ذرا سوچیں! سفر نامہ (پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر)

اللہ رب العزت نے ہمٰں جس آزادی جیسی نعمت سے نواز ا اس کا جتنا بھی شکر کرو کم۔ آزاد فضاوں میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ موسم گرما کی چھٹیاں ہونے کو ہے۔ اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان کے خوبصور ت مقامات شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام ضرورت دیں۔ گھوم پھر خود جائزہ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عظیم قربانیوں کے صلے میں کتنا خوبصورت ملک دیا ہے۔اس سے نہ صرف ملک کو دیکھنے کا موقع ملے گا بلکہ ملک سے محبت اور زیادہ ہوگی۔ جگہ جگہ پاکستانی پرچم اور ملک سے محبت بھرے کوڈز ملیں گے۔ یہ سفر ایک ایڈونچر ہوگا ۔

سفر نامہ کی مختلف مقامات کی تصاویر

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہمیں آزادی جیسی نعمت سے نواز ا ہے جس کی قدر شاید ہمیں نہیں۔ یہ آزادی پاکستان کی صورت میں ملی، یہ صرف ایک زمینی ٹکڑا ہی نہیں وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بھی ہے۔ اور یہ واحد ملک جسے حاصل کرنے لیے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اور قربانی دی۔ آزادی ہمیشہ قربانی مانگتی ہے، وقت کی مال و زر کی ہو یا پھر جان کی ہو۔ جس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے آباو اجداد نے قربانیاں دی ہیں ہمیں چاہیے کہ اس کی سیر بھی کی جائے اور معلوم ہو سکے کہ جنت نظیر پاکستان کتنی خوبصورت اور اہمیت کا حامل ہے۔ سوشل میڈیا پر بیرون ملک سے مختلف مناظر شیئر کیے جاتے ہیں قدرت کے قدرتی مناظر کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اپنے ملک کی خوبصورتی دکھانا چاہتے ہیں تو وہ میرے پاکستان کی خوبصورتی سے پیچھے ہیں۔

گرمیوں کا موسم آگیا ہے۔ بچوں کو تعلیمی اداروں سے چھٹیاں ہونے کو ہیں۔ میں اس موقع پر آپ کو مشورہ دینا چاؤں گا کہ تھوڑا وقت نکالیں بچوں کو لے کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کو ضرور جائیں، اس سے نہ صرف خوبصورت سیر میں خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملیں گے بلکہ بچوں میں اپنے وطن عزیز کے بارے میں دلچسپ معلومات بھی۔ سارے پاکستان کی سیر بیک وقت مشکل ہے۔ اس کو مختلف حصوں میں تقسیم کر لیں۔ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد سے کاغان، ناران، جھیل سیف الملوک اور بابو سر ٹاپ، اگر آپ کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں یا پھر لمبے سفر کی وجہ سے زیادہ تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو اپنے نائٹ سٹے میں اضافہ کرلیں۔چلنے سے پہلے ٹور گائیڈز یا کسی دوست سے وہاں کے بارے میں کچھ معلومات ضرور حاصل کرلینی چاہیں۔ ویسے انٹرنیٹ کا زمانہ ہے جگہ اور اس کا فاصلہ کا تعین کرنے کے علاوہ بہت سی دیگر معلومات میسر آ سکتی ہے۔

