عمران حکومت کے چالیس دن

تحریک انصاف کی حکومت کے چالیس دنوں کا جایزہ اور تجاویز

تحریک انصاف کی حکومت بنے چالیس دن گزر گئے۔ تبدیلی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے صرف غریب عوام کو مزید مہنگائی اور ہر فیصلہ پر یوٹرن کا تحفہ ہی دے سکے۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر بڑکیں مارنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن حکومت میں آکر اپنی بڑکوں پر عمل کرنا انتہائی مشکل۔ ایسے میں یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرنا کہ وہ تو سیاسی بیان تھےجن کا مقصد عوام سے اپنے حق میں ووٹ لینا تھا گویا یہ تسلیم کرنا ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے کسی بھی طریقہ سے عوام کو بیوقوف بنانا جائز ہے جو آپ نے بخوبی بنایا۔یہ درست ہے کہ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ یقیناً وہ پاکستان میں مثبت تبدیلی لانے کے خواہشمند ہوں گے۔لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ صرف وزیر اعظم بننے کی اپنی ذاتی خواہش کو پورا کرنے کے لیےبیس کروڑ عوام کو بیوقوف بناتے رہیں۔ آپ ایک نیک مقصد لے کر اُٹھے تھے جس میں شیخ رشید جیسے مفاد پرستوں کے لیے چپڑاسی کی جگہ بھی نہیں تھی۔ آپ electable کے سر پر انتخابات جتنےف کےلیے تیار نہیں تھے۔ لیکن آپ نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی ہی ہر اچھی بات کو رد کردیا اور ایسے لوگ تحریک انصاف میں شامل کرلیے جو نااہل اور نا تجربہ کارہی نہیں بدعنوان بھی ہیں ۔ نتیجہ حکومت کی گذشتہ چالیس دن کی بے ثمر کارکردگی ہے۔ بجا کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو جاننے کے لیے چالیس دن بہت قلیل عرصہ ہے لیکن اس مدت میں ایک واضح سمت کا تعین تو کیا جاسکتا تھاجو عمران حکومت کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔اب تک ایک بھی ایسا قدم نہیں اُٹھایا گیا جس سے عوام کو تسلی ہو کہ تبدیلی کا جو دعویٰ کیا گیا تھا حکومت اپنی واضح پالیسیوں کے ذریعے اس جانب قدم بڑھارہی ہے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔

عوام کو تبدیلی کاتاثر دینے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات کئے جاسکتے تھے جو محض انتظامی نوعیت کے ہوتے اور ان پر کوئی خاص خرچ بھی نہ اُٹھتا۔ پاکستان کا ایک عام شہری ہونے کی حیثیت سے میں ایسے اقدامات کی توقع کررہاہوں جو میری زندگی کو فوری طور پر کسی حد تک بدل دے اور میرے ارد گرد ماحول میں کسی مثبت تبدیلی کی چمک دکھائی دینے لگے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر پہلے مہینہ میں ہی درج ذیل اقدامات کر دئےجاتے تو عوام کو ملک میں ایک واضح تبدیلی نظر آنے لگتی ۔

1۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس کی وجہ سے معاشی ترقی کے لئے کئے گئے تمام اقدامات بے اثر ہوجاتے ہیں۔اس لیے سب سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے محکمہ کو جس پرپہلے ہی اربوں روپیہ خرچ کیا جاچکا ہے، دوبارہ فعال کیا جاتا۔اور عملہ کو مستعد کرکے ایک بھر پور مہم کا آغاز کیا جاتا۔

2۔ تمام ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح کاروباری اوقات کو محدود کیا جاتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بازار صبح گیارہ بجے کھلنا شروع ہوتے ہیں اور رات ایک دو بجے تک خرید وفروخت کا سلسلہ جاری رہتاہے۔اس سے ایک طرف تو فیملی لائف متاثر ہورہی ہےکہ والدین کو بچوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی تربیت کرنے اور ان کے مسائل کو سننے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ دوسری طرف رات گئے تک بجلی کے بے دریغ استعمال سے بجلی کا بحران بڑھتا جارہاہے۔ اگر کاروباری اوقات کو صبح نو بجے سے رات نو بجے تک محدود کردیا جاتا تو ہمار ا بجلی کی کمی کا مسلہ بہت حد تک حل ہوجاتا اور فیملی روابط میں واضح بہتری آتی۔
3۔ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ایک بھکاری کی ہے جس کی علامتیں ہمیں ہر چوک پر نظر آتی ہیں۔ ان بھکاریوں کی وجہ سے ناصرف پاکستان کا امیج خراب ہوتاہے بلکہ بے شمار سماجی، جنسی اورٹریفک کے مسائل پید اہوتےہیں۔ نئی حکومت چاہتی تو بغیر کسی خرچ کے اس مسلہ کو بہت احسن طریق سے حل کرسکتی تھی۔بے سہارا اور معذور لوگوں کو ملک میں موجود ایدھی سنٹرز یا دیگر این جی اوز کے حوالے کیاجاسکتاتھا۔ مخیر حضرات کے تعاون سے ایسے گھر بنائے جاسکتے تھے جہاں انہیں رہائش کے ساتھ ساتھ کسی کام کی تربیت دی جاتی ۔ نوجوان فقیروں خاص طور پر ایسے فقیروں جو خسروں کا بھیس بدل کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں کو گرفتار کرکےانہیں کسی مثبت کام پر لگایا جاسکتاتھا۔

