نئے پنجاب کا نیا وزیر اعلیٰ

عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل جاری ہے اور کابینہ تشکیل۔پا چکی ہیں اس کے باوجود آنے والے دنوں میں ان میں وسعت ہوتی نظر آئے گی۔ پنجاب میں غیر متوقع طور پر ایک پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی انتہائی پسماندہ تحصیل تونسہ شریف سے ایک سادہ مزاج اور عام سے سیاستدان کو عمران خان نے وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے چنا جو کہ تقریباً خان کے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کیلئے بھی ایک سرپرائز تھا۔ پاکستانی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی "پیشنگوئیوں" کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ان کے سب اندازے ہوا میں تیر ثابت ہوئے۔

ابھی تک کی صورتحال کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ تقرری چند ایک پرانے سیاستدانوں کو چھوڑ کر کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ عثمان بزدار بذات خود ایک شریف النفس انسان ہونےکے ساتھ ساتھ سادہ مزاج اور اس عہدے کیلئے بلکل نئے ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ پچھلے 35 سالوں سے پنجاب میں جو شریف خاندان کا سکہ چلتا آیا ہے اس دوران انہوں نے ہر سطح پر اپنے بندے تعینات کر دیئے ہوئے ہیں جو جھوٹے پراپیگنڈا میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، وہ پہلے دن سے ہی اس حکومت کو ناکام کرنے کے مشن پر کاربند ہو چکے ہیں جس کی واضح مثال خود وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ روا سلوک ہے کہ جوں ہی وزارت اعلیٰ کیلئے ان کا انتخاب ہوا تو ان کے خلاف خود ساختہ مقدمات کا جھوٹا پروہیگنڈا شروع ہو گیا لیکن بعد میں جب ان مقدمات سے ان کا تعلق جھوٹا ثابت ہوا تو عجیب و غریب قسم کی کہانیاں گڑی جانے لگیں۔ ابھی چونکہ حکومت کی ابتدا ہے تو انہیں اپنا امیج بہتر بنانا ہو گا جس کیلئے تحریک انصاف پنجاب حکومت کے انفارمیشن سیل کو متحرک کرنا ہو گا جو کہ لگتا ہے کہ ابھی تک حالات کا ادراک نہیں کر پایا، وہ ابھی تک وزیر اعلیٰ کی مثبت سرگرمیوں کو اس طرح ہائی لائیٹ نہیں کروا سکا جس طرح ماضی کے حکمرانوں کی معمولی سے معمولی باتوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا اور ان کا مثبت امیج بلڈ کیا جاتا تھا۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ایک بہت بڑی اور اعلیٰ مثال قائم کی جو کہ باقاعدہ سراہے جانے کے قابل تھی لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت کا میڈیا سیل اس کا سرسری سا بھی فائدہ نہ اٹھا سکا، عثمان بزدار کی اہلیہ تونسہ شریف کے ایک مقامی کالج میں لیکچرار ہیں اور تاریخ پڑھاتی ہیں وہ عید کی چھٹیوں میں لاہور سرکاری رہائش پر تعطیلات گزارنے آئیں اور تعطیلات کے ختم ہونے کے فوری بعد واپس تونسہ تشریف لے گئیں تا کہ روٹین سے اپنے کالج کو جوائن کر لیں اس دوران وزیراعلیٰ کو مشورے دیئے گئے کہ وہ اپنی اہلیہ کا تبادلہ لاہور کسی اچھے کالج میں کروا لیں یا پھر انہیں کسی ادارے کا سربراہ لگوا دیں لیکن وزیراعلیٰ نے یہ کہتے ہوئے اس کو ریجیکٹ کر دیا کہ میری اہلیہ وہاں ہی تدریس جاری رکھیں گی جہاں وہ اس وقت ہیں کیونکہ ویاں کی بچیوں کو ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے لیئے وہی پرانا گھر منتخب کیا جو کبھی ماضی میں بھی وزرائے اعلیٰ کا گھر ہوتا تھا، اس کے بر عکس ماضی قریب کے حکمرانوں نے چار چار گھر مختلف شہروں میں وزیراعلیٰ ہاوس قرار دے کر سرکاری خرچ پر بے انتہا آسائشیں حاصل کی ہوئی تھیں اور ذاتی ملازموں اور گارڈز کے علاوہ اپنی فیملیوں کیلیئے بھی وہی آسائشیں حاصل کر رکھی تھیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کو بہت جلد اپنے مخالف حالات کا ادراک کرتے ہوئے ضروری اقدامات کرنا ہونگے، اپنے خیر خواہوں کے مابین موجود ابہام کو دور کرنا ہو گا، جلد از جلد اپنی انتظامی ٹیم کو مکمل کرتے ہوئے پنجاب کی چالاک اور ہوشیار بیورو کریسی پہ مضبوط ہاتھ ڈالنا ہو گا جس کیلیئے ان کو چوہدری پرویز الٰہی، راجہ بشارت، عبدالعلیم خان اور محمودالرشید جیسے لوگوں کے وسیع تجربے سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔

عامر فاروقی
 

Faran
About the Author: Faran Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.