عید قربانی اور غربا

عید کی نماز پڑھنے کے بعد گھر لوٹا تو قربانی کے جانور کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دنیا سے جانے والے کو آخری بار صلہ رحمی سے دیکھا جاتا ہے علم بھی ہو یہ جان اﷲ اکبر کے کلمات سے اﷲ کی رضا کے لیے قربان ہونے کو آخری لمحات میں شامل ہے محسوس کر سکتا تھا اس جانور کو علم و شعور اور زبان انسانی حاصل ہو تو یہ ضرور کہے وقت قربان ہے چھری ہاتھ میں پکڑے مجھے کھانے والے تیار کھڑے ہیں بھلا پیسوں سے کسی کی جان خریدی جا سکتی ہے یہ مسلمان انسان سمجھتے ہیں ہم سنت ابراہیمی کو ادا کر رہے ہیں کوئی ہمارے اندر جھانک کر دیکھے اس سنت کو تو ہم جانور اپنی جان دے کر ادا کرتے ہیں چلو یہ اشرف المخلوقات مسلمان اسے اپنے نامہ اعمال میں شامل کرواتے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اﷲ کے ہاں اجروثواب کی کوئی کمی نہیں وہ ہمیں اپنے دست رحمت سے اس عمل کے لیے قبول کرتا ہے تو ہماری کیا مجال مالک کی رضا میں راضی نا ہوں۔۔بس اتنی سی التجاہ ہے ایک مستحق انسان ضرور تلاش کرنا جسے میرے گوشت کی ایسے ضرورت ہو جیسے تمہیں اپنی آخرت کے لیے میری قربانی کی،،،قربانی کے جانور کو تکبیر سے پہلے دیکھتے ہوئے مجھے بغیر اس کے بولے سمجھے احساسات کے لفظوں میں جذبات میں لپٹے محسوس ہو رہے تھے جانور کی نظروں سے ملی نظروں کے تسلسل کو توڑتے ہوئے میں گھر والوں کو یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا کہ مجھ سے اس جانور کی تکلیف میں بہتا لہو دیکھا نہیں جائے گاخوشیوں کا پیغام بن کر آنے والی یہ عید مجھے اُداس کر گئی تھی،،،کافی لمحات بیت جانے کے بعد میں کمرے سے باہر آیا تو گوشت کے حصے بنا کر تقسیم کیا جا رہا تھامیرا پسندیدہ گوشت مجھے ملا تو میں نے اسے فریج میں رکھ دیا پکانے کو جی نہیں چاہ رہا تھاکیونکہ میں ابھی تک جانور سے وابستہ سوچوں میں مبتلا تھااور کھیر مٹھائی بیزا وغیرہ کھا یا مگر گوشت میں ہر دفعہ عید پہ خود پکاتا تھا جو اس بار نہیں ہو پا رہا تھا تین بجنے کے قریب تھے ایک کال آئی ۔۔ہیلو آپ ظفر بول رہے ہیں۔۔۔میں نے جواب دیا جی میں ظفر بول رہا ہوں آپ کون؟۔۔۔میں ۔۔۔بول رہا ہوں آپ کے دوست کا سابقہ ملازم۔۔۔پہچانامجھے۔۔۔۔جی جی پہچانا چاچا آپ کی دعائیں تو مجھے ابھی تک یاد ہیں حکم کریں کس لیے فون کیا؟۔۔۔۔حکم نہیں بیٹا عرض ہے۔۔۔نہیں نہیں چاچا آپ بزرگ ہیں شرمندہ مت کریں کام بتائیں۔۔۔وہ بیٹا بات یہ ہے کہ میں جہاں کام کرتا ہوں وہاں سے رات کو اجرت بہت لیٹ ملی بچوں کے لیے سستے بازار سے کپڑے لینے چلا گیا مگر اتنے بھی سستے نہیں تھے کہ سب کے لیے خرید پاتا۔۔