بابا تاج دین

سلسلہ قصہ کہانی

دو شہتیر وں اور ساتھ والی دوکان کے سہا رے سے کھڑا وہ چھپر سا تھا ، جس کی چھت پر لکڑی کے بے ترتیب ڈنڈوں کے ساتھ پرالی رکھی ہو ئی تھی ۔برسات کے موسم میں بارش کا پا نی اس کو چھت ماننے پر تیا ر نہ ہوتااورسارا دن چکنی مٹی اور اینٹوں کے بے جوڑ امتزاج سے بنے فرش پر برستا رہتا ۔ لیکن سردیو ں کے دنو ں میں جب دھوپ نکلتی تو پو رے بازار میں اس سے بہتر بیٹھنے کی جگہ نہ ہو تی ، بازار کے عین وسط میں چوراہے پر موجود یہ دوکان نما چھپر جدید بارونق بازار کے لیے نظر بٹو کا سا کام کرتا ۔تہجد کے وقت بیدار ہونے والا تاج دین فجر پڑھتے ہی اسے کھو ل لیتا ۔کھولنا بھی کیا ہو تا سب کچھ تو کُھلا ہی پڑا ہو تا بس اُس کے اُوزاروں والے لکڑی کے صندوق پر ایک چھو ٹا سا تالا پڑا رہتا ۔ یہ اُوزار ہی دکان کا کل سرمایہ تھے ۔مرمت کے لیے آنے والا سامان عموما مغرب تک واپس چلا جا تا تھا ،آتا بھی کیا تھا اکثر پرانی چا رپا ئیا ں یا میز کرسیا ں وغیرہ ہو تیں ، جنہیں تا ج دین کیل وغیرہ ٹھو نک کر ٹھیک کر دیتا ۔ کبھی کبھا ر نیا سامان بنا نے کا بھی آڈر آجا تا ایسی فرما ئش عام طور پر اُس کے پاس بیٹھنے والے کسی بزرگ کے گھر سے ہی ہوتی ۔اس بات کو تا ج دین بھی اچھے سے سمجھتا تھا کہ یہ نیاسامان بننے کیو ں آتا ہے ۔ اس وقت باز ار میں لکڑی کا کام کرنے والے کئی ما ہر کا ریگر موجود تھے جو عہد حاضر کی مطا بقت سے بڑے عمدہ ڈیزائن کے فرنیچر بنا تے تھے ، ویسے بھی اچھرہ کون سا وہا ں سے دورپڑتا تھا جہا ں اس کام کی پو ری ما رکیٹ تھی ۔ اُس کے پاس بننے کے لیے آنے والے آڈر عموما اُس کی دلجو ئی کے لیے ہو تے وہ سمجھتا تھا ، لیکن ظا ہر نہیں کرتا تھا ۔

تا ج دین کے پاس صبح سے ہی بستی کے بڑے بزرگ آنے شرو ع ہو جا تے ،کچھ تو ہمت کرکے لاٹھی یا بغیر لا ٹھی کے اُس کے پاس پہنچ جاتے چند کو اُن کے بیٹے ، زیا دہ ترکو پو تے یا نوا سے چھو ڑ اور لے جا تے تھے ۔ غرض فجر سے لیکر مغرب تک بزرگ آتے اور جا تے رہتے ، ہر آنے اور جانے والے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے ، وہا ں ناشتے بھی چلتے ، کھانے بھی ، لیکن چا ئے تو ایسے پی جا تی کہ کیا کہنے بغل والے ہو ٹل کا ایک لڑکا تو ادھر ہی رہتا کبھی چائے دینے آتا کبھی برتن اُٹھا نے تو کبھی چینی دینے آجا تا ، اکثر چائے نئے آنے والے بزرگ کے مزاج کے برعکس ہو تی تو چائے میں دودھ اور پانی کے تناسب کو درست کروایا جا تا ۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا بلا ناغہ ،بلا تعطل صبح سے شام تک ،لیکن ہو ٹل کے بل کی ادائیگی کہا ں سے ہو تی اس کی کسی کو خبر نہ تھی یہا ں بیٹھنے والے اپنے تئیں ہو ٹل والو ں کوپیسے دیتے رہتے تھے لیکن وہ نا کافی ہو تے مگر ہو ٹل مالک نے نہ کبھی بل کاتقا ضا کیا تھااور نہ کبھی کو ئی چیز دینے سے انکا ر ۔

