میاں نواز شریف کی پاکستان آمد

جب سے میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر نے پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے ۔ سیاسی حلقوں اور نگرانوں کی نیندیں حرام ہوگئیں ہیں،ایک ہیجانی کیفیت ہے۔ میاں نواز شریف کی آمد کی ایسی تصویر کشی ہورہی ہے کہ جیسے کوئی فاتح کوئی مہم سر کر کے واپس لوٹ رہا ہولیکن انتہائی ڈر اور خوف کے عالم میں ، نون لیگ نقشہ اس طرح پیش کررہی ہے کہ جیسے مخالفین میاں صاحب اور ان کی بیٹی کی آمد پر تھر تھر کانپ رہے ہوں۔ میاں صاحب کتنے بہادر ہیں ، تاریخ اس کی گواہ ہے ، یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں 11سال کی قید با مشقت نہیں ہوئی، اس سے پہلے بھی طیارہ سازش کیس میں انہیں 22سال کی قید ہوئی تھی، میاں صاحب نے کتنے دن قید کاٹی، آخر ایک ڈکٹیٹر سے این آر او کر کے 10سال کا معاہدہ کر کے سعودی عرب میں جائے پناہ حاصل کر لی تھی۔ہمارے حکمرانوں کے مزاج میں اور ان کی سوچ میں صرف اور صرف حکمرانی کا نشہ ہے، گھمنڈ ہے، غرور ہے، یہ بغیر اقتدار کی کرسی کے اپنے آپ کو ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کسی مچھلی کو پانی سے نکال کر خشکی میں پھینک دیا جائے۔وہ حکمران جو کسی بھی وجہ سے حق حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہ آج اسی تڑپتی مجھلی والی کیفیت میں ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مقدس گائیں تصور کرتے ہیں۔اگر ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ انہوں نے کیا کیا ہے، ان کا طرز زندگی کیسا رہا، جائیدادیں کیسی بنائیں، پیشہ باہر کیسے گیا، سرے محل کیسے بنا، لند ن فلیٹس کس طرح خریدے گئے ،یہ اور اس قسم کے سوالات ان سے نہ پوچھے جائیں تو ان کے لیے پاکستان اور پاکستانی عوام بہت اچھے ہیں، ادارے بہت عمدہ ہیں، عدالتیں انصاف کررہی ہیں ، اگر کوئی انفرادی طور پر یا کوئی ادارہ ، کوئی عدالت یہ پوچھ لے کہ سرکار آپ بھاری رقم باہر کس طرح لے کر گئے، یہ جائز ہے یا ناجائز تو بس قیامت برپا ہوگئی، پوچھنے والا شخص یا ادارہ ان کے لیے غیر پسندیدہ ہوجاتا ہے۔ اس ادارے پرہزار قسم کے الزامات دھر دیے جاتے ہیں، تمہاری یہ مجال کہ تم ہم سے پوچھو کہ یہ دولت ، یہ جائیداد، یہ فراوانی کیسے آئی، تمہاری جرت کیسے ہوئی ہم سے پوچھنے کی، تمہیں معلوم نہیں ہم بادشاہ سلامت رہ چکے اوروہ کرسی ہماری پھر منتظر ہے ہم کسی بھی وقت اس پر دوبارہ براجمان ہوسکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔ہم نے اپنے کیے کا حساب دینا ہے چاہے یہاں دیں یعنی اسی دنیا میں دیدیں ، اگر اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے ہم نے اپنے آپ کو بچا بھی لیا تو پھر اوپر تو جانا ہی ہے، کیا وہاں حساب کتاب نہیں ہوگا؟ وہاں کون بچائے گا، وہاں کارکن ائر پورٹ کیسے پہنچیں گے، وہاں وزیر اور مشیر آپ کے لیے کیسے پریس کانفرنسیز کریں گے، وہاں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو ہی جائے گا۔ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے، یہ میاں صاحب کا اپنا کیا دھرا ہے، اقتدار کی ہوس، اقتدار کا جنون اور خواہش نفسانی کے سو اکچھ نہیں۔ بات بہت سیدھی ، معمولی ، صاف تھی، عدالت نے چند سوالات پوچھے کہ فلیٹ آپ کے ہیں؟ کب خریدے، پیسہ پاکستان سے کس ذریعہ سے لندن گیا؟ ملکیت آپ کے بیٹے نے قبول کر لی ، فخر سے کہا کہ ہاں ، یہ فلیٹس ہمارے ہیں، اب آپ کو صرف یہ بتا نا تھا کہ پیسہ کس راستے لندن گیا ۔آپ جے آئی ٹی کو، عدالت کو چکما دیتے رہے ، کبھی کچھ کچھی کچھ،انسان اگر سچ نہ بولے تو ایک جھوٹ سو جھوٹ بلواتا ہے اور اُس ایک چھوٹ نے سو جھوٹ بلوئے ، جعلی کام کرایا، قطری خط لکھوایا، جعلی ڈیڈ بنوائی۔ جس نے اس خاندان کو اس انجام تک پہنچا دیا۔ اب آپ کو سزا ہوگئی، تو آپ ملزم نہیں بلکہ مجرم ہیں، خطا کار نہیں ، تہمت زدہ نہیں ، قصور وار نہیں بلکہ عدالت نے آپ کو مجرم قراردیا ہے، اب آپ اس فیصلے کو غلط تصور کریں، فیصلہ آپ کا نہیں چلے گا، قانون کے سامنے آپ مجرم ہیں ۔ آپ کے ساتھ مجرم جیسا ہی سلوک ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی ملک کا وزیر اعظم نہیں تھا؟ پھر آپ ہی نے کہا تھا کہ جاؤ پہلے عدالت کے فیصلے پرعمل کرو ، کرسی چھوڑو پھر بات ہوگی، تو پھر اب قانون آپ کے لیے کچھ اور ہوگیا، اب اگر وہی لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے جیل جاؤ ، عدالت کے روبرو حاضر ہو، عدالت آپ کو معاف کردے، نظر ثانی کرے یا آپ کی ضمانت قبول کر لے پھر آپ کو کچھ کریں۔ کیوں کہ آپ عدالتی فیصلے کو ہی نہیں مانتے اس لیے آپ کو کھلا چھوڑ دیا جائے، آپ کے استقبال کے لیے آپ کے پروانے، آپ کے دیوانے جو چاہیں کریں، ائر پورٹ سے آپ کو دولھا بنا کر شہر شہر ، گلی گلی گھمائیں، عدالت کو برا بھلا کہیں، اداروں پر کیچڑ اچھالیں، انہیں غیبی مخلوق جیسے القاب سے نوازیں، تو جناب ایسا نہیں ہوسکتا، جب کوئی اوپر والے کی پکڑ میں آجاتا ہے تو مشکل سے جان چھوٹ پاتی ہے۔ تین بار حکمرانی کرنے والے میاں نواز شریف مسائل اور مشکلات کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ مسند اقتدار پر براجمان ہوکر آنکھوں کے سامنے دھوپ کا کالا شیشہ لگ جاتا ہے اور ہرا ہرا دکھائی دیتا، کیسی عوام ، کہاں کی عوام، کیسی پارٹی، کہاں کی پارٹی، کیسے ساتھی، کہا ں کے ساتھی۔ حد ہے کہ جس شخص کو لوگ یہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ میاں صاحب کا قریبی ساتھی ہے وہ اپنی زبان سے یہ کہے کہ میری تو ان سے دو سال سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ اہم ترین وزارت کا سربراہ وزیر داخلہ یہ کہے کہ میری تو وزیر اعظم سے بات چیت ہی نہیں۔ ظاہر میں سب خوش ، اندر سے سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے رہے ہوں۔ ایسی صورت میں میاں صاحب نے تیسری باری کے جو چار سال گزارے وہ بڑا غنیمت ہے ان کا دھڑم تختہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آج میاں صاحب وزیر اعظم کی حیثیت سے نہیں ، حتیٰ کہ ایک عام شہری کی حیثیت سے بھی نہیں آرہے بلکہ وہ ایک مجرم کی حیثیت سے پاکستان کی سرزمین پر اپنے قدم رنجا فرمائیں گے، تو قانون تو حرکت میں آئے گا، آپ بھول کیوں جاتے ہیں، کیا آپ کے دور میں مخالفین کے لیے کنٹینر نہیں لگائے گئے، سڑکیں بند نہیں کی گئیں، پولس نے عوام پر لاٹھیاں نہیں برسائیں، ماڈل ٹاؤن واقعہ رونما نہیں ہوا، کراچی میں سیاسی جماعت پر آپریشن نہیں ہوا، دور نہ جائیں ، پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو گرفتار نہیں کیا گیا، اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ نابینا افراد پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں۔ کراچی آپریشن کے وقت آپ اس طرح کراچی تشریف لائے تھے کہ جیسے آپ کراچی کو فتح کرنے آرہے ہیں، مانا کہ وہ آپریشن کراچی میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف تھا لیکن اس میں کتنے ہی بے گناہ مارے گئے، بہت سے آج بھی جیل کی زندگی گزار رہیں ۔ آخر اس ظلم نے جو آپ کے دور اقتدار میں ہوا اپنا کام تو دکھانا ہی تھا سو وہ دکھارہا ہے، آج آپ اپنی زبان سے فرمارہے ہیں کہ مجھے سامنے جیل نظر آرہی ہے پھر بھی میں اپنی بیوی کو جو موت اور زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہے کو چھوڑ کر جارہا ہوں۔ دنیا جانتی ہے کہ آپ کی آمد اس لیے نہیں ہورہی کہ آپ اپنی سزا پر عمل درآمد کے لیے ، پاکستانی عوام سے محبت اور عشق میں تشریف لارہے ہیں بلکہ آپ اپنی سیاست کو بچانے کے لیے، اپنی پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے، اپنے یا اپنے خاندان کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے تشریف لارہے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ائر پورٹ پرآپ کا استقبال کس طرح ہوتا ہے، آپ لاہور کی کھلی فضا میں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ گلی گلی گھومتے ہیںیا پھر آپ کو ہوائی جہاز سے ہیلی کاپٹر میں منتقل کر کے سیدھے جیل پہنچا دیا جاتا ہے۔ اللہ کرے آپ کے استقبال کے لیے پہنچنے والے پولیس کے ہاتھوں محفوظ و سلامت رہیں۔ جی پنجاب پولیس جو کبھی آپ کے احکامات بجا لاتی تھی آج آپ کے خلاف صف آرا ہے، یہی تو مکافات عمل ہے۔ جیل سے باہر تو میاں صاحب نے آہی جانا ہے، آج نہیں تو کل۔ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285172 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More