نظریہ پاکستان مقاصد اہداف اور ہماری ذمہ داریاں (Part:2)

ناظرین!یہ تھابانی پاکستان کاوطن عزیز پاکستان کے بارے میں نظریہ ۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت بس یہی نعرے زبان زدعام تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لالہ الااﷲ،لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان ، جی ہاں پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان بن کے رہا لیکن یہ ایسے ہی نہیں بن گیاتھا بلکہ اس کے لئے خون کی ندیاں بہی تھیں ، ہزاروں مسلمان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں تارتار ہوئی تھیں معصوم بچوں کو ان کی ماؤں کے سامنے نیزوں کی انیوں میں پرویا گیاتھا انہیں ہولناک مناظر کاآنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے آغاشورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’ تمام برباد گاؤں ایک دوسرے سے مشابہ تھے ۔ مثلاً ہم پٹنہ سے چند میل کے فاصلے پر ایک گاؤں میں گئے ساراگاؤں آباد شاد نظرآیا کھیت لہلہا رہے تھے ، درخت سنتریوں کی طرح کھڑے تھے ، پرندوں کی چہچہاہٹ سننے میں آرہی تھی ، کمسن بچے اڑے پھر رہے تھے لڑکے گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے ، کنیائیں چوپال کے نزدیک زاویے بن رہیں تھیں سب کے چہرے ہشاش بشاش تھے ۔ کسی کے چہرے پر صدمے کا نشان تک نہ تھا کہ یہاں کوئی حادثہ ہواہے ۔ ہم ایک حویلی پر رک گئے باہر سے کچھ نہ معلوم ہوتاتھا کہ اس پر کیابیتی ہے؟ اندر قدم رکھاتو ویرانی ہی ویرانی تھی ، تمام چوبی دروازے نکال لئے گئے تھے ،سامان لوٹ لیا گیاتھا ، دیواروں پر لہو کی دھاریں تھیں ، کپڑوں کو آگ لگا دی گئی تھی معلوم ہوتا تھا تماش بین ایک عفیفہ کو لوٹ کر اسے ننگاکر گئے تھے اور اس کے جسم پر زخموں کی چنت پڑی ہے ۔ میں اس لرزہ خیز حالت کو دیکھ کر سہم گیا اور جب گاؤں کامسلمان محلہ دیکھاتو میرے بدن کا انگ انگ کانپ اٹھا ، جنگ کے دوران تباہ کاریوں کانقشہ یاد آگیا کہ فاتح قومیں کس طرح آبادیوں کو برباد کرتی ہیں، برقعوں میں دوڑتی ہوئی لڑکیوں کے کٹے ہوئے سر دیکھے ،پستانوں کاڈھیر،انگلیوں کی پوریں ،سروں کاانبار،منجمدچہروں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں ،اوپلوں کی آگ سے جلی ہوئی لاشیں ، کتابوں کی راکھ، ٹوٹے پھوٹے برتن،پھٹی ہوئی دیواریں، چھتوں کے بڑے بڑے شگاف، مکانوں سے شہتیر غائب ، زنانے میں کنواں، اور کنویں میں تعفن ،انسان کے گوشت کی سرانڈ ، ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کا بجھا ہواالاؤ ، آگ کے ہاتھوں سازوسامان پر کٹی پھٹی عبارتیں فضامیں نالہ ناکشیدہ اور ہوامیں آہ نارسیدہ ، شقاوت،بربریت، تعدی، استبداد، ہلاکت، بے رحمی، سنگدلی اور خون ریزی کی منہ بولتی تصویریں ، کیلوں سے ٹھکے ہوئے بچے ، مقتول سہاگنوں کا لٹا پھٹا سہاگ ، مردہ چہروں پر خون آلود لٹیں ،سورہ والیل کا نالہ اضطراب ، بچوں کے پنجر، آنگنوں میں حیاکی آخری ہچکی کا انجماد ، جان چھپاتی ہوئی عصمتوں کے پیازی آنسو، اور آنسوؤں میں خون کی ملاوٹ ، کٹے ہوئے کانوں میں ٹھہری ہوئی بالیاں،اور ٹوٹے ہوئے ہاتھوں میں پٹی ہوئی تالیاں، یہ سب کچھ دیکھاتو میرے ہوش پرّاں ہو گئے ۔ سیاست کاطوفان اس حد تک چلاگیاتھا کہ خود خوف خداتھرارہاتھا۔ ہندو اس المیہ پر ہنستے اور مسلمان روتے تھے ۔ مرنے والے کون تھے کسان،مزارع،مزدور،محنت کش،کمیرے، اور ان کی مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں۔بیویاں ،جگرپارے، نور نظر،برباد کون ہوا تھا۔ان کے سہاگ ،ان کی عزتیں،ان کے ناموس ، ان کی حمیت۔ ایک آگ تھی جو پہلے سلگائی گئی پھر بھڑکائی گئی ، آخربجھادی گئی،لیکن بقول غالب
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
اس رات مجھے ایک ثانیہ کو نیند نہ آئی ، جاگتارہااور سوچتارہاانسان اتنادرندہ ہوگیاہے کہ صرف اختلاف مذہب کی بنیا پر آبادیاں قتل کی جاسکتی ہیں ۔‘‘
(بوئے گل نالہ دل دودِ چراغ محفل از شورش کشمیری صفحہ 436تا438)
محترم قارئین!یہ تو شورش کشمیری صاحب نے صرف ایک گاؤں کا آنکھوں دیکھاحال بیان کیا ہے یہ کہانی تو ہر مسلمان گلی محلے میں دہرائی گئی تھی تب جاکر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا افسوس کہ پاکستان ابھی نوآموز ہی تھا کہ بانی پاکستان اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کی وفات کے بعدپاکستان کی باگ ڈور کچھ ایسے ناپاک ہاتھوں میں چلی گئی کہ پاکستان جسے اسلام کا قلعہ بننا تھا وہ استعمار کی کالونی بن گیا کبھی اس پاک وطن پر جنرل یحی جیسے شرابی حکمران مسلط ہوئے تو کبھی ایسے لوگ بھی اس وطن عزیز پر مسلط ہو گئے جنہیں سورہ اخلاص تک نہیں آتی تھی تو کبھی وہ لوگ بھی مسلط ہوئے جنہیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ آذان بجتی نہیں بلکہ دی جاتی ہے۔ وطن عزیز پر گذشتہ پانچ برس حکومت اس جماعت نے کی ہے جو بانی پاکستان کی مسلم لیگ ہونے کی دعویدار ہے اور جس جماعت کو دائیں بازو کی جماعت سمجھاجاتا تھا افسوس انہی حکمرانوں نے نہ صرف بانی پاکستان کے نظریہ پاکستان سے مکمل طور پر انحراف کیا ہے بلکہ دین اسلام کو بدلنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ جہاں تک کہ صدر پاکستان ممنون حسین علماء کرام سے سود میں گنجائش پیدا کرنے کا کہتے نطر آتے ہیں تو دوسری طرف سابق وزیراعظم صاحب علماء کو جہاد کے قرآنی مفہوم کو بدلنے کی اپیلیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں سچ کہا تھا اقبال نے
؂حلقہِ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں آہ ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

