صداقت کی راہ

پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس ملک پر تسلسل سے مارشل لاﺅں کا نفا ذ رہا ہے ، جمہو ری روایات سے انحراف نے معاشرے میں برداشت کے فقدان کو پروان چڑھایا ہے۔ جنرل ضیا الحق کا مارشل لا اس ملک کے لئے ایک بھیا نک خواب تھا کیو نکہ اس نے اس ملک پر مذہبی شدت پسندی کے نفاذ کی راہیں کشادہ کیں۔ جنرل ضیا الحق اپنے اقتدار کے دوام کی خا طر پاکستان کی سا لمیت کو بھلا بیٹھا تھا ۔اسکی زندگی کا واحد مقصد پی پی پی کو کچلنا اور اپنے سب سے بڑے حریف ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹا نا تھا اورا س کے لئے اس نے مذہبی انتہا پسندوں سے گٹھ جوڑھ کر لیا اور رجعت پسند قوتوں کو ساتھ ملا لیا جس نے ملک کو ایک ایسی ڈگر پر ڈال دیا جس سے جان چھڑا نا ممکن نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو راہ سے ہٹانے کے لئے اس نے ایسی راہ کا انتخاب کر لیا جس میں پاکستان کی سلامتی داﺅ پر لگ گئی لیکن اس نے اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر اس راہ کے انتخاب میں حیل و و حجت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسکی ذاتی اقتدار کی خواہش کے سامنے پاکستان کے مستقبل کی کو ئی حیثیت نہیں تھی اور اسکا کردار اس بات پر گواہ ہے۔ اقتدار کی ہوس میں جنرل ضیا الحق کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ اقتدار کی خا طر ملک کے مستقبل کو داﺅ پر نہیں لگا یا جا سکتا لیکن چونکہ اسے اقتدار ہر شہ سے زیا دہ عزیز تھا لہٰذا اس نے ملکی بقا کو داﺅ پر لگا دیا ۔ سیاسی کارکن صخافی دانشور شاعر ادیب اور فنکار اسکی بر بریت کا نشانہ بنے اس نے ایسا خونخوار ماحول تخلیق کیا جس میں کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہیں تھی۔اس نے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا اور پھر جمہو ریت پسند افراد کو چن چن کر ریاستی تشدد کا نشانہ بنا یا اور اس نے یہ سارا کھیل مذہب کے نام پر کھیلا جس میں مذ ہبی قیادت کا اسے بھر پور تعاون حا صل تھا۔ اس نے ایک ایسی مذہبی قیادت کو ابھارا جو اسلام کے نام پر متشدد تھی ، بے رحم تھی اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بے بہرہ تھی ۔
رحمتِ سیدِ لو لاک پہ کامل ایمان۔۔امتِ سیدم لو لاک سے خوف آتا ہے (افتحار عارف)

جو لا ئی ۷۷۹۱ کا فوجی شب خون ہی مذہبی حلقوں سے جنرل ضیا الحق کی دوستی کی وہ پہلی اینٹ تھی جس نے پاکستانی عمارت کی خوبصورتی اور مضبو طی اور دلکشی کو متا ثر کیا، اسکے عظیم مقاصد سے انحراف کیا ور پاکستان کی پہچان ایک شدت پسند ملک کی حیثیت سے پوری دنیا میں نفرت کی علامت بنا نے میں بنیا دی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی قوم کو بحثیتِ قوم ہر جگہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ہم نے تحمل اور برداشت کی روح کو اس بری طرح سے قتل کیا ہے کہ اسکا موجودہ حالات میں احیا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تحمل برداشت اور مفا ہمت کے خوبصورت روش کو دوبارہ زندہ کریں تا کہ ہم اقوامِ عالم میں ایک با وقار قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کروا سکیں اور دنیا کو یہ با ور کرا سکیں کہ ہم مذہبی رواداری کے امین بھی ہیں اور دوسرے مذاہب کا احترام بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کا بنیا دی ستون ہے۔