تا ج دین کے پاس پچا س سے تجا وز کرتے ہر عمر کے لوگ آتے ، کچھ نوے کو کراس کرتے ہو تے ، کچھ پچا س میں ہی نوے کی عمر والی باتیں کرنے والے ۔ گو کہ یہا ں آنے والوں کی عمروں میں کا فی فرق بھی ہوتا لیکن ذہن سب کا ایک ہی جیسا تھا ،اگر عددی قوت کے لحاظ سے دیکھا جا تا تو تاج دین ہی سب سے بڑا تھا اُس کی عمر نوے سے بھی تجاوز کرتی تھی ۔اس محفل میں کچھ اچھے سامع ہو تے لیکن اکثر داستا ن گو ہو تے ، جن کے پاس سنانے کو قصے تھے ،مبا لغہ آرائی سے بھر پو ر ،بیشتر کے پاس اپنی جوانی کی داستا نیں اور کارنامے ہو تے اور چند کے پاس اپنے عہد کے کسی نامور شخص کے کا رہا ئے نمایا ں تھے ،لیکن خاص بات یہ تھی اس سائبان میں کو ئی قصہ کو ئی داستا ن بھی ممنوع نہ تھا ،جس کا جو دل چا ہتا وہ سناکر اچھا محسوس کرتا ، سب کی باتیں نہ صرف تسلی سے سنی جا تیں بلکہ تسلیم بھی کی جا تیں اور ضروری ستا ئش سے بھی انہیں نوازا جا تا تھا ۔یہی تو بات تھی جو دور دراز کی آبادیو ں سے بھی بزرگو ں کو یہا ں کھینچ کھینچ لا تیں تھیں ،یہا ں آکر کو ئی بوڑھا نہ رہتا سب جوان اور توانائی سے بھر پور ہو تے اور کچھ دیر کے لیے قیدوقت سے آزاد ہو جاتے ۔کسی کا بھی اُٹھنے کو دل نہ کرتا لیکن پھر بھی سب کا اپنا اپنا معمول تھاکو ئی دو گھنٹے بیٹھتا تو کو ئی چار کو ئی دن میں دو بار آتا تو کو ئی سویر سے شام تک ادھر ہی بیٹھا رہتا ۔

جن کے گھر وں میں اب اس عمر کے بزرگ نہ رہے یا اُن کے بڑے اس چھپرمیں نہ آتے ، اُنہیں اور بازار میں بیٹھے بڑے تاجروں کو بھی یہ کھو کھا ایک آنکھ نہ بھا تا کو ئی کہتا اسے گرا کر یہا ں نئی دوکانیں تعمیر کرنی ہوں گی،کو ئی کہتا ا س کی جگہ مو ٹر سائیکلو ں کا سٹینڈ بنا دیا جا ئے تو کیا خوب ہو ، لیکن کو ئی بھی تو یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ جگہ کس کی ملکیت ہے ، سب نے اس جگہ ہمیشہ سے تاج دین کو ہی دیکھا تھا، ہا ں کبھی کبھا ر کمیٹی والو ں کو بھی اُبال اُٹھتا کہ یہ جگہ اُن کی ہے اور خالی ہو نی چاہیے لیکن کچھ ہی دن میں نجا نے کیسے وہ ٹھنڈے سے پڑ جا تے ۔