سال2017 میں اللہ کریم نے مجھے فیملی کے ساتھ شمالی علاقہ جات کے خوبصورت مناظر دیکھنے کا موقع دیا۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ چیچہ وطنی شہر سے اسلام آباد چھوٹے بھائی کے گھر پہنچے وہاں پہلے سے دوسری فیملی موجود تھی۔ چیچہ وطنی سے چلنے سے پہلے وہاں سے گاڑی ہائیر کی ہو ئی تھی۔ جہاں بتاتا چلوں ان دنوں میں اپنی گاڑی اور تجربہ کار ڈرائیور ساتھ ہو تو خرچہ کم ہوتا وگرنہ کرائے کی گاڑی ان دنوں قدرے مہنگی پڑتی ہے۔ اپنی گاڑی ہو تو اس علاقہ کا اچھا ڈرائیور ساتھ لے لیں۔ گاڑی آئی اس میں سامان لوڈ کیا، سامان میں کچھ برتن، کھانے پینے اور پکانے کا سامان کے ساتھ گیس کا چھوٹا سلنڈر بھی تھا۔ تقریباً2:30 اسلام آباد سے کاغان کے لیے سفر کا آغاز کیا۔ ایک بات شیئر کرتاچلوں، جب کبھی آپ سیر کو جائیں تو اسلام آباد سے صبح کے وقت نکلو تاکہ بڑے آرام سے دن میں سفر کرتے ہوئے ٹیکسلا، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور بالا کوٹ کو کراس کرتے ہوئے کاغان، ناران تک پہنچ جائیں ایک تو سفر کرنے میں آسانی ہو گی اور دوسرا یہ کہ ان علاقوں کے قدرتی مناظر دیکھنے کا موقع ملے گا۔ یہ وہ تمام قدرتی مناظر ہیں جنہیں یا تو کتابوں میں پڑھا اور دیکھا ہے یا پھر کبھی کبھی ٹیلی ویژن سکرین پر مناظر دیکھے ہونگے۔ سٹرک کے دونوں اطراف اونچے اونچے صنوبر اور دیار کے درخت، بل کھاتی ہو ئی سڑک، سر سبز و شاداب قدرتی مناظر۔ اب آپ کو اپنی آنکھوں سے حقیقت میں دیکھنے کا موقع ملے گا، اس وقت جذبات کی کیا کیفیت ہوگی یہ سیر کو جانے والے ہی بیان کر سکتے، اللہ کا شکر بھی ادا کریں اور ان قربانیوں کو بھی سلام پیش کریں جن کی بدولت آج آزاد فضاؤں میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ تقریباً رشام 7بجے کاغان پہنچ گئے، چھوٹے بچے بھی ساتھ تھے، لہذا ہم نے کاغان میں ہی رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اگر عصر کی نماز کے قریب پہنچ جائیں تو پھر آپ آسانی سے نائٹ سٹے کے لیے مختلف ہوٹلز کے ریٹ اور رومز چیک کرنے کے بعد ہوٹل کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ زیادہ لیٹ ہونے کی صورت میں ہوٹل مالکان بھی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریٹ اَپ کر دیتے ہیں۔ رات وہاں ٹھہرے موسم خوب انجوائے کیا، رات کو باربی کیو بناتے رہے، بہر کیف اکثر ہوٹل انتظامیہ ڈیل کرنے کے بعد پریشان بھی کرتی ہے۔ بجلی نہ کا ہونا، گرم پانی اور پینے والے پانی کی سہولت کا کلیئر کرلیا جائے۔ اگر ہو سکے تو بجلی کی استری ساتھ رکھیں کیونکہ جب آپ اپنی اگلی منزل کے لیے صبح جلدی اٹھ کر چلنے کا پروگرام تیار کرتے ہیں تو اس وقت وہاں کی مارکیٹ بند ہوتی ہے۔ (کاغان میں پہلا دن اختتام پذیر ہوا)۔

