پاکستانی سیاست میں اتنہا پسندی کا رجحان

پاکستان میں سیاست دانوں کا عام بیانیہ ہے کہ سیاست میں حرف ِ آخر کہیں نہیں لکھا جاتا اگرچہ آپ آخر ی حد غیر اخلاقی حرکتیں کیوں نہ کردیں اور اس کے بعد بھی اسے آخر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جب آخر ہوگئی تو بات ختم ہوجائے گی اور ہم میں وہ صلاحیت ہے کہ ہم نہ چاہیں تو بات ختم نہیں کی جاسکتی۔عام طور پر دنیا میں رائج ہے کہ جو سیاست دان بہت سینئر ہوجاتے ہیں وہ خود سے اس شعبہ سے الگ ہوجاتے ہیں البتہ وہ سیاست میں مشاورتی عمل کا حصہ رہتے ہیں اور نئے آنے والے لوگوں کی رہنمائی کا باعث بن جاتے ہیں مگر ہمارے ملک کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ریٹائر منٹ کا تصور ہے ، لوگ ریٹائر ہوکر کوئی بھی مشغلہ اختیار کرسکتے ہیں اور اگر سیاست دان کو ریٹائر کردیا گیا تو اس کے پاس جینے کی آخری آس بھی ختم ہوجائے گی، یہ ایک انتہائی متحرک شعبہ ہے اور اس کی وجہ ان کے جسم میں خون دوڑتا ہے ، باالفاظ ِدیگر سیاست افراد کو افراد سے جوڑے رکھنے کا ایک ذریعہ ، لوگوں کے درمیان ایک تعلق ہے ، ایک وجہ ہے جس کے سبب لوگ مل بیٹھتے ہیں اب یہ تعلق ہی ختم کردیا جائے تو کیا کوئی معاشرے پنپ سکے گا؟

دنیا بھر میں سیاست کے انداز الگ ہیں، یہاں کبھی سیاست اور مذہب ایک ساتھ تھے بلکہ مذہب کے بغیر سیاست ہو ہی نہیں سکتی تھی پھر اہل مغرب نے سیاست کو اجتماعی اور مذہب کو خالص ذاتی اور انفرادی معاملہ بناکر جدا جدا کردیا ، اب اس نے تہذیب اور بد تہذیبی کے معنی اور مفہوم بھی مختلف کردئے ہیں ۔لوگوں کی پہچان ان کے کردارسے بھی ہوتی ہے اور بعض جگہ ان سب سے ماورا سیاست سے بھی یہ لوگ اپنا تعارف کرواتے ہیں جس میں تہذیب و تمدن کوئی مقام نہیں رکھتا ۔ سیاست میں ایک اور شے بھی شامل کی جاتی رہی ہے اسے عام طور پر عوامی خدمت کا نام دیا جاتا ہے ۔ نظریاتی سیاست میں عوامی خدمت کی بڑی اہم جگہ رکھی گئی ہے جبکہ عمومی سیاست میں اسی کے باعث ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں اور اقتدار کو پایا جاتا ہے تاہم اسکے حصول کے بعد عوام سے اس کے عوض خدمت کراوئی جاتی ہے ، موسم کی کیفیت کو بالائے طاق رکھ کر جلسے ، جلوسوں اور ریلیوں میں نعرے لگوائے جاتے ہیں اور مخالفین سے احتجاج کے معاضے کی وصولی کی جاتی ہے جبکہ عوام کو سبز باغ دکھا کر ٹہلا دیا جاتا ہے، اسی طرح عوامی منصوبوں تخلیق کئے جاتے ہیں اور ان سے کمیشن بٹورا جاتا ہے ۔ یہ اس خدمت کا معاوضہ ہے جو عوام سے ووٹ کے حصول کیلئے سیاست دان مشقت میں پڑتے ہیں ۔

