حلقہ این اے 64 کا دنگل کون جیتے گا؟

جوں جوں عام انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے سیاسی درجہ حرارت بھی اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے۔ سردار غلام عباس نے بالآخر مسلم لیگ (ن) کو خیر آباد کہہ دیا اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس میں سردار غلام عباس کی غلطی کم اور مسلم لیگی پارلیمنٹرین کی زیادہ لگتی ہے۔ سردار غلام عباس کو مسلم لیگ (ن) میں عزت اور مقام ملنا چاہئے تھا۔ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی، کوئی آتا ہے اور کوئی جاتا ہے۔ کچھ لوگ ہوا کا رُخ دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ سردار غلام عباس ’’خلائی مخلوق‘‘ کے بندے ہیں۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں دو بار ضلع ناظم چکوال رہ کر خوب انجوائے کر چکے ہیں۔ اُس سے پہلے راتوں رات سیاسی فیصلے تبدیل کر کے منظور وٹو کو ووٹ دے دیا تھا۔ ان کی ہمیشہ سے ہمدردیاں ’’خلائی مخلوق‘‘ سے ہی وابستہ رہی ہیں۔ اس وقت سیاسی منڈی عروج پر ہے۔ کچھ لوگ جن کو ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کہا جاتا ہے اُن کا ریٹ بہت زیادہ ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو کوئی اُدھار پر بھی لینے کو تیار نہیں۔ یہاں پر بہت سارے نام لکھ سکتا ہوں مگر کسی کا دل توڑنا مناسب نہیں۔ حلقہ این اے 64 میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے میجر (ر) طاہر اقبال اور پی ٹی آئی کے سردار غلام عباس کے درمیان ہو گا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بھی ان دونوں کا ہی مقابلہ ہوا تھا لیکن اُس وقت سردار غلام عباس نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اس بار بڑا سخت مقابلہ ہو گا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مقابلہ کون جیتے گا چونکہ انیس، بیس کا مقابلہ ہو گا البتہ مسلم لیگ (ن) کو کچھ حوالوں سے فوقیت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے وہی پُرانا کمبی نیشن برقرار رکھا ہے یعنی اُنہی لوگوں کو دوبارہ ٹکٹ دئیے ہیں جن کو 2013ء کے عام انتخابات میں دئیے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس الیکشن لڑنے کا زیادہ تجربہ موجود ہے۔ اصل کام الیکشن ٹیم کا ہوتا ہے۔ سب سے مشکل کام پولنگ والے دن کو ووٹرز سے ووٹ ڈلوالنا ہوتا ہے جو کہ مسلم لیگ (ن) سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار میجر (ر) طاہر اقبال کو اُن کے چچا سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد المجید ملک مرحوم (جن کے پاس الیکشن لڑنے اور جیتنے کا بہت بڑا تجربہ تھا) وہ ان کو بہت کچھ سیکھا کر جہانِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ الیکشن لڑنے کا فن جنرل مجید ملک پر ختم تھا۔ اُن کا آخری ’’بابے والا پھیرا‘‘ بہت مشہور تھا۔ اصل میں سردار غلام عباس کو مسلم لیگ (ن) میں میجر طاہر اقبال نے کیونکر قبول نہ کیا اس کی بھی پوری ایک کہانی ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مشرف دور میں جب ضلع کونسل کے ضلع ناظم کے انتخابات میں سردار غلام عباس، جنرل مجید ملک کے مدمقابل تھے تو جنرل مجید ملک پر سردار غلام عباس نے میٹرک فیل کا الزام لگایا تھا۔ اُس وقت جنرل مجید ملک کی بہت سبکی ہوئی تھی۔ وقت گزر جاتا ہے مگر زخم بھرنے میں بہت وقت لگتا ہے اس لئے سردار غلام عباس کو قبول کرنا ان کے بس کی بات نہ تھا اور یہ بھی یاد کر لیں کہ میجر طاہر اقبال اس الیکشن کو زندگی کا اہم الیکشن سمجھ کر لڑیں گے کیونکہ پارٹی نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ رکھنے والے سردار غلام عباس کو ٹکٹ نہیں دیا اور میجر طاہر اقبال پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اگر پی ٹی آئی کے وہ لوگ جن کو متاثرین ہی کہا جا سکتا ہے جن کو ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا اگر وہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر صورت حال اور بھی دلچسپ ہو جائے گی۔ اگرچہ ابھی تک متاثرین کو صاف انکار نہیں کیا گیا لیکن اگلے چند دن میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔ میرے خیال میں چوہدری علی ناصر بھٹی کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لینی چاہئے۔ اگر وہ پی ٹی آئی میں جانے کا غلط فیصلہ نہ کرتے تو آج چوہدری سجاد کی جگہ میونسپل کمیٹی چکوال کے چیئرمین ہوتے اور اسی منصب پر اُن کے والد ساری زندگی چیئرمین رہے ہیں لیکن علی ناصر بھٹی کو اُونچی اُڑان کا شوق چڑھا اور وہ دن کے اُجالے میں ایم پی اے بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ اگر یہ متاثرین مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار نہیں کرتے تو پھر ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا چاہئے اس طرح ان کے سیاسی وزن میں اضافہ ہو گا۔ لیکن جب تک انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوتے اُس وقت تک کچھ بھی ممکن نہیں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اصل کہانی اُس وقت سامنے آئے گی جب انتخابی نشان الاٹ ہو جائیں گے تب پتہ چلے گا کہ کون کدھر جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے راجہ یاسر سرفراز نے کمال سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور خود کو سردار غلام عباس کے نیچے لے آئے اس سے اُن کی نئی سیاسی اننگز کا آغاز ہو سکتا ہے۔ چونکہ اُن کو معلوم تھا کہ وہ شاید اکیلے قومی اسمبلی کی سیٹ نہ نکال سکیں۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا فائدہ بھی مسلم لیگ (ن) ضرور اُٹھائے گی اور چوہدری سلطان حیدر اور ملک تنویر اسلم سیتھی کی کاوشیں بھی رنگ لائیں گی۔ چونکہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے قومی اور صوبائی کمبی نیشن بڑی اہمیت رکھتا ہے لیکن اصل صورت حال 10 جولائی کے بعد ہی واضح ہو سکے گی لیکن دونوں جماعتوں کے لئے حلقہ این اے 64 کا الیکشن آسان نہ ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56193 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.