد رہا ہوئے تو دق جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھے۔اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں: ” میں جیل کی تنہائیوں میں غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے زوال کا حقیقی اور اصل سبب قرآن کریم کی تعلیمات سے انحراف ہے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ زندگی کے باقی ماندہ ایام میں دیہات میں قرآنی مدارس قائم کروں گا جہاں بچوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم دی جائے گی اور نوجوانوں کے لیے قرآن کے ترجمے اور تفسیر کا نصاب مرتب کروں گا۔“

پس چہ باید کرد؟:
درس نظامی کے منتظمین نے نہ اسلامی علوم کے اصل سرچشموں ‘ قرآن کریم اور حدیث نبوی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ‘ آج امت مسلمہ اسی جرم کی سزا بھگت رہی ہے۔ کم وبیش تین صدیوں سے سامراجی طاقتوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے ۔ اسلامی ممالک وسائل سے معمور ہونے کے باوجود اذیت ناک غربت و افلاس کے عفریت کے پنجوں میں دبے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا تھا کہ انہوں نے جب احکام خداوندی سے روگردانی کی تو ان پر غربت ‘مسکنت‘ذلت و رسوائی کا عذاب مسلط کر دیا گیا۔ آج امت مسلمہ اسی آیت کی مصداق بن چکی ہے۔ 1857ءسے 1947ءتک برصغیر ہند کے مسلمانوں کی گردنوں میں صرف ایک سامراجی طاقت کا طوقِ غلامی پڑا ہواتھا۔ آج تین سامراجی طاقتوں نے بیک وقت پاکستان کو اپنے قدموں میں گرا کر دبوچ رکھا ہے۔اس صورت حال کی بڑی ذمے داری مردہ علوم کی لاشیں اٹھانے والے علماء سو پرعائد ہوتی ہے۔انہیں خو د سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے دعوے کے مطابق پاکستان میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے،تو ان بحرانوں میں امت کی ان لاکھوں”علماء“سے کیا امید پوری ہوئی؟ان سے کیا گلہ کریں کہ مردہ علوم مردہ ضمیر ہی کو جنم دے سکتے ہیں۔انہیں ہنر ہی یہ سکھایا گیا ہے کہ اسلام کا نام لے کر پیٹ کے دھندے میں مصروف رہیں اور دین کی بدنامی کا سبب بنتے رہیں۔ان کے بوسیدہ نظام تعلیم و تربیت سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ درس نظامی کی سیکو لر بنیادیں منہدم کر کے دینی نصاب کو ان بنیادی اصولوں کی روشنی میں نئے سرے سے مرتب کیا جائے جو حضر ت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ، شیخ الہندرحمہ اللہ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی روشن فکر کے مطابق ہو اور ان کے علمی ذخیرے سے استفادے پر مبنی ہو۔منطق و فلسفے کے مردہ پشتارے کو دریا برد کر کے نئے نصاب میں دین کے اصل ماخذ قرآن‘حدیث نبوی‘سیرت رسول‘عربی ادب اور عربی قواعدکی کتب شامل کی جائیں۔ کیوں کہ قرآن ہی وہ کتاب ہے ‘ جس کے سمجھنے سے ایمان نکھرتا اور بڑھتا ہے ، سیرت وکردار میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے‘جس سے حکمت ودانش کی راہیں کھلتی ہیں‘اظہار وبیان کے نئے اسلوب سامنے آتے ہیں اور آفاق وانفس کے دلائل سے دین کی ابدی سچائیوں کو ثابت کرنے کی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں‘جس سے ایمان کی روشنی پھیلتی اور کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں۔قرآن کریم کا نور عام کرنے کی ضرورت ہے ۔

( بشکریہ ماہنامہ جہادِ کشمیر، بابت ماہِ اگست 2009ء)
Ayesha Afzal
About the Author: Ayesha Afzal Read More Articles by Ayesha Afzal: 3 Articles with 3697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.