ْتھائی لوگوں کی اصول پسندی اور میری پاکستانی عادتیں

بنکاک کے موٹل سے تنگ کیساتھ شہر کے بازاروں کا چکر لگانے نکلااتنا صاف شہر میں نے نہیں دیکھا تھا سڑکوں پر اتنی نئی ماڈل کی گاڑیاں چل رہی تھی اور وہ بھی ٹیکسی میں کہ میں حیران رہ گیا - جس وقت میں ائیرپورٹ سے نکل رہا تھا اور ٹیکسی میں بیٹھا تھا میں نے شہر کا ابتدائی جائزہ لیا تھا اور اندازہ ہوگیا کہ یہ فلائی اورز کاشہر ہے ایک فلائی اور پر ریل کی گاڑی چل رہی ہیں دوسری پرگاڑیاں چل رہی ہیں گاڑیوں کی ایک دنیا تھی اور مزے کی بات کہ سب نئی گاڑیاں تھی جسے چلانے والی بھی زیادہ تر لڑکیاں ہی تھی لیکن ایک بات جو میں نے نوٹ کی کہ کوئی پیچھے سے ہارن بجا بجا کر دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کررہا لگتا جیسے سارے روبوٹ ہیں-دل میں اپنے ملک کا خیال آیا یہاں پر تو اللہ معاف کرے گاڑیاں وہ ٹیکسی میں استعمال ہوتی ہیں کہ بیٹھنے کے بعد پشیمانی ہوتی ہے کہ یہ کس چیز میں بیٹھ گیا ہو ہمارے ہاں ٹیکسی ڈرائیور گاڑیوں کی صفائی بھی نہیں کرتے جبکہ تھائی لینڈ میں ٹیکسی میں بیٹھ کر لگتا ہے کہ کسی دلہن کی گاڑی میں بیٹھ گیا ہوں-یعنی اتنی صفائی ہوتی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے -

بنکاک میں ایک بات جو میں نے نوٹ کی کہ زیادہ تر موٹرسائیکل چل رہی ہیں لیکن ان کے ہاں کا ڈیزائن ہمارے ہاں چلنے والے موٹر سائیکل سے بالکل مختلف ہے پہیے تو دو ہی ہیں لیکن ڈیزائن کچھ عجیب سا ہے چلانے والوں میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل ہوتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کی طرح جہاز سمجھ کر نہیں اڑاتے سڑک کے آخری لائن میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں ہر موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ پہنی ہوتی ہیں اور مزے کی بات کہ پیچھے بیٹھنے والے بھی ہیلمٹ پہن کر سفر کرتے ہیں یعنی خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو کسی کو نقصان نہ ہو-دل میں خیال بھی آیا کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے اتنی قانون سے محبت اور عملدرآمد بھی اچھا نہیں ہوتالیکن پھر اپنے اوپر افسوس ہوا کہ ہماری اسی سوچ کی وجہ سے تو ہم پیچھے جارہے ہیں تھائی لینڈ ایشیائی ملک ہے لیکن وہاں پر ٹریفک کے اصولوں پر لوگوں کی عملدرآمد دیکھ کرلگتا ہے کہ ہم بہت پیچھے ہیں-

