تیسری دنیا کی ترقی کے حامی 92سالہ مہاترے محمد کی سیاست میں واپسی

میٹرک کے امتحانات کے ختم ہوتے ہی ایک اہم کام جو ہر ماں باپ کو کرنا چایئے اپنے بچوں کے لیے ...

ملیشیا کے عظیم لیڈر ڈاکٹر مہاتر محمدنے ستر سالوں تک ملک کی سیاست میں چھائے رہنے کے بعد رکن پارلیمنٹ ۔ڈپٹی وزیر اعظم اور پھر 1981 سے 2003 تک کامیاب وزیر اعظم رہنے کے بعد از خود سیاست سے ریٹائر ہو کر پندرہ سال بعد دوبارہ بطور وزیر اعظم سیاست میں واپس آ کر سیاسی دنیا میں ہلچل مچا دی ۔ ہر تجزیہ نگار اور سیاسی کارکن کے لیے یہ ایک اہم سوال ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جنکی بنا پر بتدریج سیاسی کامیابیوں اور خوشی سے ریٹائر ہونے کے باوجود 92 سال کی عمر میں مہاترے محمد کو ملکی سیاست میں واپس آنا پڑا؟ اس تجزیے کے لیے ضروری ہے کہ مہاتر محمد کی ذاتی و سیاسی زندگی اور قومی و بین القوامی پالیسی پر نظر ڈالی جائے۔

