میں نے انکار کیوں کیا

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب ناصر الملک نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا ہے ۔ ان کی چھ رکنی کابینہ نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔اس سے پہلے عبوری وزیر اعظم کے لئے بہت سے لوگوں کے نام سامنے آئے اوربہت سے نام پس منظر میں رہے۔ جن کے نام پس منظر میں رہے ، وہ لوگ تھے جن سے بہت سی سیاسی پارٹیوں نے پوچھا کہ ان کا نام دے دیا جائے مگر اس گفتگو کے دوران وہ اس معیار پر پورے نہیں اترے جو سیاسی پارٹیوں کا مطمح نظر تھایا انہوں نے خود انکار کر دیا۔سندھ میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب افہام و تفہیم سے ہو چکا۔ پنجاب ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں نام نہاد پارلیمانی گروپ ابھی تک فیصلہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ پارلیمان ختم ہو چکی مگر یہ گروپ کیسے قائم ہیں ۔ کوئی نہیں جانتا۔افسوس ہمارے ادارے ایسے سربراہوں کی سربراہی کا شکار ہیں کہ جنہیں اپنے اختیارات کا یا تو پتہ نہیں یا وہ اس قدر کمزور سربراہ ہیں کہ اختیارات استعمال کرتے انہیں ڈرلگتا ہے۔ پارلیمان ختم تو پھر کونسی پارلیمانی کمیٹی۔ یہ اختیار تو خود بخود الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔ الیکشن کمیشن کو فوری نامزدگی کر دینا چاہیے مگر کیا کریں الیکشن کمیشن میں دم ہی نہیں۔ بہرحال جب تک یہ سطور آپ تک پہنچیں گی کچھ نہ کچھ ہو چکا ہو گا۔

چند دن پہلے میں نے سب کو بتایا تھا کہ مجھے عبوری وزیر اعظم کی پیش کش ہوئی ہے مگر میں نے انکار کر دیا ہے تو میرے بہت سے دوستوں، شاگردوں اور بہی خواہوں نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ اتنی اچھی پیش کش اور تم نے ٹھکرا دی یہ تم نے اپنے ساتھ بھی زیادتی کی اور ہمارے ساتھ بھی۔اب میں کیا بتاؤ کہ مجھے بھی افسوس ہے مگر خود پر فخر بھی ۔افسوس عہدہ چھوڑنے کا اور فخر اس بات کا کہ میں نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی ۔ خود کو بڑے عہدے کے حصول کی خاطر چھوٹا ظاہر نہیں کیا۔ عبوری وزیر اعظم کے لئے نام ہمیشہ سیاسی پارٹیاں دیتی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسے شخص کا نام دیا جائے جو پارٹی کا حامی بھی ہو اور بظاہر غیر جانب دار نظر آتا ہو ۔یعنی بغل میں چھری منہ میں رام رام۔

ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ کے ارد گرد کچھ مخصوص لوگ ہوتے ہیں ۔ کچھ انتہائی مالدار لوگ جنہیں آج کل عرف عام میں ATM کہا جاتا ہے۔ پھر کچھ با اثر لوگ جو مخصوص لابیوں کے آلہ کار ہوتے ہیں ۔یہ دونوں گروپ پارٹی کے پایسی ساز ہوتے ہیں۔ پیسے اور اثر کے بل بوتے پر یہی لوگ پارٹی اور پارٹی سربراہ کو چلاتے ہیں۔ ان کا ہر فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی فیصلہ ہوتا ہے اور ایسے ہر فیصلے سے ناجائز پن اور غیر قانونی دولت کی بساند آتی ہے۔اس مخصوص گروپ کے بعد چھوٹے سرمایہ کاروں کا ایک بڑا گروپ ہوتا ہے۔اس گروپ کو قدرے عزت دی جاتی ہے اور پارٹی میں ہر لیول پر اس گروپ اور اس کے پیسے کی اچھل کود نظر آتی ہے۔آخر میں پارٹی میں ایک بہت بڑا گروپ سیاسی ورکرز کا ہوتا ہے۔ اس بڑے گروپ کو چھوٹے گروپ استعمال کرتے ہیں اور فقط استعمال کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان سیاسی ورکروں کو استعمال ہونے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی ۔ وہ اس طرح خوش ہوتے ہیں گویا اسی کام کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔

ایک بڑی سیاسی جماعت کے ایک لیڈر، ایک ATM میرے اچھے واقف ہیں ۔ میں دوست اس لئے نہیں کہتا کہ سیاسی لوگ اپنے مفادات کے علاوہ کسی کے دوست نہیں ہوتے۔میرے وہ واقف کار میرے پاس آئے اور مجھ کہا کہ تمہارا نام دے رہا ہوں کوئی حرج تو نہیں۔بالکل کوئی حرج نہیں تھا اس لئے میں نے ہاں کہہ دی۔مجھے راز دارانہ لہجے میں کہنے لگے ۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ ہمارے ہی بندے ہیں اور ہماری حمایت کرتے ہیں۔ میں چپ رہا۔ کیا بتاتا کہ ماضی میں ،جس پارٹی کا حامی تھا اورمیں نے جس پارٹی کے ساتھ کام کیا وہ اپنے لیڈروں کے ہاتھوں انجام کی طرف گامزن ہے۔

