تماشائے زندگی

زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک عظیم تحفہ ہے، یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کا کوئی واضح جواب آج تک اخذ نہیں کیا جاسکا۔ کائنات کا وجود زندگی کا مرہون منت ہے، حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک کوئی ذی روح زندگی کا کوئی واضح مفہوم وضع نہیں کر پایا۔ اک عابد کے لئے معبود ہی زندگی ہے ، اک عاشق کے لئے معشوق ہی حاصلِ زندگی ہے۔ کوئی زندگی کو عیش و نشاط سمجھتا ہے تو کوئی خواب، کسی کے لئے زندگی شراب ہے تو کسی کے لئے سراب۔ کوئی زندگی کو کھیل سمجھتا ہے تو کوئی بوجھ، کسی کے لئے زندگی خوشیوں کا سر چشمہ ہے تو بہت سوں کے لئے غموں کا دریا۔ دراصل زندگی خوشیوں ، غموں، خواہشات، جذبات، احساسات اور اعمال کا مجموعہ ہے، زندگی خوشیوں سے شروع ہو کر آنسووءں پر اختتام پذیر ہونے کا نام ہے۔

زندگی اک جہد مسلسل کا نام ہے، یہی جدوجہد تو حضرتِ انساں کو زندگی سے روشناس کرواتی ہے۔ زندگی کا عجیب ہی قضیہ ہے یہ کبھی انسان کو گلے لگاتی ہے تو کبھی ٹھکراتی ہے، کبھی ہنساتی ہے تو کبھی رلاتی ہے، کبھی اٹھا تی ہے تو پھر کبھی گراتی ہے۔ زندگی انسان کو خواب دیکھنا سکھاتی ہے اور پھر تعبیر پانے کی خاطر تمام عمر ان کے پیچھے دوڑاتی، زندگی مزا بھی ہے اور سزا بھی زندگی وفا بھی ہے اور دغا بھی۔

ہر شخص زندگی کو اپنی طبیعت کی عینک سے دیکھتا ہے، عابد کی زندگی معبود کی خوشنودی ہے، زاہد کی زندگی زہد و پاکیزگی ہے، عاشق کی زندگی معشوق، عیاش کی زندگی عیاشی، غرض یہ کہ ہر شخص اپنے احساسات کے مطابق زندگی کا خلاصہ کرتا ہے۔ شاید یہ خلاصہ کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی اگر بقا ہے تو فنا بھی ہے، ہر ذی روح کو زوال ہے۔ زندگی کا آغاز بھی مٹی ہے اور اختتام بھی، ہر ذی روح کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور ہر ذی روح کو مٹی ہونا ہے۔

تو چلو پھر اس زندگی کو کچھ ایسے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو، جس میں کسی کا حق نا مارا جائے، جس میں ہر شخص کے لئے عزت واحترام ہو، جس میں سچائی اور ایمانداری کا بول بالا ہو، جس میں مکر و فریب کے لئے کوئی جگہ نہ ہو، جس میں انسانیت کا معیار برترواعلیٰ ہو، جس میں امید ہو، جس میں یقین ہو۔ ہمیشہ یاد رکھیں زندگی دینے کا نام ہے، چھیننے کا نہیں۔ یاد رکھیں ملنا اور بچھڑنا زندگی کا لازمی حصہ ہے، لیکن بچھڑنے کے بعد ملنا زندگی کی آس ہے۔

بقول واصف علی واصف
جن لوگوں کو ہم نے اپنی موت کا غم دے کر جانا ہے، کیوں نہ ان کو زندگی میں کوئی خوشی دی جائے۔

شاید اسی لئیے بابا بھلے شاہ نے فرمایا تھا

نہ کر بندیا میری میری، نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ دنیا، پھر مٹی دی ڈھیری

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 49663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.