دوسرے دن کا آغاز کیا: ناشتے کا خشک سامان ساتھ تھا لہذاچائے تیار کرکے ہلکا پھلکا سا ناشتہ کیا کاغان سے تقریباً صبح8بجے ناران کے لیے نکلے۔ ناران پہنچے، پیدل چل کر دریائے کنہار کا نظارہ کیا اور فوٹو شوٹ کیئے۔ کچھ دیر رکے گاڑی چیک کروائی۔ پھر اپنی منزل کی طرف چل دیئے۔ ابھی ناران کو چھوڑ کر پل ہی کراس کرکے تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ گاڑی پنکچر ہو گئی، ڈرائیور گاڑی کو پنکچر لگوانے چلا گیا۔ ہم سب اتر کر پھر سے دریائے کنہار کا نظارہ کرنے لگے، پہاڑ کی چھوٹی چوٹیوں پر چڑھ گئے۔ گاڑی آئی تو پھر چل پڑے، ناران کو کراس کرتے ہوئے بابو سر ٹاپ پہنچ گئے۔ راستے میں انتہائی خوبصورت مناظر، آب شاریں، لولو سر جھیل بھی دیکھنے کو ملی، لولو سر جھیل کے بعد پیالہ جھیل، کئی جگہ فوٹو گرافی کی۔ فوٹو شوٹ کرتے وقت ٹریفک کا دھیان کرنا لازمی ہے اور چھوٹے بچوں کے معاملے میں محتاط رہیں کیونکہ ٹریفک کا رش ہوتا ہے اور جگہ ڈھلوان ہونے کی وجہ پھسلن بھی ممکن ہے۔ بابو سرٹاپ پہنچ کر کچھ دیر کے لیے رکے کافی ٹھنڈا ٹھار موسم تھا، پہاڑوں کی چوٹیاں بادلوں کو چھو رہی تھیں، اچانک بادل نیچے آ جانے کی وجہ سے دن رات میں تبدیل ہو گیا۔
اس وقت بابو سر ٹاپ کا فی رش تھا اور کافی دکانیں اور سٹال وغیرہ بھی موجود تھے۔ پکوڑے، چپس، چائے لی اور اوپر پہاڑ کی چوٹی کی طرف گئے اور فوٹو گرافی کی۔ موسم کی بے رخی دیکھتے ہوئے سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ اگلا سفر موخر کر دیا جائے لیکن بابو سرٹاپ پر مزید کچھ دیر رکنے کے بعد اگلی منزل کے لیے سفر کا آغاز کیا۔ اب ہمارا گلاسٹاپ گلگت تھا۔ تو گاڑی گلگت کے لیے روانہ ہوئی۔ بابو سر ٹاپ سے نیچے اترتے ہوئے بہت خوبصورت اور پر خطر بل کھاتی ہوسٹرک اور ڈرائیور کے گاڑی چلانے کی مہارت کا اب پتہ چلتا ہے۔ یہ روڈ سی پیک کا حصہ ہے۔ تقریباً 40خطرناک موڑ آتے ہیں نیچے دیکھو تو گہرائی اور اوپر دیکھو تو پہاڑی سلسلے کی بلندو بالا چوٹیاں، ہر موڑ پر پاکستان زندہ اور پاکستانی پرچم پینٹ سے لکھے اور بنے ہوئے دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ ایک خاموش پیغام ہے کہ وطن کی محبت کو کسی بھی جگہ اور مقام پر نہ بھولنا۔ بابو سر ٹاپ سے نیچے اترتے ہوئے چلاس کی طرف بڑھتے گئے خوبصورت مناظر، اونچے اونچے پہاڑ، اخروٹ کے درخت دیکھنے کو ملیں گے۔

چلاس کو کراس کریں تو کافی سفر کرنے کے بعد زیر پوائنٹ آتا ہے وہاں بشام سے آنے والی قراقرم ہائی وے اور بابو سر ٹاپ سے براستہ چلاس والی سٹرک آکر ملتی ہے۔ جہاں سے گلگت کے لیے قراقرم ہائی وے شروع ہو جاتی ہے۔ زیروپوائنٹ سے گلگت کے لیے نکلتے ہیں تو ساتھ ہی دریائے سندھ شروع جاتا ہے۔ یہ دریا پہاڑوں کے درمیان قراقرم ہائے وے کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ زیرو پوائنٹ سے گلگت کی طرف جاتے ہوئے کیڈٹ کالج چلاس کی مخصوص جگہ بھی آتی ہے جو تعلیمی اہمیت کو دیکھتے ہوئے آرمی اپریشن کے بعد وہاں کے لوگوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کی سہولت دینے کے لیے کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ زیروپوائنٹ سے آگے رے کوٹ پل آتا ہے جہاں سے نانگا پربت، فیری میڈوس کو رستہ جاتا ہے، قراقرم ہائے وے پر طویل مسافت کے بعد جگلوٹ پہنچے وہاں کچھ دیر کے لیے آرام کیا اور دوپہر کا کھانا بھی کھایا۔