ہمارے ہاں سڑکوں کے درمیان ڈیوائڈر کیلئے انہوں نے جالیاں نہیں لگائی کہ ہم لوگ بھاگ کر ان جالیوں پر چڑھ کر دوسری طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے سڑکوں کے مابین چھوٹے سے ڈیوائیڈر ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی بھاگ کر ان ڈیوائیڈر پر چڑھ کر سڑک کراس کرنے کی کوشش کرے سڑک کراس کرنے کیلئے مختلف جگہوں پر انڈر گراؤنڈ پل بنے ہوئے ہیں جہاں پر بجلی سے چلنے والی سیڑھیاں ہیں جس کے اندر سے شہری سڑک کراس کرتے ہیں -میں جس موٹل میں رہائش پذیر تھا اس کے سامنے انڈر گراؤنڈ میں ریلوے سٹیشن بھی تھا اور سڑک کراس کرنے کیلئے بھی استعمال ہوتا تھا میں جس وقت پہلی مرتبہ سڑک کراس کرنے اندر جانے لگا تو مجھ سے خوشبوؤں کی بہار جارہی تھی یعنی پانچ افراد جن میں تین خواتین تھی جبکہ دو مرد سیاح تھے وہ مجھ سے آگے جارہے تھے اور ان لوگوں نے سپرے کا وہ استعمال کیا تھا کہ میں ان کے پیچھے جارہا تھا اور اپنی سونگھنے کی حس استعمال کررہا تھا کہ کس نے کونسا پرفیوم استعمال کیا ہے - لیکن وہ اپنی دنیا میں مگن تھے اور میری خواہش تھی کہ ان سے نام پوچھوں پرفیوم کے لیکن پھر خیال آیا کہ یہ کیا سوچیں گے لیکن پھر میں نے دل میں تہیہ کرلیا کہ جو سوچتے ہیں میرا کیا ہے کم از کم پرفیوم کا نام تو سیکھ لوں- میں اسی کشمکش میں تھا کہ سامنے سے سکول کی بچوں بچیوں کی ایک یلغار آگئی اور وہ بھی انڈر گراونڈ راستے میں جو ریلوے سٹیشن پر تھے اوران کو دیکھنے کے چکر میں مجھ سے وہ سیاح گم ہوگئے اور میں دوبارہ اپنی ٹریک پر آگیا میں نے دیکھا کہ انڈر گراؤنڈ راستے میں ایک پولیس اہلکار کھڑا ہے اگر کسی کے پاس بیگ ہے تو وہ اسے چیک کرتا ہے اور پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آگے جانے کی اجازت دیتا ہے جبکہ جو عام لوگ جن کے ہاتھ میں بیگ نہ ہوں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی-یہ ان لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ اتنے اچھے پولیس اہلکار وہاں پرہوتے ہیں کم از کم تمیز سے بات تو کرتے ہیں - ہمارے ہاں تو جو کوئی پولیس کی وردی پہن لیتا ہے وہ زمین پر خدا بنتا ہے اگر کوئی عام شہری ان سے گزرے تو روک لیتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے وہ غیر ملکی ہوں تو پھر ان کیلئے تو وہ مرغا ہوتا ہے اور مرغے سے بات کرنے اور انہیں پھنسانے کے ہمارے پولیس ماہر ہے -جبکہ ان کے مقابلے میں بنکاک میں پولیس یہ نہیں پوچھتی کہ کہاں سے آئے ہوکیوں آئے ہوں پاسپورٹ ہے کہ نہیں کتنے پیسے لیکر پھر رہے ہو-

بنکاک کے ٹریفک میں ایک بہت بڑی بات جو میں نے محسوس کی کہ جس وقت کوئی مسافر سڑک کراس کرنے کیلئے مخصوص جگہ پر پاؤں رکھتا ہے تو گاڑیاں خواہ کتنی ہی تیز اور زیادہ کیوں نہ ہو ایک دم رک جاتی ہیں اور اس وقت تک گاڑیاں رکی ہوتی ہیں جب تک مسافر سڑک کراس نہ کرے جبکہ ہمارے ہاں تو سسٹم ہی الٹا ہے سڑک گاڑیوں والے کیلئے بنی ہیں اور اگر کوئی ہماری طرح عام مسافر سڑک کراس کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی رسک پر ہے کہ وہ کتنی جلدی کوشش کرے کیونکہ گاڑیاں تو کسی کیلئے نہیں رکتی -

ہمارے ہاں فٹ پاتھوں پر دکانداری کا سلسلہ بنکاک میں بھی ہے لیکن مزہ تو یہ ہے کہ کہیں پر آگ گندگی کے ڈھیر نہیں دیکھیں گے ہمارے ہاں تو یہ ایک رواج ہے کہ فٹ پاتھ پر جس چیز کی دکان ہے اس دکان کے سامنے گندگی کے ڈھیر پڑے دکھائی دیتے ہیں ان کے ہاں پلاسٹک شاپر میں کھانے پینے کی اشیا ملتی ہیں لیکن پھر وہ شاپر ہر ایک نے ڈسٹ بن میں پھینک دینا ہے میرے لئے تو ابتدا میں بہت مشکل تھا کہ یہ کیا مصیبت ہے کہ کوئی چیز کھا لو اور پھر شاپر ہاتھ میں لئے پھرو کہ گندگی کو ڈالنے والا ڈسٹ بن کہیں ملے اور اس میں ہم وہ ڈال دے سب سے حیران کن بات جو دیکھنے کو اچھی بھی لگی کہ ہر فٹ پاتھ پر سامان فروخت کرنے والے نے ایک شاپر رکھا ہے اور لوگ اس میں گندگی ڈال دیتے ہیں ہمارے ہاں نہیں کہ کاروبار اپنا کرو اور گندگی کمیٹی والوں کو چھوڑ دو کہ وہ ہمارے لئے کام کرتے ہیں -

بنکاک کے فٹ پاتھوں پر کھانے پینے کی اشیا کی فروخت سے لیکر فروٹ تک فروخت ہوتا ہے اور گوشت کی دکانوں سے لیکر مختلف اقسام کے کھانے کی اشیا پڑی ہوتی ہیں ساتھ ساتھ میں بیٹھ کردکاندار جو زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں اشیا فروخت کرتے دکھائی دیتی ہیں لیکن کبھی ہمارے ہاں والا حساب نہیں کہ آجاؤ یہاں سے کم قیمت پر ملے گا یا پھر دوسرے کے سامان کو غلط کہہ کر دکانداری خراب کرنا وہاںیہ نہیں -

)سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی نویں قسط(

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421687 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More