ذہنی بوجھ

تحریر: سعدیہ انعم (کراچی)
کچھ ہی دیر ہوئی تھی مجھے وہاں پہنچے۔ افطاری کی تیاریاں ہورہی تھیں میں کچن میں ہی چلی گئی۔ ’’کوئی کام ہے تو بتائیں میں کر دیتی ہوں‘‘۔ ’’نہیں میں کر لوں گی‘‘ انہوں نے ذرا سی پلکیں اٹھا کر مجھے جواب دیا اور پھر سے ٹرے میں رکھے فروٹ کاٹنے لگی۔۔۔

آپ رو رہی ہیں؟ میں نے ان کے کچھ قریب جا کر انھیں کاندھے سے پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔ اب انکا رخ میری طرف تھا اور آنسو ٹم ٹم انکی آنکھوں سے بہہ کر رخسار پر اداسی کی لکیریں کھینچ رہے تھے۔۔ مجھے بتائیں کیا ہوا ہے کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟ میرے پوچھتے ہی انھوں نے اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا تو مجھے لگا جیسے ان کے سارے آنسو میرے دل پر گر رہے ہوں کتنی اداسی تھی ان آنکھوں میں کتنا کرب تھا کتنی بے بسی تھی۔۔

’’ہم بیٹیوں کا کوئی گھر بھی ہوتا ہے کیا؟ جب تک ابا زندہ تھے کسی کی مجال نہ تھی میرے سسرال میں مجھے ایک بات بھی کہے جانتی ہو کیوں؟ میں نے ناسمجھی سے نفی میں بامشکل سر ہلایا۔۔ کیونکہ وہ آتے تھے یہاں میرا پوچھتے تھے اور جب بھی آتے تھے کچھ نہ کچھ ضرور لاتے تھے کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے تھے۔ میرے سسرال والوں کے ذہن میں بھی یہ بات ہوتی تھے کہ اس کے ولی وارث ہیں اگر اسے کچھ کہا تو ضرور پوچھیں گے۔۔ ’’ابا کے جانے کی دیر تھی سب بدل گیا سب کچھ بدل گیا انعم سب بدل گیا،‘‘ ان کا ضبط جواب دے گیا تھا اور پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھیں۔

مجھے اس وقت تسلی کے لئے الفاظ نہیں مل رہے تھے وہ مجھ سے گلے لگ کر رورہی تھی اور میں جیسے بت بنی ہوئی تھی باہر سے اپنا نام پکارے جانے پر وہ فوراً سے ہٹی اور منہ دھو کر کچن سے نکل گئی۔۔۔ میں بھی پیچھے پیچھے وہیں جا پہنچی کمرے سے ذرا، دور کھڑی میں اندر سے آتی آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ تم رو کر آئی ہو؟ ’’نہیں امی وہ میں پیاز کاٹ رہی تھی‘‘کیا پتا روئی ہو ویسے بھی جب سے تمھارے ابا گئے ہیں تمھارا رونا ختم نہیں ہوتا اسلام میں بھی تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں۔۔

خیر میں کہہ رہی تھی کہ بلال (داماد) کو تروایح پڑھنے جانا ہے وہ جلدی گھر جائے گا افطار کے فوراً بعد اسے کھانا دینا ہے. اسلئے کھانا بھی تیار رکھنا۔جواب میں کوئی آواز نہ سنائی دی۔اگلے ہی لمحے وہ کمرے سے نکلتی دکھائی دیں، میں انکے آنے سے قبل کچن میں آگئی تاکہ انھیں شرمندگی نہ ہو کہ میں نے کچھ سنا۔۔

’’سنو تم کبھی شادی مت کرنا اپنے گھر کی زندگی بہت اچھی ہوتی ہے۔۔ ماں باپ کا پیار پھر نصیب نہیں ہوتا۔۔ سب بدل جاتے ہیں احمد بھی اب وہ نہیں رہے۔۔۔شادی سے پہلے اور تھے اب اور ہیں۔تم کہتی ہو نا اسلام نے عورت کو بہت مقام دیا ہے کہاں ہے میرا مقام؟ کہاں ہے میرے حقوق؟ تم مرد کی فیور میں بہت لکھتی ہو اب لکھو میری بھی داستان اور ہر اس لڑکی کی جو کبھی کچن میں تو کبھی واش روم میں چھپ کر روتی ہے۔۔۔پھرتی سے کام کرتے کرتے وہ مسلسل بولے جارہی تھیں انکے لہجے میں نہ سسکیوِں کی نمی تھی نہ ہچکیوں کی رکاوٹ کچھ تھا تو غصہ شدید غصہ۔۔۔۔بے بسی بے پناہ بے بسی۔۔۔۔