1971 میں ،میں نے اس پارٹی کے لئے لاہور میں کام کیا۔ اس وقت لاہور کے ہر حلقے میں بھٹو فوبیا کے باوجود اس پارٹی کے لگ بھگ بیس ہزار ووٹ تھے۔ آج کسی بھی قسم کا کوئی فوبیا نہیں لیکن میری ماضی کی پسندیدہ پارٹی نے اس قدر ترقی معکوس کی ہے کہ ہر حلقے میں ان کے اب بھی ماشا اﷲدو سو کے لگ بھگ ووٹ قائم اور دائم ہیں۔ ان کے لیڈر بہت ہونہار ہیں۔ان کی ہونہاری کا ایک پرانا واقعہ مجھے یاد آیا۔ ایک بزرگ لیڈر مجھے کہنے لگے فلاں علاقے میں الیکشن کے لئے کون کام کر رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں۔کہنے لگے وہاں میرے ایک ماموں رہتے ہیں۔ ان سے رابطہ کریں اور ووٹ کا کہیں۔ انشا اﷲپکا ووٹ ہے۔ میں ان کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ایک کمرے کا چھوٹا سا مکان تھا۔ نیچے ایک دکان تھی اور اوپر ان کی رہائش۔کھڑکی سے انہوں نے جھانکا اور پوچھا۔ میں نے عرض کیا کہ بات کرنی ہے۔ کہنے لگے بیٹا بیمار ہوں کچھ ضروری ہے ۔ میں نے ہاں کہا اور پیشکش کی کہ اجازت دیں تو میں اوپر آجاؤں۔ کھڑکی بند ہو گئی اور وہ تھوڑی دیر بعد وہ چند سیڑھیاں اتر کر بیٹھ گئے۔ چند سیڑھیاں میں چڑھا اور مدعا بیان کیا۔ ہنسنے لگے۔ پھر بتایا کہ وہ ایک نظریاتی کارکن ہیں ۔ اپنی پارٹی کے لئے ایک سال سے زیادہ عرصہ قلعے میں کاٹ کر آئے ہیں۔تشدد کی وجہ سے چلنا پھرنا مشکل ہے۔ مگر اس کی سادگی کیا کہوں۔ تمہارا آنا مجھے اچھا لگا ہے ۔ ووٹ کے علاوہ اگر کبھی کوئی کام ہو تو ضرور بتانا۔ مجھے خوشی ہو گی۔اسی IQ کے لوگ اس پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ سوچ لیں انجام گلستاں کیا ہو گا۔

اگلے دن میرے وہ جاننے والے پھر تشریف لائے اور بڑی لمبی گفتگو ہوئی۔ ان کی باتوں سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بظاہر میں غیر جانبدار نظر آؤں مگر حقیقت میں ان کا وفادار بن کے رہوں ۔ان کی پارٹی کے مفادات کو دیکھوں اور دیگرمعاملات کے لئے بے حس ہو جاؤں، بے ایمان ہو جاؤں، بے ۔۔۔ ہو جاؤں ، بے۔۔۔ہو جاؤں ،بے۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک عام استاد ہوں، کوئی شاہد خاقان عباسی تو نہیں کہ اتنے سارے بے ۔۔ اور میں سب کا بوجھ اٹھا لوں۔ میں نے انکار کر دیا۔ میں اپنی پرواز میں کوتاہی کیسے قبول کر سکتا تھا۔مجھے یقین ہے کہ ساری صورتحال جاننے کے بعد میرا یہ انکار میرے دوستوں کو اچھا لگے گا۔

میں مشکور ہوں تمام دوستوں، نوجوان ساتھیوں اور بہی خواہوں کا جنہوں نے میری دل جوئی کی اور ان کا بھی جو اسے میرا ایک خواب جان کر ہنس دئیے۔ لئکن سب کو پتہ ہونا چائیے کہ آج کی ہر حقیقت کبھی ایک خواب تھی اور آج کے بہت سے خواب کل ایک حقیقت ہونگے۔ آج ہمارے سیا سی نظام کا کوئی بھی لیڈرآئیڈیل نہیں۔ اور سیاسی نظام ایسا ہے کہ جس میں میری کلاس کے کسی بھی شخص کا سیاسی طور پر ابھر کر اوپر آنا ممکن ہی نہیں۔مگر یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔بہت جلد اس نظام کو اپنی موت مرنا ہے اور یقیناً ایسا ہو گا۔ اس وقت ہم الیکشن کے حوالے سے بہت سی دبرائیوں میں پھنسے ہیں اور ووٹ دیتے وقت کم تر برائی کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں ۔ اچھائی کے خواب دیکھیں ۔ اچھائی کی امید رکھیں یقیناً وقت بدلے گا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444140 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More