مہاتر محمد دس جولائی سن پچیس کو برطانوی ملیشیا کی ریاست کیدا میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے اٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے انکے دادا اسکندر نے پیننگ کے علاقہ جوہر کی ایک ستی ہوا نامی خاتون سے 1881 ء میں شادی کی۔ مختلف ہتھکنڈوں اور سازشوں کے تحت برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مہاتر محمد کے اعلی تعلیم یافتہ دادا مسٹر اسکندر کو کیدا رائل پیلس میں انگلش زبان پڑھانے کے لیے مالے لایا جہاں بھارتی ریاست کیرالہ کا پس منظر رکھنے والے مہاتر محمد کے والدمحمد بن اسکندر نے مالے کی ایک خاتون بتنی حوان حنافی سے شادی کی جو کیدا رائل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ مسٹر اسکندر مالے کے رائل سکول مکتب سلطان عبدالحمید کے پہلے صدر معلم مقرر ہوئے۔ مہاتر محمد کے والد اور والدہ دونوں کی یہ دوسری شادی تھی جسکی وجہ سے مہاترے محمد کے اٹھ بہن بھائیوں میں سے صرف دو حقیقی تھے ۔ مہاتر محمد کے باپ کی کم آمدنی کی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم نہ دلو سکے۔ مہاترے محمد جو خود ایک میڈیکل ڈاکٹر بن گے انہیں اپنی بہنوں کی تعلیمی محرومی کا بہت دکھ تھاحالانکہ وہ انکی حقیقی بہنیں نہیں تھیں۔اس سے مہاتر محمد کی فطری سماجی انصاف پسندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سن تنتیس میں انگلش میڈیم سکول میں انہوں نے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم میں حالات خراب ہوے تو مہاتر محمد نے قوفی اور کیلے جیسی چھوٹی آئٹم فروخت کر کے اپنا نظام چلایا۔ جنگ بندی کے بعد سن چھتالیس میں مہاتر محمد نے سنئیر کیمبرج کا امتحان پاس کیس اور سنگا پور کے کنگ ایڈورڈ کالج میں میڈیکل سائنس کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا ۔ یہ کالج اب نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں تبدیل ہو گیا ہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج میں ہی مہاتر محمد کی ہونے والی بیگم میڈیکل ڈاکٹر ستی ہاشما محمد علی سے ملاقات ہوئی۔ مہاتر محمد نے پہلے ایک سرکاری ڈاکٹر کے طور پر کام کیا ۔ایک سال بعد انہوں نے اپنی پریکٹس قائم کر لی۔ سن چھپن میں شادی کی۔ سال بعد مرینہ بیٹی پیدا ہوئی۔ اﷲ تعالی نے انہیں مزید تین بچے عطا کیے اور اگلے اٹھائیس سالوں میں کسی اور کے تین بچے انہوں نے گود لے لیے جو انکی انسان دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جاپان سے آزادی کے بعدمہاتر محمد نے غیر ملکیوں کو ملیشین شہریت دینے کے خلاف مہم میں مرکزی کردار ادا کیا جبکہ دوران تعلیم انہوں نے سی ایچ ڈیٹ کے فرضی نام سے سٹریٹ ٹائمز میں ملیشیا کے حقوق کے لیے کالم نویسی کی جس میں انہوں نے ملیشیا کی قومی زبان کو تدریسی زبان کے طور پر نافذ کرنے پر زور دیا۔ دوران میڈکل پریکٹس ڈاکٹر مہاتر محمد نے ملیشیا کی سیاسی پارٹی یو ایم این او کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ملیشیا کے 1959 کے قومی الیکشن کے وقت وہ کیدا میں پارٹی کے چئیرمین تھے لیکن وزیر اعظم تنکو عبدالرحمان کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہ لیا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ تنکو برطانوی اور کامن ولیتھ فوج مسلسل ملیشیا میں رکھنا چاہتے تھے جبکہ مہاتر محمد ملیشیا میں مکمل طور پر سیاسی اور فوجی مداخلت کا خاتمہ چاہتے تھے تاکہ وہ آزادانہ اقتصادی پالیسیاں مرتب کر سکیں۔ مہاتر محمد ملیشیا میں سنگا پور کی اقتصادی اجاراداری کے بھی خلاف تھے جسکی وجہ سے پارلیمنٹ میں پہلے سال میں ہی انہوں نے چین کے حمایت یافتہ سنگاپور یوں کو ملیشیا سے بے دخل کر دیا۔ انتہائی مقبولیت کے باوجود مہاترے محمد سن انہتر کے قومی الیکشن میں ملیشین اسلامی پارٹی کے یوسف راوا کے ہاتھوں شکست کھا گے جسکی وجہ مہاتر محمد نے چینی پس منظر کے وٹرز کی مخالفت بتائی۔ ایک سال بعد چینی۔ ملیشیائی باشندوں کے خلاف زبردست ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور وزار اعظم عبدالرحمن نے مہاتر محمد کو پارٹی سے نکال دیا۔ مہاترے محمد نے اس موقع پر مالے ڈائلیما کے عنوان سے اپنی پہلی کتاب لکھی جس میں انہوں نے کھل کر اپنے وژن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملیشیا میں چین کی اقتصادی اجارہ دارہ ختم ہونی چائیے۔ عبدالرحمن کی حکومت نے مہاتر محمد کی کتاب پر پابندی عائد کر دی جو مہاترے محمد نے سن اکاسی میں وزیر اعظم بنکر ختم کر دی۔ مہاتر محمد نے اپنے سیاسی و اقتصادی نظریے پر مسلسل کام کرتے ہوئے ملیشیا کو ایشیا کا اقتصادی ٹائیگر بنا دیا دن بدن عوام میں انکی پزیرائی میں اضافہ ہوتا گیا برطانیہ اور امریکہ کی مخالفت بھی مہاتر محمد کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔تمام قومی اداروں پر حکومتی گرفت مضبوط کر کے انہوں نے مخلوط اقتصادی نظام کو ترقی دی۔ سن اکانوے میں انہوں نے سن2020 کے وژن کا اعلان کیا جس کے مطابق ملیشیا کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لانا تھا۔ بیرونی انوسٹمنٹ کی حوصلہ افزائی بے روزگاری نو فی صد تک لے آئے اور معاشرے میں عدم مساوات کو کم سے کم کر دیا۔ انکے بڑے منصوبوں میں ملیشیا سنگاپور سے تھائی لینڈ تک مثالی روڈ، ملٹی میڈیا کوریڈور کے نام سے انفرمیشن ٹیکنالوجی میں اضافہ اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی شامل تھا اسی ترقی کی بنا پر مختلف ممالک کے مزدور ملیشیا کا رخ کرنے لگے۔ سن 2001 میں مہاتر محمدنے اعلان کیا کہ ملیشیا ایک اسلامی ریاست ہے سال بعد جب انہوں نے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو کر لیڈر شپ اعبداﷲ بداوی کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تو انکے حامی بے اختیار رو پڑے انہوں نے اسلامی کانفرنس کے آخری اجلاس میں یہودیوں پر پراکسی وار کا الزام لگایا جسے امریکی صدر بش نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔اب سوال ہے کہ مہاتر محمد واپس کیوں آئے اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مہاترے محمد کے وژن کو آگے لے جانے والے اعبداﷲ بداوی کو نجیب رزاق نے شکست دے کر مغرب نواز پالیسیاں اپنانا شروع کر دی تھیں جس پر مہاتر محمد جیسا نظریاتی لیڈر خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔ مہاتر محمد اب 92 سال کی عمر میں شاید زیادہ دیر تک سیاسی بوجھ برداشت نہ کر سکیں لیکن وہ ایک نظریاتی اور آزاد قومی پالیسی رکھنے والی ٹیم کو واپس لانا چاہتے ہیں انکی پوری ٹیم کے نام تو فی الحال سامنے نہیں آئے لیکن انکے ایک دست راست انور ابراہیم کی اہلیہ وان عزیز ی اسماعیل کا نام بطور متوقع ڈپٹی وزیر اعظم سامنے آ چکا ہے۔ اس منصب پر تعینات ہونے والی یہ ملیشیا کی پہلی خاتون ہو نگی ان الیکشن سے واضع ہو گیا ہے کہ مہاتر محمد نے ملیشیا کو سیاسی بحران سے بچا لیا ہے اﷲ تعالی دوسرے اسلامی ممالک کو بھی مہاترے محمد کی طرح فہم و فراست سے کام لینے کی توفیق دے۔ آمین۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.