میں نے بھی درمیاں میں بول کر انھیں نہیں روکا کیونکہ میں چاہتی تھی وہ اپنا سارا غبار نکال لیں اور کہہ دیں جو کہنا چاہتی تھیں جو شاید وہ کسی اور سے نہیں کہہ پارہی تھیِں۔۔ وہ کونسی نظم لکھی تھی تم نے مرد پر؟ذرا رک کر انھوں نے سوال کیا تو میں بھی اچانک سوال پر سوچ میں پڑگئی۔

اس سے پہلے کہ میں جواب دیتی وہ خود بول پڑی ’’مرد سب ایک سے ہوتے ہیں‘‘ اسی بات کے خلاف لکھی ہے نا غلط لکھی ہے بالکل ایک سے ہوتے ہیں۔ کوئی کہے گا میرے تین بھائی ہیں؟ کسی کو اتنا نہیں ہوسکا افطاری پر بلا لیں۔ بلائیں گے بھی نہیں عید آرہی ہے اور دیکھنا عیدی بھی نہیں آنی میری۔۔۔

پچھلے سال بھی نہیں آئی تھی۔ ہاں حارث بھائی نے اک سوٹ بھیجا تھا دیکھنے کا نہیں تھا پورے سسرال میں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی کس کس نے مذاق نہیں اڑایا۔۔۔فروٹ کی ٹرے ایکطرف رکھتے ہوئے اب وہ فریج سے ملک شیک کے لئے دودھ نکال رہی تھیِں اور ایکبار پھر انکی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں۔

’’لائیں جوس میں بنادیتی ہوں‘‘ میرے کہنے پر مجھے دودھ کا جگ پکڑا کر وہ پکوڑوں کے لئے تیل گرم کرنے لگیں۔ ’’زندگی میں سکون ہی نہیں رہا بس میں ہی میاں کی ان کے گھر والوں کی کے کام کروں باتیں سنوں انکا کوئی فرض نہیں ؟؟ کیا اسلام نے سارے فرائض بیوی کے لئے رکھے ہیں مرد کے لئے نہیں ؟ ان کے سوالوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ ایسی تو نہ تھیں کس طرح کے سوال ان کے ذہن میں دیمک کی طرح آچپکے تھے۔

اگر کوئی اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نہیں نبھاتا تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں اس میں اس شخص کی اپنی کوتاہی ہے جو اپنے فرائض نہیں نبھا رہا آپ بیچ میں اسلام کو مت لائیں۔ میں نے دوٹوک جواب میں کہا تو وہ میرے عین سامنے آگئیں۔

اچھا تو کیا کروں میں؟ کس کے سامنے رونا روں مجھے تو نا کردہ گناہوں کی سزا بھی مل جاتی ہے اور ان کا کیا جو کسی کی بیٹی کو ایک نوکرانی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے؟ تمہارے سامنے اسلام کی بات نہ کروں تو کس کی کروں تم ہی اس دن کہہ رہی تھی نا کہ اسلام نے عورت کو بہت مقام دیا ہے کہاں ہے میرا مقام؟ اپنی سرخ آنکھوں سے انھوں نے مجھے گھورا ’’آپ کا بھی مقام ہے آپ کو دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اس وقت آپ جس اذیت سے دوچار ہیں اس نے آپ کی سمجھنے کی حس کو مفلوج سا کردیا ہے اسی لئے آپ بہت سی باتوں کا ذمہ دار اسے ٹھہرا رہی ہیں جو قصور وار نہیں ہے۔ میں مانتی ہوں کہ آپ کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں مگر آپ جو کر رہی ہیں وہ بھی درست نہیں‘‘۔

میں کیا کر رہی ہوں؟ کڑاہی میں تیل انڈیلتے وہ فوراً سے بولیں تھیں اﷲ کو ناشکری پسند نہیں ہے اور ناامیدی کفر ہے۔ شاید میری بات آپکو ابھی سمجھ نہ آئے مگر اکیلے میں سوچئے گا کہ بھلا ایسا بھی کوئی کام ہے جو اﷲ کے اختیارمیں نہیں؟ اور اگر حالات پھر بھی نہ بدلیں تو پھر ضرور کہیں نہ کہیں ہماری کوشش ناکام ہے یا پھر ہماری آزمائش ہے۔

