اب کیمرا بتائے گا کہ آپ خوش ہیں یا خطرناک؟

چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی پہلے سے زیادہ جدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب بعض کمپنیاں دعویٰ کر رہی ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف اب ہمارے احساسات کو بلکہ مشکوک رویوں کو بھی بھانپ سکتی ہے۔

اس ٹیکنالوجی سے شخصی آزادیوں اور ہماری نجی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
 

image


ماہرین کا کہنا ہے کہ چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی دہائیوں سے موجود ہے لیکن حالیہ برسوں میں کمپیوٹر کی استعداد میں بہتری اور مصنوعی ذہانت میں ترقی کی وجہ سے اس نے تیزی سے ترقی کی ہے۔

اب اس ٹیکنالوجی کا استعمال لوگوں کو شناخت کرنے کے لیے سرحدوں پر کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ سمارٹ فونز کو کھولنے، مجرموں کی شناخت اور بینکوں میں رقم کی منتقلی کی اجازت میں استعمال ہو رہا ہے۔

تاہم بعض کمپنیاں دعویٰ کر رہی ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی اب ہمارے جذبات کی کیفیت کو بھی شناخت کر سکتی ہے۔

1970 کی دہائی سے ماہرینِ نفسیات کے مطابق کسی تصویر یا ویڈیو کو دیکھنے کے بعد وہ اس شخص کے چھپے’ مائیکرو تاثرات‘ کو پہچان سکتے ہیں اور اب ٹیک کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئر الگوردم اور ہائی ڈیفینیشن یا اعلیٰ کوالٹی کے کیمروں کی مدد سے اس عمل کو زیادہ درستی اور تیزی سے سرانجام دے سکتی ہیں۔
 

image


آئی ایچ ایس مارکیٹ میں ویڈیو نگرانی کے ماہر اولیور فلئپو کا کہنا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

’کسی سپرمارکیٹ میں ہو سکتا ہے کہ اس کو بغلی راستوں پر استعمال کیا جائے اور اس کا مقصد لوگوں کی شناخت کرنا نہیں بلکہ یہ ہو سکتا ہے کہ کس عمر اور جنس کے افراد مارکیٹ آتے ہیں اور ان کا بنیادی مزاج کیسا ہے۔ اور اس کے ساتھ اس کا استعمال مصنوعات کو صحیح جگہ پر رکھنے اور اصل گاہکوں تک پہنچنے کے حوالے سے تشہیری مہم شامل ہو سکتا ہے۔‘

مارکیٹ پر تحقیق کرنے والی ایجنسی کینٹار ملورڈ براؤن نے امریکی کمپنی ایفکٹیوا کی تیار کردہ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ گاہکوں پر ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارات کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔

ایفکٹیوا نے لوگوں کی رضامندی سے ان کے چہروں کی ویڈیوز بنائی پھر ایک ایک فریم کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کے مزاج کا اندازہ لگایا۔

کینٹار ملورڈ براؤن کے ڈائریکٹر گراہم پیج نے بتایا کہ ’ہم نے لوگوں کے انٹرویو کیے لیکن ہمیں ان کے مزاج کے بارے میں زیادہ معلومات ان کے تاثرات کو دیکھنے سے ملیں اور ہمیں چہرے پر ابھرنے والے تاثرات سے صحیح طرح سے اندازہ ہوا کہ اشتہار کا کون سا حصہ انھیں اچھا لگا ہے۔‘
 

image

اس میں زیادہ متنازع رخ یہ ہے کہ اب ٹیکنالوجی کمپنیوں نے سکیورٹی مقاصد کے لیے’ تاثرات کو پہنچانے‘ والی ٹیکنالوجی کی پیشکش شروع کی ہے۔

مثال کے طور پر برطانوی کمپنی’ وی سی‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات کی مدد سے حقیقی طور پر مشتبہ رویے یا مشکوک حرکات کی شناخت کر سکتی ہے۔

وی سی کا کہنا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے ایک ’اعلیٰ سطح‘ کے ادارے کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جس میں ان لوگوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جن کے انٹرویو کیے گئے ہیں۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ فلٹون نے بی بی سی کو بتایا کہ’ ہماری ٹیکنالوجی کم معیار کی ویڈیو فوٹیج سے بھی کسی شخص کے چہرے تاثرات، حرکات و سکنات اور جذبات کی مدد سے اس کی سوچ یا ارادے کے بارے میں اندازہ لگا سکتی ہے۔ مستقبل میں ہماری ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیوب سٹیشنوں کے پلیٹ فام پر نصب ویڈیو کیمروں کی مدد سے مشکوک حرکات کی نشاندہی کی جا سکے گی اور ممکنہ شدت پسندی کے حوالے سے حکام کو آگاہ کیا جا سکے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اسی طرح اس کو سیاسی جلوسوں اور فٹبال میچ جیسے بڑے ایونٹس میں استعمال کیا جا سکے گا۔
 

image

تاہم اولیور فلئپو کو اس ٹیکنالوجی کی درستی یا شناخت کرنے کی صلاحیت پر شکوک و شبہات ہیں۔

’جب اس کو صرف چہروں کی شناخت کے لیے کیا جاتا ہے تو اس میں بھی غلطی کی گنجائش ہوتی ہے اور بہترین کمپنی دعویٰ کرتی ہے وہ 90 سے 92 فیصد درستی سے لوگوں کو چہروں کی مدد سے شناخت کر سکتی ہے۔ لیکن جب تاثرات کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس صورت میں غلطی کی گنجائش قابل ذکر حد تک زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

وی سی کے ڈیوڈ فلٹون کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی ایک آلہ ہے جس کی وجہ سے موجودہ ویڈیوز فوٹیج کو زیادہ انٹیلیجنٹ طور پر یا زیادہ ذہانت سے پرکھا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ وی سی کمپنی 60 سے 70 فصید درستی کے ساتھ انسانوں کی طرح جذبات کو پہچان سکتی ہے۔
 

image

انھوں نے کہا کہ اس وقت ہم مشکوک رویوں یا حرکات کی نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن کسی کے ارادے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔

تاہم پرائیویسی انٹرنیشنل کے فریڈرک کلٹویونر کا کہنا ہے کہ’اس میں اہم سوال یہ ہے جو ہم ہمیشہ خود سے کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کون بنا رہا ہے اور کس مقصد کے لیے؟ کیا یہ ہماری مدد کے لیے ہے یا اس کا مقصد ہمارے بارے میں اندازہ قائم کرنا، رسائی حاصل کرنا اور ہمیں کنٹرول کرنا ہے؟
YOU MAY ALSO LIKE:

Facial recognition tech is becoming more sophisticated, with some firms claiming it can even read our emotions and detect suspicious behaviour. But what implications does this have for privacy and civil liberties?