ان کا یہ مسئلک ہے ،کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف توہین رسالت کے مرتکبین کو کھلی چھٹی دی گئی کلبھوشن یادیوکی طرح انڈیا کے حاضر سروس افسران پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دینے میں مصروف گرفتار ہو جائیں تو ان کا نام تک لینا گوارانہیں کیاگیا لیکن حافظ سعید جیسے محب وطن افراد کو نہ صرف پابند سلاسل کیا گیا بلکہ ایک مذموم پراپیگنڈے کے ذریعے دہشت گردی کو صرف اور صرف مذہب اسلام سے جوڑنے کی ناپاک جسارتیں بھی کی گئیں یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ اپنے انجام کو پہنچ چکی اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے سربراہ جناب عمران خاں کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ریاست بنائیں گے جو کہ خوش آئیند بات ہے لیکن کیا خاں صاحب ایسا کر پائیں گے کیونکہ مدینہ میں تو شراب پر پابندی تھی اور شراب پینے والے کے لیے سزا بھی مقرر تو کیا خاں صاحب شراب پر پابندی عائد کر سکیں گے اور اپنی پارٹی کو شرابیوں سے پاک کر سکیں گے ؟ مدینہ میں تو سود پر بھی پابندی تھی اور اسی طرح عریانی و فحاشی پر بھی اور انصاف اس طرح ہوتا تھا کہ نبی کریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے مدینہ کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گستاخان رسول کذاب مدعیان نبوت کے خلاف سینہ سپر نظر آتے ہیں تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھری مجلس میں پوچھ لیا جاتا ہے کہ آپ کا یہ کرتا کیسے بنا جس پر وہ غصہ کرنے کی بجائے اپنے لخت جگر کو جواب دینے کا کہتے ہیں انہی عمر رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے کہ فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر بروز قیامت اس کا جوابدہ ہو گا کیا خاں صاحب سودی معیشت ، عریانی و فحاشی ، شراب نوشی ، چوری و ڈکیتی کا خاتمہ کر پائیں گے اور گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبرت کا نشان بنا پائیں گے کیونکہ یہ ساری خوبیاں ریاست مدینہ میں پائی جاتی تھیں ایسی ریاست بنانا تبھی ممکن ہے جب اپنی صفوں میں سے چوروں ڈاکووں شرابیوں زانیوں اور سودخوروں کو نکال باہر کریں آج معاشرے میں نظریہ پاکستان کو فروغ دے کر دشمن کے ان ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے آیئے آج اس بات کاعہد کریں کہ جس طرح وطن عزیز کے حصول کے وقت ہمارے اکابر نے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا تھا ہم بھی اس پاک سر زمین کے نظریاتی و جگرافیائی تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے ۔اور یہ وطن رہتی دنیا تک سلامت رہے گا ان شاء اﷲ۔

عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 200329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.