کپڑوں کی قیمتوں اور حاصل شدہ اجرت کے حساب کتاب کی سوچوں میں گم خالی ہاتھ گھر پہنچا تو بیوی سمجھ گئی اور بچوں کو بہلانے لگی عید تو ہر سال آتی ہے دیکھنا اگلے سال عید سے پہلے ہی کپڑے خرید کر رکھ لیں گئے خیر وہ تو سنبھال لیا مگر میں سبزیاں لانا بھول گیا صبح ناشتے میں بچوں کو سویاں کھلا دی تھیں سوچا کہیں سے قربانی کا گوشت آ جائے گا مگر ہم غریب کرائے دار ملازم درجے کے لوگ ہیں گوشت تو ان کو دیا جاتا ہے جن سے ملا ہو یا ملنا ہو ۔۔۔میں بھی کیا دکھ سنانے لگ گیا تماری عید کو پھیکا کرنے لگا بیٹا ظفر یہ بتاو یہاں کوئی دوکان کھلی ہے سبزی والی؟ میں کوئی سواری پکڑ کر آ جاتا ہوں۔۔۔چاچا آپ نے اتنا لیٹ کیوں بتایا؟۔۔۔میں خود سے کوشش کر رہا تھا کہیں سے کام بن جائے مگر عید تو سب دوکاندار گھر کرتے ہیں ہمارے جیسے حالات ان کے تھوڈی ہوتے ہیں جب کام نہیں بنا تو تمہیں فون کیا۔۔۔مجھے بہت بے چینی ہوئی اس کی باتیں سن کردل پر لگنے والی چوٹوں سے سینہ پھٹ رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا جواب دوں میں نے پوچھا آپ کے گھر کا پتا کیا ہے ؟۔۔۔۔میں نے ایڈریس سنتے ہی جھوٹ بولا کہ میں آپ کے قریب ہی ہوں میرا انتظار کرو آ رہا ہوں اور فون بند کر دیا۔۔۔فریج کھولی اپنی پسند کا گوشت پھل مٹھائی پیک کیا اور بائیک پہ ہوا جیسی تیز رفتاری سے چل نکلا ۔۔چاچا کے گھر پہنچا دروازے کو دستک دی بچوں کو بہلاتا باپ دروازہ کھول کر باہر آیا تو مجھے دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور میری بچوں کو دیکھ کر۔۔۔وہ مجھے اندر لے آیا میں نے گوشت بچوں کی ماں کو دیتے ہوئے چھری اور پلیٹ کا مطالبہ کیا اور کہا آپ سالن تیار کریں میں بچوں کو پھل کاٹ کر دیتا ہوں بچوں کی ماں پھٹے ڈوپٹے سے آنسو پونچھتی ہوئی دعائیں دیتی ہوئی چولہے کے قریب بیٹھ کر سالن بنانے میں مصروف ہو گئی اور میں بچوں کو پھل کھلانے میں ۔۔بس تھوڈی دیر میں گوشت پک جائے گا تو سب کھائیں گے ۔۔۔بچے خوش ہوئے پھل کھاتے کھاتے مجھ سے پوچھنے لگے انکل آپ بھی ہر عید پر نئے کپڑے بناتے ہو؟۔۔۔میں نے کہا نہیں بیٹا عید نئے کپڑوں سے نہیں غریبوں سے خوشیاں بانٹ کر منائی جاتی ہے اور مجھے آپ ملے نہیں تھے شاید اس لیے گھر میں بے چین پڑا تھا میری عید تو آپ لوگوں کی وجہ سے وجود میں آئی ہے اور ہمارے جانور کی قربانی بھی آپ لوگوں کی وجہ سے قبول ہوئی ہے آپ کے بابا مجھے فون نا کرتے تو میں اپنی اور اپنے جانور کی روح کے سوالوں کا جواب تلاش کرتے کرتے غم زدہ ہی عید گزار لیتایہ بوجھ میرے بچو تم لو گوں نے ہلکا کیا ہے میں تمارا احسان مند ہوں ۔۔۔ان معصوم بچوں کا ماتھا چومتے ہوئے اجازت چاہی بچے مطمن شکلوں کے ساتھ اپنی ماں کے پاس چولہے کے قریب بیٹھ گے اور میں روحانی طور پر پرسکون ہو کر گھر سے باہر نکل آیا مجھے پورا یقین تھا میری طرح وہ جانور کی روح بھی خوش ہوگی جس کا گوشت میں یہاں لایا تھا

Zafar Iqbal
About the Author: Zafar Iqbal Read More Articles by Zafar Iqbal: 4 Articles with 3123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.