دانش مندی

بھٹو صاحب اپنی خداد داد صلاحیت کا بڑا فائدہ اٹھاتے رہے۔وہ اقتدار اور اختیار کی اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں پہنچنے کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتاہے۔وزیر خارجہ بنے۔صدر مملکت کا عہدہ پایا۔۔وزیر اعظم ہاؤس براجمان ہوئے اور تو اور ایک سویلین ہونے کے باوجود مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔وہ وہاں تک پہچے جہاں ان سے پہلے کوئی نہیں پہنچ سکا اور ان کے بعد بھی اب تک نہیں پہنچ پایا۔اس عظیم الشان کامیابیوں کا فائدہ بطور ریاست نہیں مل پایا۔ہماری ریاست جیسی بھٹو کو اختیار ات ملنے سے پہلے تھی۔ان سے اختیارات چھینے جانے کے بعد بھی ایسی ہی رہی۔جو شور شرابے بھٹو سیاست نے برپا کیے وہ نہ ریاست کو کچھ نہیں دے سکے۔بھٹو دعوے اس قدر ریت کی دیواریں ثابت ہوئے کہ ان کی حکومت آسانی سے ختم کردی گئی۔انہیں قید رکھا گیا۔پھر پھانسی لگادی گئی۔نام نہاد صلاحیتیں اس دورا ن کوئی معجزہ دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔انہیں ان کے انقلابی ٹولے سمیت ماضی کا قصہ بنادیا گیا۔خیال کیا جاتاہے کہ بھٹو کے اس انجام کے پیچھے ان کی بے جا خود اعتمادی تھی۔انہوں نے تلوار سے مکھی مارنے کی غلطی کی۔ان کا زور نان ایشوز میں ضائع ہوتارہا۔وہ ان معاملات میں سرکھپاتے رہے۔جو ثانوی نوعیت کے تھے۔ان معاملات سے چشم پوشی کی گئی جو سب سے زیادہ توجہ کے متقاضی تھی۔بجائے ملک کو درپیش اصل مسائل کو سامنے رکھا جاتا۔یہ دیکھا جاتاکہ یہاں جمہوریت کیوں کر پنپ نہیں پارہی۔ملک کیوں ٹوٹا۔اس کے کرداروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتا۔بھٹو بھولی بالی عوام کو کھیل تماشوں میں لگاکرقومی مجرمان کو چھپانے میں لگ گئے۔شور تو یہ مچایاگیا کہ بھٹو نے اقتدار آمریت سے چھینا ہے۔مگر ان کے عبرت ناک انجام سے اس بات کا پتہ چلا کہ دراصل آمریت نے انہیں کچھ روزہ اقتدار صرف تازہ دم ہونے کے لیے بخشا تھا۔

چوہدری نثار ان دنوں خفیہ مخلوق کے بالواسطہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔نوازشریف جب بھی ووٹ کی عزت کے لیے بولے چوہدری صاحب نے جواب دینا ضروری سمجھا۔اگر نوازشریف نے بمبئی حملے کی بات کی۔چوہدری صاحب نے سابق وزیر اعظم کے بیان کو غیر مؤثر کرنے والی وضاحت کردی۔یہ ثابت کرنے کی کوشش کی نوازشریف حقائق کے منافی بات کررہے ہیں۔نوازشریف اگر عدلیہ کے رویے کی بات کرتے ہیں۔تو چوہدری نثار صاحب نوازشریف کو عدلیہ سے محازآرائی سے گریز کرنے کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔چوہدری نثار کے اس طویل اختلافی رویے کے مضمرات واضح ہونے لگے ہیں۔اب جب کہ پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی او رصوبائی اسمبلی کی ٹکٹو ں کی تقسیم کامرحلہ آیا تو یہ بات عیاں ہوئی کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے قائم کمیٹی کی اکثریت چوہدری نثار کو ٹکٹ جاری کرنے کے خلاف ہے۔پارٹی صدر شہبازشریف او رچند لوگ چوہدری صاحب کو ٹکٹ دینے کے حق میں ضرور ہیں۔مگر جس طرح سے واضح اکثریت نے چوہدری نثارکوٹکٹ دینے کی مخالفت کی ہے۔اس کے بعد پارٹی صدر کے پاس سوائے خامو ش رہنے کے کوئی چارہ نہ ہوگا۔ چوہدری نثارکے لیے بھی یہ بڑی آزمائش کا موقع ہے۔وہ ٹکٹ کی حقداری پر تو زور دیتے ہیں مگر اپنے ان بیانات بھلائے بیٹھے ہیں۔جو مسلسل داغتے رہے۔وہ یہ بھی کہہ چکے کہ خدانہ کرے کہ وہ دن آئے کہ انہیں ٹکٹ لینے کے لے کسی کے پاس جانا پڑے۔

