الیکشن ۱۸ قوم کے ساتھ کیا ایک نیا فریب ہو گا؟

 ان الیکشن کی کیا آئینی حیثیت ہو گی،ماسوائے بالا دست و استحصالی طبقات کو ایک بار پھر تخت پر بٹھانے کی مذ موم کوشش اور عوام کے مقدر میں ذلتوں اور رسوا ئیوں کے اضافے کے؟ ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ووٹ کی جتنی تزلیل کی ہے اسکی شائد ہی کوئی مثال ملے یعنی ووٹر کے مقدر میں ذ لت اور رسوائی اور حکمرانوں کے مقدر میں اربوں اور کھربوں کی ریل پیل اور اسکے باوجود عوام پر یہ بھی الزام کہ وہ چور ہیں،ٹیکس نہیں دیتے،بجلی چراتے ہیں اور لائین لاسسز کے بھی وہی ذمہدار ہیں۔

اور اگر عوام یہ سوال کر لیں کہ ان کے مسائل کیوں حل نہیں ہوتے،جواب ملتا ہے پیسے نہیں ہیں۔جبکہ پارٹی وفاداریوں کو برقرار رکھنے کے لئے ۲۰،۳۰،۴۰، اور ایک ارب روپے تک ترقیاتی فنڈز کے نام پر لٹائے گئے ہیں جن کا کوئی حساب نہیں اور نہ ہی عوام کو اس تک رسائی حاصل ہے۔اس طرح عوام کو باخبر کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک شودر کی مانند ہیں اور انہیں جواب دینا حکمرانوں کا کام نہیں،عوام تو صرف حکمرانوں کی فیکٹریوں اور پیداوار میں اضافہ کے لئے وجود میں لائے جاتے ہیں۔بقول خواجہ سعد رفیق اگر سمجھ نہ آئے تو عوام اس فلسفہ کو دوبارہ پڑھ لیں،سب سمجھ آجائے گا۔

پاکستان کی ۷۰ سالہ سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں عوام کی آئینی حیثیت اور ان کی جانب سے اپنے آئینی حقوق کے لیے بلند کی جانے والی آواز یا رائے کو کوئی اہمیت یا حیثیت نہیں دی گئی اور ہر بار عوام کی جانب سے اپنے آئینی حقوق کے حصول کی لئے کی جانے والی جدوجہد کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جا تا رہا۔اگر ماضی کے اورق کو ذرا غور سے دیکھنے کی زحمت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی اس فر یاد یا رائے کو کسی بھی دور حکومت میں کوئی احمیت حاصل نہیں رہی اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اس قابل سمجھا کہ ان کی رائے کو سنا جائے اور اسے سمجھا بھی جائے اور اسے شمار بھی کیا جائے۔یعنی،are the peole heard and counted before their rulers,۔تاہم اس امر کی تصد یق کے لئے کہ کسی دور حکومت میں عوام کو سنا گیا ہوگا،ان کی باتوں کو شمار کیا گیا ہو گا ،اور ان پر عملدرامد بھی ہوا ہو گا ایک خوفناک اور شرمناک خواب کی ماند ہے ۔

یہ ادوار قائد اعظم کی وفات کے فوراً بعد شروع ہو ئے اور پھر اسی شدت اور بے حیائی کے ساتھ جاری و ساری رہے،کسی دور حکو مت میں اسپیکر اسمبلی کو اٹھا کر باہر پھینکا گیا اور کسی دور حکو مت میں کسی کو چھ ماہ اور ایک سال کے بعد انتہائی فخریہ انداز میں گھر بھیج دیا گیا۔ اس ساری صو رتحال نے ایک تھرڈ پارٹی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ان کی مقابل زیادہ منظم اور قابلیت کے حامل ہیں کہ وہ ان سے بہتر انداز میں نظام حکومت چلا سکتے ہیں ۔اس طرح ایک اور پارٹی نے ۱۹۵۸ کو سکندر مرزا کو گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ان سیاسی بونوں کے مقابل دس سال تک انتہائی کامیابی کے ساتھ نظام حکومت چلایا۔جرنل ایوب کے مخالفین بھی اس امر کی تصد یق کرتے ہیں کہ ایوبی دور حکومت ان بونوں کے مقابل ایک کامیاب دور حکومت تھا ۔گو کہ اس دور حکومت میں ایوب خان کے قریبی رشتہ داروں نے کام دکھائے اور قومی دولت کی خاندانی سطح پر بندر بانٹ بھی ہوئی تاہم یہ عمل ملک میں سرمای کاری جیسے امور کو فروغ دینے اور کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کے عمل میں مدد گار ثابت ہوا۔

اس سارے دور حکو مت میں کسی بھی شریف آدمی کو یہ خیال نہ آیا کہ اس ملک کی دولت کو سوئزر لینڈ یا دنیا کے دوسرے مملک میں لے جائے اور انہی مملک میں سرمایہ کاری کرے،کارخانے،فیکٹریاں لگائے اور نہ صرف یہ کہ وہ ہی یہ کام کرے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا مشورہ اور ترغیب دے۔