دھشت گردی نے پاکستانی معاشرے کو بڑی سختی سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور شدت پسندی کا کالا ناگ پھن بھیلا ئے امن پسند شہریوں کو اپنے زہر سے موت کی ابدی نیند سلا رہا ہے۔ اس سے معاشرتی اقدار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں لہٰذا ہمیں معاشرے سے شدت پسندی اور عدمِ روا داری کے انسانیت کش اور زہر یلے جذ بوں کے خا تمے کےلئے جنگ کر نی ہو گی ۔ قوم کو دھشت گردی کے خلاف صف آرا ہو نا ہو گا اور چند مٹھی بھر عنا صر سے ملک کو پاک صاف کرنا ہو گا۔ پاکستان کا تشخص ایک امن پسند ملک کی حیثیت سے دنیا پر وا ضح کرنا ہو گا۔ بندوق کی گولی اور اسلحے کے زور پر دوسروں کو نیست و نا بود کرنا اور اپنی رائے کو دوسروں پر تھو پنے کی روش کا خا تمہ بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسا پاکستان دینا ہو گا جو امن کا ضا من ہو جس میں مفا ہمت اور برداشت کا دور دورہ ہو، جو دوسروں کے احترام اور عزت پر قائم ہو جس میں شدت پسندی اور دھشت گردی کی گنجا ئش نہ ہو جس میں انسا نی حقوق اور ا نسا نی محبت پھو لوں کی خوشبو کی طرح ذ ہنِ انسانی کو معطر کرتی ہو اور سب کو زندہ رہنے کا حق دیتی ہو۔ وقت آگیا ہے کہ ہم شدت پسند عنا صر سے سختی سے نپٹیں کیونکہ دھشت گرد اپنی حدود سے تجا وز کرتے جا رہے ہیں اور معاشرے کو یر غمال بنا نا چا ہتے ہیں۔۔

جنرل پرویز مشرف کی نو سالہ فوجی آمریت کے بعد پاکستان میں جمہو رت نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا لیکن بہت سی نا دیدہ قوتیں اس جمہو ری تجربے کی راہ میں رو ڑے اٹکا رہی ہیں اور اسے نا کامی سے ہمکنار کرنا چا ہتی ہیں۔ جمہو ریت پاکستانی قوم کو طشتری میں رکھ کر نہیں دی گئی بلکہ پاکستانی قوم نے اس کے لئے اپنی جا نوں کا نذرانہ دیا ہے تب کہیں جا کر مو جودہ جمہو ریت پاکستانی قوم کا مقدر بنی ہے۔ وکلا ، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے سال ہا سال کی جدو جہد اور احتجاج کے بعد جمہو ریت کے سورج کو ابھرتا ہو ا دیکھا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت جمہوریت کےلئے سب سے بڑا نذرانہ ہے اس کے لہو نے آمریت کہ بلند و با لا عمارت کہ پلک جھپکنے میں زمین بوس کر کے رکھ دیا تھا اور آمروں کے پاس ملک سے فرار ہو نے کے علاوہ کو ئی راستہ نہ تھا لیکن پی پی پی پھر بھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے اور اسکا و جود برداشت سے باہر ہے کیونکہ پی پی پی ان لوگوں کو قتدار میں دیکھنا چا ہتی ہے جو اس ملک کے پسماندہ، غریب نادار اور پسے ہو ئے لوگ ہیں اور یہ بات تفاخر میں ر چی بسی اشرافیہ کو کیسے قبول ہو سکتی ہے۔

