نہ ہیرو نہ ولن

شخصیت پرستی ہماری گھٹی میں شامل ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں معیار یہی رہا ہے کہ فلاں پاکستان کی آخری امید ہے اور فلاں پاکستان کے لئے سیکیورٹی رسک ہے۔ ایسے موقعوں پہ نوابزادہ نصراﷲ خان یادآئے ہیں۔ وہ آخر میں تنگ آ کر کہا کرتے تھے۔ نہیں جی فلاں اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہم ہمیشہ ہیرو ڈھونڈتے ہیں یا ولن، کہانی کے باقی کرداروں کی ہمیں فکر نہیں ہوتی۔ نہ ہی کہانی کے اصل موضوع اور پلاٹ کی۔ اسی لئے ہماری کہانی 1947 سے ادھوری چلتی آ رہی ہے۔ شخصیات فانی ہیں۔ سب نے ایک نہ ایک دن چلے جانا ہے۔ معاشرے دائمی ہیں۔ مسائل دائمی ہیں۔ 25 جولائی میں تقریباََ ایک ماہ رہ گیا ہے۔ پاکستانی اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر یہی بحث چل رہی ہے کہ کون جیتے گا یا کون ہارے گا۔ عمران خان وزیراعظم بنے گا یا نہیں، پنجاب میں نون لیگ کا کیا حال ہو گا۔ ہر طرف اسی بحث نے ذور پکڑا ہوا ہے۔ کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ پاکستان کے مسئلے کیا ہیں اور ان کا حل کون لے کر آئے گا۔ پاکستان میں شخصیت پرستی کی سیاست چل رہی ہے جس میں ایک عام شہری بھی شامل ہے۔ 25 جولائی کا دن پاکستان کی تاریخ میں یقینناََ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن پاکستان کی عوام فیصلہ کرے گی کہ کون پاکستان اور اس کی عوام پر اگلے 5 سال حکمرانی کرے گا۔ پاکستان کی عوام سے درخواست ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں اس انسان کو ووٹ دیں جس نے اپنے منشور میں آٓپ کے اور پاکستان کے مسائل حل کرنے کو شامل کیا ہو، نہ کہ اپنے مفادات کو۔ بلے کی ضرب اور شیر کے شکار سے بچیں۔ پاکستان کو اس وقت بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ پاکستان کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سر فہرست قرضوں کی ادائیگی ہے۔پبلک کارپوریشنوں کا 700 ارب ڈالر سے زیادہ کا خسارہ ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ قرضہ کیسے اتارنا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ عالمی اداروں کی جانب سے اس بات کی نشاندہی بار بار کی جا چکی ہے کہ پاکستان کو فوری ڈیم بنانے ہوں گے وگرنہ آنے والے وقت میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر مجال ہے کہ ہمارے حکمرانوں پر اس خطرے کی وجہ سے جوں تک رینگی ہو۔ انہوں نے اپنے محلات بنا لیئے ہیں اور اپنی نسلوں کے لئے بیرون ملک رہنے کا بندوبست بھی کر دیا ہے۔ جو وہ کرنے آتے ہیں، وہ کر جاتے ہیں۔ عوام بیچاری وہاں کی وہاں رہ جاتی ہے۔ پانی کی قلت ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ پاکستان کی آنے والی نسلوں کو برباد کر سکتا ہے۔ ہر باشعور آدمی جو کہ اس کی اہمیت کو جانتا ہے وہ پانی استعمال کرتے ہوئے اس پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کہیں اس وجہ سے اس کی آنے والی نسل کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ ان دو بڑے مسائل کے ساتھ ساتھ خوراک، رہائش اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی پیش پیش ہیں۔ ایکسویں صدی کے اعتبار سے ہم ہر لحاظ سے،کہیں نہ کہیں یہ سب چیزیں ہمیں حیران کن طور پر متاثر کر رہی ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہر جانب ان مسائل کے حل کے لئے بات کی جائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہیئے تھا؟ سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کیا کارنامے سر انجام دیے یا وہ کیا کریں گے۔ چونکہ پاکستان میں آج کل الیکشن کی فضا ہے۔ ہر عام و خاص الیکشن کے موضوع پر بحث و مباحثہ کر رہا ہے۔ ہر انسان اپنی عقل اور اپنے علم کی بنا پر تنقید یا سپورٹ کر رہا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آخر یہ تنقید کس کے لئے؟ کیونکہ تنقید کرنے سے نہ تو اقتدار میں آنے والا شخص اچھا ہو گا نہ ہی وہ ملک کے بارے سوچے گا۔ فی الحال پاکستان کی عوام کے پاس جو طاقت ہے وہ ہے ووٹ کی طاقت۔ ووٹ کی طاقت عوام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب ہم نے کسی کو ہیرو بنانا ہے یا کسی کو زیرو یا کسی کو ویلن۔ لہذا پاکستانی عوام کے گزارش ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے سوچ لیں کہ بلے کی ضرب کھانی ہے یا شیر کا شکار ہونا ہے۔
Khurram Anique Ahmed Khan
About the Author: Khurram Anique Ahmed Khan Read More Articles by Khurram Anique Ahmed Khan: 9 Articles with 6658 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.