4۔ فرقہ وارانہ عصبیت کو ختم کرنے کے لیے ہر جمعہ کو وزارت مذہبی امور کی طرف سے ایک خطبہ جاری کیا جاتا اور ہر مسجد کا خطیب اس بات کا پابند ہوتا کہ وہ صرف حکومت کے جاری کردہ خطبہ تک محدود رہے گا۔اور کسی بھی فرقہ اور مذہب کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہیں کرے گا۔ یہ خطبہ اخلاقیات، سماجی مسائل کے حل اور قومی اور انفرادی زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے مشوروں پر مشتمل ہوتا۔
5۔ ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے ملکی دفاع کے لیے مختص بجٹ میں سےپانچ فیصد کی کٹوتی کرکے رقم شعبہ تعلیم کو دے دی جاتی جو موجودہ تعلیمی اداروں کی بہتری اور نئے ادارے قائم کرنے پر خرچ کی جاتی۔

6۔ پولیس میں نظم وضبط اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک سپاہی سے لے کر اے ایس پی تک تمام ملازمین کے لیے محدور پیمانےپر فوجی تربیت دی جاتی ۔ اس کے لیے کسی خرچ کی ضرورت نہیں تھی۔ فوج کے اہل کار جو سارا سال بے کار بیٹھے رہتے ہیں پولیس بارکوں میں جاکر یہ تربیت فراہم کرسکتے تھے۔

7۔ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، رشوت اور منشیات کے خاتمہ کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کیاجاتا ۔ ان جرائم میں ملوث افراد کو پہلی مرتبہ سرعام کوڑوں کی سزا دی جاتی اور اور دوبارہ جرم کی صورت میں انہیں پھانسی پرلٹکادیا جاتا۔

8۔توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی جاتی اورکسی پر جھوٹا الزام لگانے والے کو سرعام پھانسی دی جاتی ۔

9۔ کاروں کی درآمد پر کم از کم پانچ سال کے لیے پابندی لگادی جاتی۔اور صرف مقامی طورپر تیار کی جانے والی کاروں کی خرید وفروخت کی اجازت دی جاتی ۔

10۔ ہر موبائل یوزر روزانہ پہلی کال کرنے سے پہلے ایک مخصوص نمبر پر میسج کرتا جس سے دس روپے حکومتی خزانہ میں جمع ہوجاتے۔اس سے عوام پر زیادہ بوجھ ڈالے بغیرحکومت کو روزانہ کروڑوں روپےکی آمدن ہوتی ۔

یہ ایسے اقدامات تھے جس سے پہلےدن سے ہی عوام کوملک میں واضح تبدیلی نظر آنا شروع ہوجاتی ۔ لیکن عمران خان حکومت اس ڈگر اور اسی نہج پر حکومت کررہی ہے جس پر ستر سال سے دوسری سیاسی یا فوجی حکومتیں کرتی آئی ہیں۔ عمران حکومت پر سابقہ حکومتوں کے مقابلہ میں زیادہ ذمہ داری اس لیے عائد ہوتی ہے کہ عوام نے اس سے پہلے کسی حکومت سے اتنی امیدیں وابسطہ نہیں کی تھیں جتنی عمران حکومت سے کی ہیں۔ اگر حکومت عوام کی امیدوں پر پورا نہ اُتری تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے جن کا ملک متحمل نہیں ہوسکے گا۔

Prof. Mansoor A. Nasir
About the Author: Prof. Mansoor A. Nasir Read More Articles by Prof. Mansoor A. Nasir: 8 Articles with 6843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.