جگلوٹ سے تھوڑا سفر کرنے کے بعد 3M Junction Point آتا ہے،اسی قراقرم سے اسکردو کو رستہ نکلتا ہے۔ جگلوٹ سے تقریباً 30کلومیٹرکی مسافت کے بعد تقریباً مغرب کے بعد گلگت پہنچ گئے وہاں جاکرگیٹ وے ہوٹل میں قیام کیا۔ کاغان کی نسبت جہاں کمرے کا کرایہ کافی مناسب تھا۔ کھانا کھانے کے بعد سو گئے اس طرح ہمارا دوسرے دن کا اختتام ہوگیا۔

تیسرے دن کا آغاز کچھ اس طرح ہوا گیٹ وے ہوٹل میں ناشتہ کیا اور گلگت سے صبح 9بجے وادی ہنرہ کے لیے سفر شروع کیا، اس سفر کے دوران راکاپوشی ویو پوائنٹ آتا ہے جہاں پر گاڑی روک کر تصویرکشی کی اور چہل قدمی بھی۔ راکا پوشی ویو پوائنٹ سے دوبارہ گاڑی میں سوار ہو ئے تو پھر تقریباً 12 بجے دن علی آباد پہنچے جو کریم آباد سے تقریباً دس کلومیٹر پہلے سٹاپ آتا ہے۔ علی آباد کو اس لیے ترجیح دی کہ جہاں ہوٹل کریم آباد سے سستے ہیں۔ اور صاف ستھرا بھی ہے۔ کمرے میں سامان وغیرہ رکھا، اپنا کھانا تیار کیا۔ پکانے کے لیے گوشت اور دیگر سامان جگلوٹ سٹاف سے خرید لیا تھا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تقریباً چار بجے کریم آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ کریم آباد وادی ہنزہ کا مشہور بازار ہے۔ جہاں پر مارکیٹ ہے جہاں پر کافی مہنگے پتھر، پتھر سے بنے ہوئے زیورات، علاقائی ملبوسات وغیرہ وغیرہ دکانوں پر موجود ہیں۔ لکڑی سے بنی ہوئی چیزیں، چترالی ٹوپی اور فروٹ دستیاب تھے۔ گاڑی باہر پارک کی تو اوپر کریم آباد مارکیٹ سے ہوتے ہوئے قلعہ بلتستان کے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ قلعہ بلتستان ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے جو ایک بہت پرانا قلعہ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے قلعہ تک پہنچنے کے لیے ڈھلوانی رستہ ہے، سیڑھیاں وغیرہ نہیں ہے۔ اس ڈھلوان پرچڑھنے کے لیے اپنے ساتھ کمزور، موٹے اور بیمار ساتھی کا خاص خیال رکھیں کیونکہ سانس پھول جاتا ہے اور بعض دفعہ چکر بھی آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ قلعہ دیکھنے کے لیے شوق، جذبہ اور جنون ہو نا چاہے۔ قلعہ کے اندر جانے کے لیے وہاں ٹکٹ خریدے جاتے ہیں، انتظامیہ کے بقول ان ٹکٹس کی آمدنی قلعے کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔قلعے کی دوسری طرف نیچے دیکھیں تو کچھ فاصلے پر اس کے دوسرے بھائی کا قلعہ بھی نظر آئے گا۔ دیر اور تھکاوٹ کی وجہ سے وہاں نہیں گئے۔ قلعہ دیکھنے کے بعد واپس نیچے اترے، گاڑی میں بیٹھ کر علی آباد کمرے میں آگئے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کھانا تیار کیا، کھانا کھانے کے بعد ہوٹل کی چھت پر پہاڑوں کا خوب نظارہ کیا۔ رات کو منظر بھی قابل دید ہوتاہے۔ پہاڑوں پر دور دور اوپر مکانات سے بلب جب جلتے ہیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آسمان نیچے آگیا ”تارے زمین پر“کیونکہ وہ روشنیاں تاروں کی مانند نظر آتی ہے۔