پاکستان پیپلز پار ٹی ایک ترقی پسند جماعت ہو نے کے نا طے ہمیشہ مذ ہبی پیشوا ئیت کی شدید تنقید کا نشا نہ بنتی رہی ہے کیو نکہ وہ انکے آہنی اور بے رحم پنجوں سے عوام کو نجات دینا چا ہتی ہے اور انھیں تکریمِ انسانیت کے اعلی و ارفع ثمرات سے بہرہ ور کرنا چا ہتی ہے لہذا پی پی پی اور مذہبی پیشوا ئیت کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ ہمیشہ سے قائم رہی ہے اس جنگ کا پہلا شکار ذوا لفقار علی بھٹو بنے تھے ا س کا دوسرا شکار محترمہ بے نظیر بھٹو بنی تھیں اور اس کا تیسر ا شکار سلمان تا ثیر بنا ہے۔ اگر چہ تینوں واردا توں میں تنوع ہے لیکن اگر بنظرِ عمیق سب کا تجزیہ کیا جا ئے تو مذہبی پیشوا ئیت اور پی پی پی کی با ہمی مخا صمت ان سارے وا قعات میں جھلکتی ہو ئی نظر آرہی ہے مذہبی شدت پسندوں سے جیتنا یاانکی افواہوں اور فتوؤں سے محفوظ رہنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ انکے پاس مذہب کی ایسی دلکش پٹاری ہے جس سے اسلام کے نام پر صرف موت کے پروانے تقسیم ہو تے ہیں جذبات انگیز اور ہوش ربا خطاب میں وہ مذہب کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جسکا واحد مقصد اپنے مخا لف کی زندگی کا چراغ گل کرنا ہو تا ہے اور وقت آنے پر وہ ایسا کر کے ہی دم لیتے ہیں۔
قلندر جز دو حرفِ لا الہ کچھ نہیں رکھتا۔ ۔ فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہا ئے حجازی کا (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

حکومتِ پنجاب سے سلمان تا ثیر کی پرخاش سب کے سامنے ہے لیکن انھیں جہاں بھی مو قعہ ملتا تھا وہ اپنا موقف صاف وا ضح اور مدلل انداز میں پیش کرنے سے نہیں رکتے تھے۔میاں برادران سے ا سکی مخاصمت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے میاں برادران سلمان تا ثیر کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ تصور کرتے تھے لہٰذا انکی تنقیدی توپوں کا رخ ہمیشہ سلمان تا ثیر کی جانب ہو تا تھا وہ اسے بڑے بڑے القابات سے بھی نوازتے تھے اور اسکی کردار کشی میں بھی کو ئی دقیقہ فرو گزا شت نہیں کرتے تھے۔ صوبہ پنجاب میں گو رنر راج کا نفا ذ بھی سلمان تا ثیر کے دورِ گورنری میں عمل پذیر ہوا تھا لہٰذا میاں برادران کی تنقید کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہے۔ رانا ثنا اللہ ا ینڈ کمپنی نے جسطرح گو رنر کی شخصیت پر رکیک حملے کئے وہ بھی کو ئی سر بستہ راز نہیں ہے۔ انھیں تو اٹھتے بیٹھتے ہر طرف سلمان تا ثیر ہی نظر آ تا تھا کیونکہ وہ اسے اپنے اقتدار کے لئے خطرہ تصور کرتے تھے ۔ جمہو ری سیا ست میں ایک دوسرے کے خلاف بیا نات اور محاذ آرائی معمول کے واقعات ہو تے ہیں لہٰذا میاں برادران کی تنقید اور رانا ثنا اللہ کی لن ترانیاں اسی تنا ظر میں دیکھی جا نی چا ئیں لیکن سیاستدان اگر لاشیں اٹھا نے کا د ھندا شروع کر دیں گے تو پھر پاکستان کا استحکام کہیں بھی نظر نہیں آئے گا ہر طرف انارکی اور خانہ جنگی کا راج ہو گا اور ہر فرد ایک دوسرے کے خون کا پیا سا ہو گا جو پاکستان کی سالمیت ، اس کی ترقی ، استحکام اور خو شخا لی پر گہرا وار ہو گا لہٰذا سیا ست میں برداشت اور عفو در گزر کی سوچ کا جاری و ساری رہنا قوم و وطن کے لئے انتہا ئی ضروری ہے۔

