غار حرا کی زیارت پر پابندی اسلام کے خلاف ایک، گہری سازش

غار حرا سمیت مختلف مقدس مقامات پر پابندی سے کسی ایک مسلک کے لوگوں کی دل آزاری نہیں ہوئی بلکہ تمام مسالک کے پیروکاروں کی دل آزاری ہوئی ہے ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسالک کے علما مشترکہ طور پر محمد بن سلمان کے ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھائیں اور ایسے نام نہاد علما کا بایئکاٹ کریں جو سعودی حکومت کے غیر اسلامی اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں اس لئے کہ ان کی نمک حلالی کا تقاضہ ہے کہ وہ سعودی شاہوں کے ہر غلط صحیح اقدام کی حمایت کریں اس کے بر عکس ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ سعودی شاہوں کے ہر غلط اقدام کی مذمت کرے۔

غار حرا،زیارت پر پابندی

آج کل سعودی عرب میں جس تیزی کے ساتھ مختلف شعبوں میں اصلاحات جاری ہیں ان کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں حجاز مقدس کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس پر مسلمانوں کا سب سے مقدس مکان خانہ کعبہ موجود ہے اسی طرح سرزمین مدینہ میں اللہ کے آخری رسول ص محو استراحت ہیں۔اسی تقدس کی وجہ سے ہر دور میں مکہ اور مدینہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدار حج وزیارت کے لئے جاتی رہی ہے۔حجاز مقدس میں آل سعود کی ڈکٹیرشپ کے بعد مسلمانوں کو بہت حج و زیارت میں بہت سی مشکلات پیش آئیں گو کہ آل سود دنیا بھر سے آنے ولاے مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ آنے سے نہ روک سکے لیکن انہوں نے اپنے شدت پسندانہ نظریات کی بنیاد پر مسلمانوں کے بہت سے مقدس مقامات کو زمین بوس کر دیا۔

اس پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا تو آل سعود کسی حد تک اس مذموم عمل سے باز آئے لیکن آل سعود کے تمام بادشاہوں نے اپنے شدت پسندانہ نظریات کے فروغ کے لئے نا صرف دہشت گردوں کی مدد کی بلکہ مختلف اسلامی ممالک میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے رکھا حتی سرزمین امن مکہ میں بہت سے مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلایا گیا۔

مسلمانوں کے جذبات کو جس طرح آل سعود نے ٹھیس پہنچائی اس کی مثال نہیں ملتی لیکن اب اس حوالے سے صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ سعودی عرب میں زمام اقتدار ایک ایسے لا ابالی جوان کے ہاتھوں میں ہے کو اسلام کو ختم کردینا چاہتا ہے اسی امر کے حصول کے لئے عقل وشعور سے عاری محمد بن سلمان نے ایک خصوصی حکم میں اعلان کیا ہے کہ مکہ اور مدینہ میں آنے والے مسلمانوں کو ان دونوں مقدس شہروں میں موجود مقدس مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ان مقامات میں غارحرا اور غار ثور بھی شامل ہے شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے کسی بھی مسلمان کو غار حرا اور غار ثور کی زیارت کے لئے جانے کی اجازت نہیں ہو گی اسی طرح مقامی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مسلمان کو ان مقدس مقامات پر نہ لے کر جائیں اگر لے کر جائیں گے تو ان کو بھاری جرنامہ ادا کرنا پڑے گا ۔

یہ شاہی حکم ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب سعودی معاشرے کو بے دینی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اس امر کے حصول کے لئے نا صرف ملک میں جوا خانے قائم کئے جا رہے ہیں بلکہ فاحشہ عورتوں کے ذریعے مقامی روایتی کلچر کو ختم کیا جا رہا ہے اسی طرح ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جو مکمل طور پر ایک بے دین معاشرہ ہو۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کے وارث کہلانے والے،اسی طرح رسول کائنات ص کی سنت کے پیروکار لوگ خاموش ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ افسوس اور بدبختی یہ ہے کہ سعودی شاہوں کے نمک پر پلنے والے نام نہاد علما محمد بن سلمان کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے بھونڈے انداز سے ان اقدامات کا دفاع کر رہے ہیں۔

غار حرا سمیت مختلف مقدس مقامات پر پابندی سے کسی ایک مسلک کے لوگوں کی دل آزاری نہیں ہوئی بلکہ تمام مسالک کے پیروکاروں کی دل آزاری ہوئی ہے ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسالک کے علما مشترکہ طور پر محمد بن سلمان کے ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھائیں اور ایسے نام نہاد علما کا بایئکاٹ کریں جو سعودی حکومت کے غیر اسلامی اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں اس لئے کہ ان کی نمک حلالی کا تقاضہ ہے کہ وہ سعودی شاہوں کے ہر غلط صحیح اقدام کی حمایت کریں اس کے بر عکس ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ سعودی شاہوں کے ہر غلط اقدام کی مذمت کرے۔

 

عبدالرحمن سلفی
About the Author: عبدالرحمن سلفی Read More Articles by عبدالرحمن سلفی: 4 Articles with 2768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.