چوتھے دن کا آغاز علی آباد سے چائے پی اور صبح تقریباً 6:30 بجے خنجراب کے لیے سفر شروع کیاجو تقریباً کریم آباد(وادی ہنزہ) سے170کلومیٹر ہے۔ کریم آباد سے ہوتے ہوئے شاہراہ قراقرم پر چڑھے۔ کم و بیش 6گھنٹے کی مسافت ہے۔کریم آباد سے ۵۲ کلومیٹر کے فاصلے پر عطا آباد جھیل ہے وہاں ضرور رکنا چاہے، دیکھنے والا منظر ہے۔ عطاآباد جھیل کے ساتھ پہاڑ کاٹ کر سرنگیں بنا دی گئی ہیں، اگر ہو سکے تو عطاآباد جھیل پر ہی ناشتہ کیا جائے۔ ہم نے ناشتہ عطاآباد جھیل پر ہی کیا تھا۔خنجراب جانے کے لیے جلدی جانا یا پہنچنا اس لیے ضروری ہے کہ واپسی بروقت کرتے ہوئے سنگلاخ پہاڑوں سے ہوتے ہوئے واپس وادی ہنزہ یا پھر گلگت نائٹ سٹے کر سکیں۔ کریم آباد روڈ کہیں سے تو بہت بہتر اور کہیں کافی خراب تھا۔ پر خطر رستہ ضرورہے لیکن اتنی بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں، یہاں زیادہ لینڈ سلائیڈنگ ایریا ہے وہاں پر کافی اونچی دیوار یا برآمدٹائپ بنائے گئے ہیں تاکہ محفوظ رہا جا سکے۔ رب کائنات کے کیا خوبصورت نظارے ہیں۔پر خطر موڑ اور بل کھاتے ہوئی سٹرک، اونچائی کی طرف گاڑی جب چلتی ہے تو پتہ چلتا ہے، ایک پہاڑی سلسلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ روڈ کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ہے ایک خاص چیز مجھے پسند آئی اللہ نے اپنے فضل سے روڈ کے ساتھ برف باری، یا پانی کے کٹاؤ کی وجہ سے بجری اور ٹائلیں بنا رکھی ہیں جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے روڈ بنائے اور سجائے جا سکتے ہیں۔ یہ روڈ ایڈونچر بھی ہے اور ڈراؤنا بھی لیکن نا قابل فراموش بھی ہے۔ جھیل سے تقریباً 25--30 کلومیٹر کے فاصلے پر پاسو کون ہیں (پہاڑوں کی چوٹیوں کی کٹائی کچھ ایسی ہے)۔اس کے بعد خنجراب تک سفر ایڈونچر سمجھ کر کیا جائے۔ اللہ اللہ،تسبیح، استغفار، درود شریف ضرور پڑھتے جائیں۔ خنجراب پہنچنے سے پہلے مارخور اور ملموٹ (زردرنگ) میں دیکھنے کو ملیں گے۔ خنجراب کے آثار دور سے نظر آنا شروع گئے بڑے جذباتی ہوگئے، پاک چائنا بارڈر نظرآنے لگا۔ گاڑی سے باہر نکلنے کے لیے بے چین تھے۔ یونہی گاڑی خنجراب پارکنگ ایریا پرجا کر رکی، شیشے نیچے کیے تو، خنجراب کم و بیس سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔اوہ۔ہو سردی، میں نے تھری پیس سوٹ زیب تن کررکھا تھا فوٹو گرافی ہو گی۔ وہاں سردی نے تو لپیٹ کر رکھ دیا، تھری پیس کو تو بھول گئے، مفلر اور چادریں اوڑھنا پڑیں۔ گاڑی سے نیچے اتر کر جب خنجراب بارڈر (گیٹ) کی طرف چلے تو ٹھنڈی اور تیز ہوا حتیٰ کہ برف باری شروع ہو گئی، اتنی سردی کہ بس اُف۔۔ میرا تین سالہ نواسہ بھی ساتھ تھا۔چھوٹے بچوں کے ساتھ وہاں زیادہ دیر کے لیے نہ رکا جائے اور نہ ہی رکنا چاہیے، بہتر ہے چھوٹے بچوں کا گاڑی میں ہی لے کر بیٹھ جائیں۔ اب اس کی فکر پڑ گئی کہ اسے سردی سے کیسے بچایا جائے۔ پھر فیصلہ یہ ہوا کہ چند لوگ پہلے باہر سے ہو آؤ اور چند لوگ گاڑی میں ہی ٹھہر گئے۔