بھٹو صاحب اور چوہدری نثار صاحب غیر جمہوریت قوتوں کے تعاون سے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے کا جو خواب دیکھتے رہے ہیں۔وہ ریت کاسراب ثابت ہواہے۔بھٹو صاحب اپنے تما م کھیل تماشوں کے باوجود ان لوگوں کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔پہلے حکومت گنوائی اور پھر جان۔اب چوہدری نثار کی تہی دامنی بھی اس تجربے میں ناکامی کا ثبوت بن رہی ہے۔چوہدری نثار اس وقت نہ مسلم لیگ (ن) والوں کی گڈ بک میں ہیں۔اور نہ انہیں کوئی اچھ امتبادل مل پایا۔ بدقسمتی کہ ان کے پاس اب کچھ نیا فیصلہ کرنے کا وقت بھی نہیں بچا۔الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی تاریخ دورنہیں۔اگر یہ تاریخ گزرگئی تو وہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔ان کے دوست اور سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف چاہنے کے باوجود بے بس ہیں۔مجبوری یہ ہے کہ ووٹ بنک نوازشریف کے نا م سے نتھی ہے۔نوازشریف کے پاس بظاہر کوئی پارٹی عہدہ نہیں مگر پارٹی کے تمام بڑے فیصلے وہی کررہے ہیں۔جوں جوں وقت گزررہا ہے۔ان کی خود اعتادی بڑھ رہی ہے۔ان کے فیصلے بد تدریج سخت سے سخت تر ہونے آرہے ہیں۔انہوں نے جلسوں میں عوامی نمائندوں کو درپیش رکاوٹوں کا حوالہ دیاہے۔وہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح مشرف کے اقتدامات کو تحفظ دینے کی سفارش پی پی قیادت لے کر آئی۔انہوں نے یہ بھی انکشاف کردیا کہ کسی طرح ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے انہیں فون کرکے میدان چھوڑجانے کا کہا۔نوازشریف قراردیتے ہیں کہ انہیں جو مشکلات درپیش ہیں۔اس کی وجہ مشرف کو کٹہرے میں لے جاناہے۔بدتدریج مضبوط ہوتے نوازشریف اب کھل کر فیصلے کرنے لگے ہیں۔چوہدری نثارکا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔بے پناہ صبر اور خاموشی کے بعد اب وہ وقت آن پہنچا کہ نوازشریف یہ کڑوا گھونٹ بھی نگل لیں۔ ٹکٹ نہ دینے کی خبریں بھی نوازشریف کے مضبوط عزائم کی دلیل ہیں۔غیرجمہوری قوتیں پہلی بارکسی بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔وہ پورا زور لگانے کے بعد بھی نوازشریف کو سرنڈر کروانے میں ناکا م ہوئیں۔نواز شریف جیل جانے کو تیارہیں۔وہ جلا وطن ہونے پر آمادہ نہیں۔بڑا ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔تمام سروے ان کے حق مین آرہے ہیں۔مشرف اب بھی وطن واپس آنے سے کترا رہے ہیں۔نوازشریف حکومت ختم ہوچکی۔سپریم کورت انہیں گرفتارنہ کرنے کی یقین دہانی کروارہی ہے۔مگر وہ مطمئن نہیں۔نوازشریف کی مقبولیت انہیں ڈرارہی ہے۔وہ ایک بار پہلے ہی بمشکل تمام پاکستان سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اب دوبارہ اس اذیت میں نہیں پڑنا چاہیے۔غیر جمہوری قوتیں دق ہیں۔کوئی وار کارگر نہیں ہوپارہا۔سب کچھ کرکے دیکھ لیا۔ان کے پاس اب دو ہی راستے بچے ہیں۔یا تو وہ اس بے سود مشقت کو جاری رکھیں یا پھر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔دو قدم پیچھے ہٹ جائیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.