شام، امریکا کا نیا شکار

 شامی حکومت نے گزشتہ دنوں دوما میں اپنے ہی شہریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے بچوں اور خواتین سمیت سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس کارروائی پر عالمی برادری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شام کو خبردار کیا کہ اْسے اس وحشیانہ کارروائی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، جس کے بعد امریکا نے شام پر حملہ کردیا۔ امریکا کے شام پر حملے کے پیش نظر اس خدشے کا اظہار بعید از قیاس نہیں کہ شام کو بھی عراق جیسے انجام سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ امریکا نے مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر عراق پر حملہ کیا تھا، لیکن یہ الزام کبھی ثابت نہیں ہوسکا اور امریکی و برطانوی قیادتوں نے بعد میں ا س کا اعتراف بھی کرلیا، لیکن اس وقت تک بدنصیب ملک عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی تھی اور عراق اب تک امریکا کی لگائی ہوئی اس خونریزی کی آگ میں جل رہا ہے۔امریکا شام کو بھی عراق کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔ عراق میں آج تک ہونے والی خونریزی میں بھی امریکا نے اسلحے کی فروخت سمیت دیگر بے تحاشا فوائد حاصل کیے اور شام کی خانہ جنگی میں بھی اسلحے کی فروخت سمیت امریکا بے بہا فوائد حاصل کررہا اور مزید کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ امریکا اپنا اسلحہ فروخت کرنے اور دیگر فوائد سمیٹنے کے لیے خود ہی مسلم ممالک میں جنگوں کو جنم دیتا ہے اور بعد میں ان جنگوں کو ختم کرنے کے نام پر مزید جنگیں مسلط کردیتا ہے۔

امریکا کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ممالک میں جنگیں کسی صورت ختم نہ ہوں۔ امریکا مسلم ممالک میں پہلے اپنے خلاف خود عسکریت پسند تیار کرتا ہے۔ ان کو مکمل تعاون فراہم کرتا ہے۔ ان کی کارروائیوں پر خاموش رہتا ہے۔ ان کو مضبوط کرنے کے لیے انہیں اسلحہ بھی دیتا ہے اور پھر خود ہی وقت آنے پر ان کو ٹھکانے لگادیتا ہے۔ اگر کہیں دہشتگردی ختم ہونے بھی لگتی ہے تو خود ہی حملہ کرکے جنگ کو نئے سرے سے چھیڑ دیتا ہے۔ امریکا یہ سب کچھ دو وجہ سے کرتا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ کہ خانہ جنگی کی صورت میں دونوں فریقوں کو اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکا اس وقت دنیا میں اسلحے کی مارکیٹ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے۔ امریکا سے اسلحہ خریدنے والے سب سے بڑے تاجر مسلم ممالک ہی ہیں۔ وہ اسلامی ممالک کو جنگ کی بھٹی میں جھونک کر اپنا اسلحہ بیچنے سے جس قدر سرمایا کماتا ہے شاید کسی اور ذریعے سے اتنا نہ کماتا ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکا اسلامی ممالک کو خانہ جنگی کے ذریعے اس قدر کمزور کردینا چاہتا ہے کہ مستقبل میں کبھی بھی یہ ممالک اس کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔اسلامی ممالک ہمیشہ امریکا کے کاسہ لیس بنے رہیں اور کمزور اسلامی ممالک پر وہ باآسانی قبضہ کرلے۔

امریکی حملے سے شام کے حالات مزید مشکل صورتحال سے دو چار ہوتے نظر آرہے ہیں اور شام نہ ختم ہونے والی جنگ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ امریکا نے شام پر اندھا دھند میزائل برسائے ہیں، اس پر روس اور شام نے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے اور وہ سنگین نتائج روسی افواج کی جانب سے باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی صورت میں ہی ہوں گے۔ امریکی بمباری سے بھی شام تباہ ہوا ہے اور روسی بمباری سے بھی ایسا ہی ہوگا۔ دنیا بھر کی طاقتیں اپنی جنگیں مسلم ممالک میں لڑ رہی ہیں، جس سے نقصان صرف مسلم عوام کا ہورہا ہے۔ دنیا کے تمام امن پسند لوگوں کے لیے شام میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت اور خانہ بربادی کا سبب بننے والی برسوں سے جاری خانہ جنگی و خوں ریزی بجا طور پر شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہے۔ اس معاملے میں بتدریج متعدد علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی شامل ہوچکی ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں حالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جارہے ہیں۔