اس محفل کا کوئی رکن غیر حاضر رہنے لگتا تو چند لوگ اکٹھے ہو کر اُس کے گھر جاتے تیما رداری کرتے ،حوصلہ بڑھاتے ،بچو ں کو اپنے بزرگ کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتے ،کسی دیگر مشکل میں جو اُن سے جو بن پا تا وہ امداد کرتے ۔سلسلہ یو نہی چلتا رہا اُس محفل میں لو گ کم زیا دہ بھی ہو تے رہے ۔لیکن ایک دن ایسا ہوا جسے کو ئی سوچنا بھی نہ چا ہتا تھا ،اُس دن فجر کے بعد کھو کھا بند ہی رہا لیکن آبادی کی مرکزی جامع مسجد سے تاج دین کے انتقال کا اعلان ضرور ہوا ، تاج دین کی میت عین بازار کے وسط میں رکھ کر جنا زہ پڑھا گیا ، اُس روز تمام بازار بھی بند رہا ، آبادی میں سے کو ئی گھر ایسا نہ تھا جس کی جنازے میں شمو لیت نہ ہو ۔ یہ بستی کا ایسا جنا زہ تھا جو مسا لک کی پابندیو ں سے بھی آزاد رہاکسی نے کسی بھی بات پر اختلا ف نہ کیا ۔ تا ج دین کی وفات کے بعد کھو کھا ویران ہو گیا، بزرگ آتے کچھ دیر بیٹھتے لیکن دل نہ لگتا واپس چلے جا تے ، آبادی کے لوگوں نے پہلی بار تاج دین کے چھپر کی اہمیت کو سمجھا۔ جب اُن کے بزرگ بیما ر اور بے چین رہنے لگے ، تو وہ منصوبے بنا تے کہ کسی طور تاج دین کے چھپر کو آباد کیا جا ئے ، لیکن کسی ایک بات پر وہ سب متفق نہ ہو پا تے ۔ تاج دین کا ایک ہی بیٹاتھا جو پہلے ہی فوت ہو چکا تھا ، اُس کے ورثا میں ایک جواں سال پو تا اور بہو تھی ۔آخر بستی کے لوگو ں نے یہ را ہ نکالی کے پو تے کو قائل کیا جا ئے کہ وہ کھو کھے پر بیٹھنا شروع کرے ، لیکن وہ ایک نجی ہسپتا ل میں معمولی ملازمت کرتا تھا اُسے چھو ڑنے کو راضی نہ ہو ا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اُس نے اتوار کی اتوا ر دوکان کھولنے کی حامی بھر لی ،جس سے آبادی کے بزرگو ں کو کچھ حوصلہ تو ہوا لیکن وہ پہلے سی باتیں کہا ں تھیں ، کہا ں وہ دن کہ صبح سے شام روزانہ کی محفل اور کہا ں اب اتوار کی اتوار ، یہ سلسلہ بھی زیا دہ نہ چل سکا ، تاج دین کا پوتا اس خوامخواہ کی ذمہ داری سے اُکتا گیا ، دوکان مسلسل بند رہنے لگی۔

ایسی موقع کی جگہ کون چھو ڑتا ہے کچھ ہی دنو ں میں کمیٹی والو ں سے ساز باز کرکے کسی نے شہتیروں ، پرالی والا سہا روں سے زیا دہ یادوں پر کھڑا وہ چھپرگرادیا ۔اُس کی جگہ جدید فرنیچر کی ایک دوکان نے لی ، آبادی کے بزرگوں کے پاس اب اکھٹے ہونے کے لیے کو ئی جگہ نہ تھی ، قصے سنانے کے لیے اب سامع بھی نہیں تھے ، ہاں کبھی کبھا ر کو ئی زیا دہ بے چین ہو تا تو تاج دین کی قبر پر پھول لے کر پہنچ جا تا ، اور ایک آدھا ْقصہ قبر کے سرہانے ہو کر سنا آتا ۔

Waqas Afzal
About the Author: Waqas Afzal Read More Articles by Waqas Afzal: 4 Articles with 3928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.