خیر ، یہ با ت تو طے ہوگئی کہ آج وہ وقت نہیں رہا کہ کوئی کسی کیلئے خود کو مشقت میں کیوں ڈالے ؟ کس کو پڑی ہے کہ وہ اپنا گھر، بال بچے، کاروبار ، سکون ، اطمینان چھوڑ چھاڑ عوامی مسائل کے حل کیلئے کیوں تڑپے۔ہمارے ملک میں زبانی جمع خرچ میں عوامی خدمت خصوصی ذکر میں آتی ہے ،روایتی سیاست میں اس کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ۔ ہمارے سیاست دانوں کو ٹھاٹ بھاٹ میں رہنے کی عادت ہے ،رعب و دبدبہ ہے ، جاہ و ہشمت کے بغیر نشست و برخاست بھی نہیں ہے اور سونے پر سہاگہ اگر انہیں عوامی نمائندگی کا ٹیگ لگ جائے تو یہ آپے سے ہی باہر ہوجاتے ہیں اور ان کا شاہانہ مزاج دا آتشہ ہوجاتا ہے ۔ انتخابی مہم میں اخراجات کا بے تحاشہ استعمال لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے سے لیکر مخالفین کو زیر کرنا ہوتا ہے ، لنگر سے لالچ کا آغاز ہوتا ہے اوع لاشیں اٹھانے تک بات جاپہنچتی ہے ۔ لاشیں عام طور پر ذر خریدوں کے ذریعہ مخالفین کے ذرخریدوں ہی کی گرائی جاتی ہیں یا پھر ان لوگوں کی جو حمایت میں نعرے لگاتے ہیں کبھی لیڈر براہ راست نشانہ نہیں بنا، البتہ2013 میں براہ راست سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے، مخالفین نے ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باقائدہ طور دھمکیاں دینا شروع کردیں یہاں تک سیاستدانوں کی عزت عوام میں کم ہونے لگی، سیاستدانوں کو جوتیاں پڑنے لگیں اور 2018میں منہ کالے ہونے لگے اور دشمنی کی انتہا ئی حد کو پہنچ گئی جب ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر تھپڑ جاڑ دئے جانے لگے۔ ہمارے سیاسی ماحول میں انتہا پسندی نے جگہ لے لی ہے ، یہ ابتداء ہے ، سیاست اور سیاست دانوں میں سے تہذیب رخت ِ سفر باندھ رہی ہے ، اگرحالات یہی رہے تو امکانات ہیں کہ مستقبل میں یہ لوگ ایک دوسرے پر بندوقیں بھی تان لیں گے۔یہ سب کچھ عوام کی خاطر تو کم ازکم نہیں کیا جارہا بلکہ اس کرسی ء اقتدار کیلئے ہورہا ہے جس سے ان کی خواہشات کی تکمیل ہوگی۔اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ ایک دوسرے کی تضحیک کیلئے نت نئے طریقے اختیا ر کئے جارہے ہیں تاکہ عوام میں سیاست دانوں کی توقیر کم ہواورلوگوں کا اعتماد ان پر سے اٹھ جائے ۔ صحافیوں کا استعمال کیا جارہا ہے ، میڈیا ہاؤسز میں لابنگ کی جارہی ہے ، زہر اگلا جارہا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ مخالفین سے منحرف ہونے افراد سے لیکر ان کے اہل خانہ رہنے والے افراد کو بھی اس میں ملوث کیا جارہا ہے جس کی تازہ مثال عمران کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی ایک کتاب کا منظر عام پر آناہے ۔ 2017 کے اگست میں نون لیگ کے رہنما نے اشارہ دیا تھا کہ اگر ریحام خان کی کتاب 2018کے انتخابات سے پہلے شائع ہوگئی تو عمران خان منہ چھپاتے پھریں گے ۔ آج اسی کتاب کی بازگشت سنائی دی جارہی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ کتاب میں کئی راز دفن ہیں اگر یہ افشاں ہوگئے تو عمران کی اخلاقی وسیاسی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے ۔ الزام ہے کہ اس کتاب کے شائع کروانے میں نون لیگ کا ہاتھ ہے جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس کتا ب کی اشاعت کے اخراجات بھار ت کا ایک برطانوی بزنس مین سنجے کیتھوریا برداشت کررہا ہے جوتلاش کے نام سے برطانیہ میں ہوٹلوں کا چین چلاتا ہے ، یہ اس کا دوست ہے جو ریحام کا شادی سے پہلے کا دوست ہونے کا دعویدار ہے ۔ اس کتاب کی لانچنگ میں پاکستان سے زیاد ہ بھارت میں دلچپسی محسوس کی جارہی ہے ۔کیوں۔۔۔؟خدشات ہیں کہ بیرونی طاقتیں 2018 کے انتخاب پر اثر انداز ہوگیں۔

منعقدہ انتخابات میں گالی،الزامات ، بہتان اور ہاتھا پائی سے آگے کی صورتحال پیش آنے والی ہے جس سے سیاستدانوں کی اخلاقی ساکھ تباہ ہوگی جس سے یقینی طور عوام کی بے تقوری تق ہوگی ہی سیاست میں انتہا پسندی کو توانائی ملے گی جو ملکی سیاست کیلئے خطرے کا باعث ہوسکتی ہے۔یہ کسی دہشت گردی سے کم نہیں ۔ اﷲ ہمارے حالات پر رحم فرمائے ۔ آمین

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 43530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.