اور رہی بات یہ کہ اسلام نے آپ کو کیا دیا تو آپ کے تین بیٹے ہیں نا؟ اﷲ نے اگر ایک مرد کی خدمت میں آپکو جنت کی بشارت دی ہے تو تین مردوں کی جنت آپ کے قدموں میں بھی تو رکھی ہے۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ آپ کو اس نے اعلیٰ مقام والوں میں چنا؟ وہ آپ کو اولاد نہ دیتا تو آپ کیا کرلیتیں؟جانتی ہیں اولاد کے بغیر عورت کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے؟ جیسے سارا قصور اسی کا ہو۔ آپ شکر کریں اﷲ نے اس نعمت سے نوازا آپ کو۔ اور اﷲ دکھ دے تو کبھی شکوہ نہ کریں کم از کم اﷲ سے نہیں کریں اس کی ذات کا شکوہ۔ نہ اﷲ کے بندے سے اﷲ کا گلہ کریں۔کیونکہ وہ انھی کو آزماتا ہے جن سے محبت کرتا ہے۔۔ میرے خاموش ہونے پر وہ کچھ دیر وہ سوچ میں گم مجھے دیکھتی رہیں اور پھر مخاطب ہو کر کہنے لگیں ’’میں جانتی ہوں میں ٹھیک نہیں کرتی مگر جب بہت تکلیف پہنچتی ہے تو میں کچھ بھی کہہ دیتی ہوں‘‘ دھیمی آواز میں نظریں جھکائے وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی تھیں۔

بولیں کچھ بھی۔۔۔۔ مگر کچھ ایسا نہ بولیں کہ جس سے اﷲ سے ناامیدی اور اﷲ کی ناشکری جھلکے۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ سے زیادتی ہوجاتی ہے کبھی کبھی مگر ذرا اپنے شوہر کی ان باتوں کے بارے میں بھی سوچیں جو بہت سے شوہروں میں نہیں ہوتیں۔۔۔ انہوں نے کبھی آپ پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ آپ کو برا بھلا نہیں کہا۔ بقول آپ کے جب آپ سارے گھر کے کاموں کا غصہ ان پر نکالتی ہیں تو وہ تحمل سے سنتے ہیں اور آپ کو سمجھاتے ہیں نہ کہ گھر والوں کو یہی بتایاتھا نا آپ نے مجھے؟ میں نے تصدیق چاہی تو انہوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔

آپ کو کیا پتا کہ وہ گھر والوں کو نہیں سمجھاتے؟ ہوسکتا ہے سمجھاتے ہوں وہ سمجھتے نہ ہوں؟ آپ اچھا گمان بھی تو کرسکتی ہیں؟ آپ دعا کیا کریں اﷲ تقدیر بدلنے پر قادر ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا آپ کا وقت بھی بدلے گا آپ کے 3بیٹے ہیں ابھی چھوٹے ہیں۔ ان کی پرورش یوں کریں کہ آپ کے گھر آنے والی کسی کی 3بیٹیاں آپ کی تربیت پر ناز کریں جب تربیت کی وجہ سے بیٹے کسی کی بیٹی کو عزت مان محبت دیں گے تو آپ کو اﷲ وہ اعلیٰ مقام دے گا کہ آپ کو خود پر رشک آئے گا۔۔۔ میری بات سمجھ رہی ہیں نا آپ؟ جوس کا جگ ان کے سامنے رکھ کر میں نے اپنائیت سے ہاتھ تھاما تو وہ مسکرادیں۔۔

’’باتوں میں تم سے واقعی کوئی نہیں جیت سکتا‘‘انہوں نے اپنا پرانا جملہ کسا اور کڑائی میں کچھ دیر ڈالے پکوڑے الٹنے لگیں۔ ہوسکتا ہے کوئی ہرانے والا آجائے۔ کھلی کھڑکی کے درمیان جگہ بناتے ہوئے بیٹھ کر میں نے ماحول بدلنے کو شرارتی لہجے میں کہا تو وہ بھی ہنس پڑیں۔

فکر نہیں کرو ایسا ہی ہوگا۔ تمہارے لئے خاص دعا نکلتی ہے دل سے۔ مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے تم سے بات کرکے۔ ان کی بات سنتے ہی زندگی سے بھرپور مسکراہٹ میرے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔ دعا ہی تو چاہئے ہوتی ہے مجھے۔ آخر میں اتنا کہوں گی بہنوں کو شادی کے بعد ضرور یاد رکھیں کیونکہ باپ کے بعد بہنوں کی ساری امیدیں ان کے بھائیوں سے جڑی ہوتی ہیں اور اچھے بھائی ہی اپنی بہنوں کا سہارا بنتے ہیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1026633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.