خنجراب سے واپسی کا تقریباً1:30 بجے دن واپسی کا آغاز کیا بغیر رکے وادی ہنزہ پہنچے اور وہاں سے پٹرول ڈلوانے کے بعد سیدھا گلگت۔ گلگت پہنچ شاہین ہوٹل میں رات کھانا کھایاپھر واپس اسی ہوٹل (گیٹ وے ہوٹل)میں وہی کمروں میں رات رکے اور صبح فریش ہو کرناشتہ کرنے کے بعد گیٹ وے ہوٹل کے لان میں فوٹو گرافی کی، ایک بڑی انگور وں کی بیل تھی، اس بیل سے تازہ انگور توڑ کر کھائے۔ گلگت کو تقریباً دس بجے صبح واپسی بابو سر ٹاپ آکر کچھ دیر کے لیے رکے، ناران تقریباً نماز عصر کے وقت پہنچے، ہوٹل وغیرہ میں رومز ہائیر کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کیا پھر فیملی کے ساتھ ناران بازار میں بچوں کے لیے شاپنگ کی اور وہاں پر ہی رات کا کھانا کھایا۔ ناران چونکہ رش تھا اس لیے گلگت کی نسبت ناران ہوٹل مہنگے تھے۔ ناران سے واپسی اسلام آباد کے صبح تقریباً آٹھ بجے چل دیئے۔ کاغان کوکراس کرنے کے بعد پارس ہوٹل پر ناشتہ کیا۔ پارس ہوٹل جاذب نظر نہیں دیکھنے ایک اچھا ڈھابہ ہے۔ لیکن وہاں جو ناشتہ کیا،سبحان اللہ مزہ آگیا۔ میں آپ کو بھی مشورہ دوں گا کہ واپسی پر ناشتہ پارس ہوٹل پر ہی کریں۔ ناشتہ بھی اچھا اور ریٹ بھی مناسب۔ پارس ہوٹل کا مشورہ ڈرائیور کا تھا،ٹھیک ہی تھا۔ پھر واپسی امام بری دربار سے ہوتے ہوئے سیدھے چھوٹے بھائی کے گھر پہنچ گئے۔ ایک دن اسلام آباد میں ٹھہرنے کے بعد ہم دونوں فیملیز اپنے اپنے گھروں کی طرف جانے والی بسوں میں بیٹھ گئے، ہم چیچہ وطنی اور دوسری فیملی ننکانہ صاحب پہنچ گئی، یہ سفر واقع ناقابل فراموش ہے اور تھا۔