سرزمین شام پر شب ظلمت کے اندھیرے گہرے اور خون مسلم کی ارزانی بڑھتی چلی جارہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ دنیا کی مختلف قوتوں کے شام سے وابستہ مفادات ہیں۔ عرب دنیا میں دسمبر 2010ء میں کو تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی لہر نے خطے کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مصر، یمن، لیبیا، عراق اور شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ تیونس، مصر، لیبیااور یمن میں حکمرانوں کیخلاف احتجاجی تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو اسے ’’عرب بہار‘‘ قرار دیا گیا کہ عوام کو موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کے تسلط سے آزادی مل رہی تھی،لیکن بدقسمتی سے ان عوامی تحریکوں کو ناکام بنانے اور مسلم دنیا میں خانہ جنگی شروع کرانے کی خواہشمند طاقتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوگئیں اور ملک شام اس خوں ریزی کا سب سے بڑھ کر نشانہ بنا اور ایک اندازے کے مطابق پچھلے سات برس میں95 لاکھ سے ایک کروڑ تک شامی شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، جن کی ایک بڑی تعداد ترکی کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے، باقی یورپی ملکوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سات سالہ خانہ جنگی میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔15 لاکھ سے زائد شہری مستقل معذوری کا شکار ہوئے، کئی تاریخی شہر اور قصبے کھنڈر بن گئے۔ کاش اس خانہ جنگی کے آغاز میں ہی یہ معاملہ اندرون ملک ہی مذاکرات سے طے کر لیا جاتا اور بیرونی مداخلت کی راہیں مسدود کردی جاتیں تو یہ قیامت شام پر نازل نہ ہوتی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اس المناکی پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی طاقتیں اور خطے کے چیدہ ممالک سر جوڑ کر بیٹھتے اور اس مسئلے کاکوئی مستقل حل نکالتے، لیکن عالمی طاقتیں اور خطے کے ممالک جنگ بندی میں کردار ادا کرنے کے بجائے خود اس جنگ کا حصہ بن کر شامیوں کے قتل عام میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔

شام میں حکومت اور عوام کے اختلافات جو رفتہ رفتہ ہولناک خانہ جنگی میں بدل گئے، اسے امت مسلمہ کو حل کرنا چاہیے تھا۔ عالم اسلام کو باصلاحیت اور دردمند قائدین میسر ہوتے تو اس تنازع کا کوئی قابل عمل حل حالات کے بہت زیادہ بگڑنے سے پہلے ہی تلاش کیا جاسکتا تھا، لیکن افسوس کہ او آئی سی اور عرب لیگ دونوں ہی قطعی ناکارہ ثابت ہوئیں اور تنازع کو حل کرنے کے بجائے مختلف مسلم ملکوں نے شام کی خانہ جنگی میں فریق بن کر معاملات کو مزید خراب کرنے میں حصہ لیا، جبکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ڈھائی ارب مسلمان عوام اس ساری صورت حال کو انتہائی بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔ خدا جانے مسلمان ملکوں کے رہنماؤں کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ جب تک غیر ملکی ان کے خطے میں ہیں، ان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہیں اپنے مسائل خود حل کرنے چاہیے۔ غیرملکیوں کے مسلم ممالک میں مداخلت کے راستے بند کرنے چاہیے، مگر افسوس! خود مسلم ممالک کے حکمران ہی غیرملکیوں کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کی تباہی میں شریک ہیں۔ شام میں بھی ایسا ہی ہے۔ مسلم ممالک کا ایک فریق امریکا کے ساتھ مل کر شام پر بم برسا رہا اور دوسرا فریق روس کے ساتھ مل کر شام کو تباہ کر رہا ہے۔ شام میں ہر سطح پر فوری جنگ بندی کو یقینی بنانا ، مسلم ممالک، اقوام متحدہ، او آئی سی ، عرب لیگ تمام عالمی طاقتوں اور پوری عالمی برادری کی ناگزیر ذمہ داری ہے، مگر یہ سب عالمی طاقتیں اور ادارے اپنی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.