تبدیلی سے پہلے تبدیلی

بدقسمتی سے ستر سالوں سے میرے ملک کے باشعور عوام ہر الیکشن سے قبل ہر نئے نعرہ کے نام پر دھوکہ کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر ،کبھی مہنگائی ،بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات کی نوید سنائی جاتی ہے او ر کبھی نظام مصطفی راج کرنے کے نام پر ووٹ لیے جاتے ہیں مگر اب تک عوام کو نہ روٹی ،کپڑا اور مکان مل سکا ،نہ مہنگائی، بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ سے نجات مل سکی اور نہ ہی دو قومی نظریہ کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست کا جو تصور دیا گیا تھا وہ پورا ہو سکا۔ کرپشن اور لوٹ مار نے ملک کے بچے بچے کو ایک لاکھ تیس ہزا ر کا مقروض بنا دیا گیا ہے۔ میرے ملک کے غلاظت دانوں( سیاست دانوں) کے اثاثے دنیا کے اک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل چکے ہیں جن کا سراغ لگانا بھی ہمارے اداروں کو مشکل ہو گیا جو اثاثہ جات سامنے آئے اُن کا حساب کتاب بھی دینے کو کوئی تیار نہیں۔

ایسے حالات میں تحریک انصاف کی صورت میں عوام کو تبدیلی کے نام پر اک بار پھر کچھ امید نظر آئی مگر کرپشن مافیا ء نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اس جماعت کو بھی یرغمال بنا لیا ۔ وہی کرپٹ آزمائے ہوئے غلاظت دان (سیاست دان ) اک بارپھر اکھٹے ہو کرعوام کو دھوکہ دینے کے لیے نئے پرچم کے نیچے جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن سیاست کے پرانے کھلاڑیوں نے بھی ایسی سیاسی چالیں شروع کر دی ہیں جن کو سمجھنا شاید عمران خان کے بس کی بات نہ ہو ۔ اک مخصوص مافیاء تحریک انصاف کی صفوں میں داخل ہو چکا ہے جس سے چھٹکارہ حاصلی کیے بغیر تبدیلی ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ عمران خان کا سب سے خطرناک نعرہ" کرپشن فری پاکستان "کسی غلاظت دان کو منظور نہیں۔ ہمارے ملک میں سیاست کی ہی لوٹ مار اور کرپشن کے لیے جاتی ہے نہ کہ عوام کی خدمت کے لیے۔ ایسے ماحول میں عمران خان کا نعرہ صرف نعرہ تو ہو سکتا ہے مگر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے عمران خان کو صاف ستھری اور نئی قیادت کی ضرورت ہے جوکہ نظر نہیں آرہی ۔

ہمارے باخبر ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کو اس وقت کو ہائی جیک کرنے کے لیے شریف برادری، آصف زرداری ، چوہدری براداران ، کے پی کے سے مولانا فضل الرحمن(ایم ایم اے)، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے درپردہ ایک پلان تیار کیا ہے جس کے تحت مذکورہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے قابل اعتماد لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کروا رہی ہیں جس کی ایک مثال ڈسٹرکٹ اٹک سے دونگا جہاں پوری کی پوری مسلم لیگ (ق) تحریک انصاف میں ضم ہو چکی ہے اور تحریک انصاف کے پرچم اپنے ہاتھوں میں لیے اپنا سیاسی کھیل شروع کر چکی ہے۔ تحریک انصاف کے حقیقی ورکر جو گذشتہ کئی سالوں سے مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کر رہے تھے آج پس منظر میں چلے گئے ہیں اور اس طرح دیگر اضلاع میں بھی تحریک انصاف کے اندر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لوگ داخل کر دیئے گئے ہیں۔

تحریک انصاف کی پنجاب میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ایک پلان کے تحت ہر ضلع میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر زیادہ سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے جائیں گے جس میں مختلف مذہبی تنظیموں کو بھی استعمال میں لایاجا رہا ہے بلکہ شنید ہے کہ اس کے لیے فنڈز بھی دئیے جا رہے ہیں تاکہ ووٹ کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کیا جا سکے اور تحریک انصاف کوپنجاب میں نقصان پہنچایا جا ئے اس کے لیے سندھ سے بڑا فنڈ پنجاب میں خرچ کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی میں شمولیت کرنے والے افراد پس پردہ جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ تحریک انصاف کے سربراہ کے علم میں نہیں۔

تحریک انصاف میں تبدیلی سے پہلے تبدیلی وقت کی ضرورت ہے ورنہ منافقوں کا ٹولہ تحریک انصاف کو اپنے اندر نگل لے گا اور کرپشن فری پاکستان کا نعرہ صرف نعرہ ہی رہے گا۔ الیکشن سے پہلے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم اگر میرٹ پر نہ کی گئی تو نووارد ٹولہ اپنا کھیل کھیلنے میں کامیاب ہو جائے گا اور عمران خان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے جو کہا ہے کہ "عمران خان آپ کا آخری اور میرا پہلا الیکشن ہو گا"اس فقرے کے اندر چھپے راز کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو تمام سیاسی پارٹیاں پی ٹی آئی کے خلاف درپردہ کھیل کھیل رہی ہیں وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
 

Iqbal Zarqash
About the Author: Iqbal Zarqash Read More Articles by Iqbal Zarqash: 69 Articles with 55568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.