سلیمان تا ثیر کی شہا دت اسی جمہو ری راہ کے لئے ایک اور بڑی قربا نی ہے جسے قوم کبھی فرا موش نہیں کر سکتی۔ سلیمان تا ثیر جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کے اظہار میں کبھی بھی تا مل نہیں کرتے تھے ۔ انھیں کوئی بھی قوت سچ کے اظہار سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔ انکے اظہار کے اس انداز سے بہت سے حلقے ناراض بھی تھے نا خوش بھی تھے لیکن سلیمان تا ثیر کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے سے نہیں ہچکچا تے تھے۔ موقف کی سچا ئی کا بے لاگ اظہار ہی انکی پہچان تھی اور وہ ترقی پسند اور دانشور حلقوں میں انتہا ئی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے جا تے تھے۔سلمان تاثیر نے اپنے موقف کی سچا ئی کو کبھی چھپا نے کی کو شش نہیں کی بلکہ جو کچھ محسوس کیا اسے ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ ا سکا یہ بے باک انداز شدت پسندوں کے سینوں میں تیر کی طرح پیوست ہو گیا اور انھوں نے مذہب کی آڑ میں اس کے قتل کا فیصلہ کر لیا۔
یہی لہجہ تھا کہ معیارِ ِ سخن ٹھہرا تھا۔۔۔اب اسی لہجہ بے باک سے خوف آتا ہے(افتحار عارف)

سلمان تا ثیر نے اقدار سے تہی دامن سوسا ئٹی میں جراتوں کے نئے چراغ روشن کئے ۔ اخلاقی لحاظ سے بانجھ معاشرے میں سچ کو نئی زبان عطا کی، مردوں کی بستی میں حریت کا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔جرات و بہادری کو نئے افق عطا کئے اور جی داری کا ایسا دلکش باب رقم کیا جسے فرا موش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اقتدار کی خواہش اور مفاداتِ عاجلہ کا وہ کھیل جو پاکستانی سیاست کا خاصہ ہے اور پا کستا نی سیاستدا نوں کی کمزوری رہا ہے۔اسی معاشرے میں سلمان تا ثیر نے سچا ئی کے کھلے اظہار سے سب کو حیران کر دیا۔ اس نے اقتدار ،زندگی اور مفادات سے بے نیاز ہو کر سچا ئی کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنا لیا۔ وہ کمزور ،بے بس، ناتواں، خاک نشین اور محروم لوگوں کی آواز بن کر ابھرا اور اپنے نافی ا لضمیر کے اظہار میں اس نے کسی کی پرواہ نہ کی۔ سلمان تاثیر اتنا قد آور نکلے گا قوم کو اسکا مکمل ادراک نہیں تھا لیکن اسکے آخری ا لفاظ پر اگر غور کیا جا ئے تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ وہ شدت پسندی کو پو ری قوت سے چیلنج کرنا چا ہتا تھا اور اپنی فکر کی حقانیت کے لئے مقتل گاہ کو اپنے لہو سے سجا نے کے لئے بھی تیار تھا ۔شدت پسندوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈال کر اس نے جس راہ کا انتحاب کیا ہے وہ واقعی صداقت کے علمبر داروں کی راہ ہے ۔اپنی جان لٹانے کے عزم کا اظہار اسکے آخری پیغام میں ملتا ہے جو وہ ہم سب کے لئے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ مجھ پر مذہب پرست طبقے کا سخت دبا ﺅ ہے لیکن میں انکے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کرونگا میں آخری دم تک لڑو نگا چاہے اس راہ میں میری جان چلی جا ئے۔ اسکا آخری پیغام اسکے جذبوں کی صداقت کا گواہ ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل کی مذمت اور اس راہ پر جان کی بازی لگا دینے کے اس کے فیصلے نے اسے بلند و با لا مقام پر فائز کر دیا ہے۔
بے زباں لوگوں کا تم جب آسرا بن جا ﺅ گے۔۔تم زبانِ خلق پر حرفِ دعا بن جا ﺅ گے
خود کھنچا آئے گا اک دن اہلِ دل کا قافلہ۔۔اہلِ دل کے واسطے تم دلربا بن جا ﺅ گے
ڈاکٹر مقصود جعفری
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.