میں ب کریم کا کروڑوں سجدہ ریز ہو کر بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔ اللہ کریم نے مجھے اپنی خاص رحمت سے نوازتے ہوئے آقائے دو عالم احمد مجتبیٰ احمد مصطفی سرورِ کائنات ﷺ کا امتی بنایا۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا۔ پھر یہ کہ مجھے پاکستانی بنایا، مزید یہ کہ مجھے پاکستان کے باوقار ادارے میں اپنی خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا جہاں بہت کچھ سیکھا، جس کا احسان مند ہوں۔ اللہ کریم نے تعلیم سے نوازا۔ میرے ہم وطنو! ملک کو ماں کہتے ہیں، ماں سے کبھی غداری اور نہ ہی اسے گالی دی جاتی ہے۔ ماں کی قدر وہی کرتے ہیں جنہیں ماں کی قدر ہوتی ہے۔ وطن کی مٹی سے ایسی خوشبو آتی ہے جس کا آزادی کے سوا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ وطن عزیز کا کراچی سے پشاور، پشاور سے کوئٹہ، کوئٹہ سے اسلام آباد، اسلام آباد سے مری،پتریاٹہ، مری گھوڑا گلی، سکاؤٹس کیمپ، کاغان ناران، شوگران، بابو سر ٹاپ، چلاس، گلگت، وادی ہنزہ، عطا آباد جھیل، جھیل سیف الملوک، قلعہ گلگت بلتستان، خنجراب وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان واقعی دنیا میں جنت کا ٹکڑاہے۔ دنیا کا واحد ملک ہے جس کو اللہ پاک نے ہر موسم میں چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ بہتے دریا، برف کے پہاڑ (گلیشیئرز)، خون جما دینے والی پہاڑوں کی چوٹیاں، سردی کے موسم میں گرم چشمے، ملک کے ایک کونے میں فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے تو اس کے ختم ہونے تک دوسرے علاقے میں وہی فصل تیار ہو جاتی ہے اس سے بڑی نعمت ہو کیا ہو سکتی ہے۔بڑی بڑی دور سے لوگ وہاں سیر کے لیے آئے ہوئے تھے۔ چائنہ بارڈر کو دیکھ میں حیران رہ کہ بس ایک نشان دہی کی ہوئی ہے اور ایک چھوٹا سا گیٹ ہے جو پاکستان اور چائنہ کی حد بندی کو ظاہر کرتا ہے۔ کوئی مسلح افراد نہیں کوئی ٹیشن والی صورت حال نہیں تھی۔ بس کیا لکھوں میرا ملک کتنا خوبصورت ہے۔ میں آپ سب سے ضرور کہوں گا جو لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہیں خداراہ اپنی ذمہ داریاں انسانی، اخلاقی اور ملکی مثبت سوچ کے ساتھ پوری کرو۔جو وطن ہمیں ایک عظیم قربانیوں کے بعد ملا ہے اس میں رہنے والے باسی اپنا اپنا مثبت کردار ادا رکریں۔ جب ہر آدمی کو انصاف، روزگارفوری ملے گا تو اس کی پریشانی ختم ہو جائے گی۔ ذرا سوچیں اور پاکستان کی قدر کریں۔ اپنا قیمتی وقت نکال کر اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان کی سیر کو ضرور جائیں اور تجزیہ کریں وہ لوگ جو امریکہ یا انگلینڈ کے چکر میں پاگل ہو رہے ہیں آپ سب کچھ بھول جاؤ گے۔ بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلے گا ”میرا پاکستان“جو سکون اور اطمینان اپنی مٹی میں ہے آپ سب سے ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے امید رکھتا ہو ں کہ آپ مناسب موقع دیکھ پاکستان کی سیر کو ضرور جائیں گے۔ اللہ کریم آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔ سفر شروع کرنے سے ایک دو دن پہلے ایک لسٹ بنانا شروع کی جائے تاکہ وہ تمام سامان ساتھ لے لیا جائے جس کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات خاص چیزیں جلدی سے ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ اللہ حافظ

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156134 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More