اس دور حکومت کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اس وقت گھر کے ایک یا دو لو گ نوکری کرتے تھے اور سب کا گذارہ ہو جاتا تھا ،بچے سکول بھی جاتے تھے اورکرائے کے مکانات کے مسائل بھی حل ہو جاتے تھے،بہ الفاظ دیگر شرافت سے گذارہ ہو جاتا تھا۔بلا شبہ بقول (طارق عزیز ) یہ دور کسی بھی صورت کوئی پیغمبری یا ولایت کا دور نہ تھا تاہم پڑھا لکھا بابو غالباً انتا چالاک نہ تھا۔پھر یکایک ایک اور دور نے جنم لیا۔یہ دور عوام کا دور کہلایا اور اس کے بارے میں یہ دعوے کیے گئے کہ اس دور حکومت میں عوم ہی کو سنا اور سمجھا جائے گا اور انہی کی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے بھی کیے جائیں گے۔بصورت دیگر عوام کو سنا جائے گا،ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی اور حکمران عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کریں گے اور اس پر عملدرامد کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

پاکستان کے عوام نے اس دور حکومت کو اپنی امیدوں کا ترجمان سمجھا اور اس کی کامیابی کے لئے انتہائی کوشش کی تا کہ ان کے خوابوں کی تعبیر ممکن ہو سکے اور سماج کے تمام افراد کو قومی ترقی کی دوڑ میں اپنی اپنی قابلیت کے مطابق حصہ میسر آسکے۔ایک ایسا نطام حکومت تشکیل دیا جا سکے جس میں لوگ اپنی جائز ضرورتوں کے لئے اپنی عزتوں کے سودے کرنے پر مجبور نہ ہوں اور پاکستان بننے پر انکو فخر ہو نہ کہ پچھتاوا کہ وہ یہاں بھی شودر ہی رہے ۔

اس دور حکومت کا سب سے اہم اور مقبول ترین نعرہ اور عوامی وعدہ روٹی،کپڑا اور مکان کی فراہمی تھا جسے آئین اور قانون کے مطابق افراد کا بنیادی حق قرار دیا گیا جو بعد ازآں ایک جھوٹ اور مکر کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہ ہوا۔

تاہم اس دور حکومت میں چمچوں،ٹاؤٹس اور سپلائرز کو بڑی مراعات ملیں اور عوام کنزیومر مارکیٹ پر حکومت کا قابو نہ ہونے کے باعث مذ ید ذلتوں اور رسوائیوں کا شکار ہو گئے۔

یہ سلسلہ آج بھی انتہای کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے اور عوام کو چھوٹے شہروں میں صرف سبزیوں اور پھلوں پر روزانہ کروڑوں روپے اضافی ادا کرنے پڑتے ہیں۔یہ سارا کاروبار ضلعئی انتظامیہ اورعدلیہ کی ملی بھگت کے ساتھ ہوتا ہے اور لوگوں کی انکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے چھاپے مارے جاتے ہیں،گرفتاریاں ہوتی ہیں،جرمانے ہوتے ہیں تاہم منڈی کا ریٹ وہی رہتا ہے اور اگر کوئی پاگل سر پھرا انتظامیہ سے شکایت کر لے تو اسے demand and supply کے فلسفلے سے روشناس کرایا جاتا ہے تا کہ وہ یہ جان جائے کہ اس کی یہاں کوئی شنوائی نہ ہو سکے گی ۔

پاکستان کی ایک نامور سماجی تنطیم نے ایک بڑی پریس کانفرنس کے دوران حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ الیکشن ۱۸ ۲۰ عوام کے خوابوں کی تعبیر ثابت نہ ہو سکیں گے اور اس طرح ایک بار پھر ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں میڈیا کے نمائیندوں سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت اور اس کے نمائیندہ اداروں کی جانب ۲۰۱۸ میں متوقع انتخابات کے بارے میں جو بھی اصلاحات سامنے لائی گئی ہیں وہ ملک میں شفاف،غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے ناکافی ہیں اور ان حالات کی روشنی میں قوم کو بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

فافن کے ترجمان کے مطابق تاحا ل ملک میں شفاف،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ میں ـحائل رکاوٹوں،ایلکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کو بڑہانے،انتخا بی شفافیت کو یقینی بنانے کی راہ میں حائل روکاوٹیں ہٹانے،نگران حکو متوں کے تقرر کا عمل بہتر بنانے اور سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے مجوزہ الیکشن بل ۲۰۱۷ میں پائی جانے والی اہم خامیوں کو دور کرنا ہو گا ۔

ترجمان نے کہا کہ ایک ایسی قانون سازی جو ملک کے تمام سیاسی عناصر کی خواہشات کی عکاس ہو کو ممکن بنانے کے لئے پارلیمان میں مجوز ہ قانون پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔

فافن کے ترجمان نے کہا کہ گو کہ انتخابی بل جو کہ ۷ اگست کو پارلیمان میں پیش کیا گیا ایوان اس پر سیر حاصل بحث کریگا ، فافن اس عمل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تاہم فافن اور اسکی پچاس سے ذائید اتحادی تنطیموں کو اس پات پر تشویش ہے کہ مذکورہ انتخابات کے عمل کو مذید شفاف بنانے،انتخابی اہلکاروں کو قابل احتساب بنانے اور انتخابی نتائج کو نمائندہ بنانے کے لئے ابھی بھی اس قانون میں مذید بہتری کی گنجائیش موجود ہے۔فافن کے ان الزامات کی تصدیق ایلکثن کمیثن کے حالیہ بیان سے ہو گئی ہے تاہم ماضی کے اعدادو شمار سے سابقہ کھلاڑیوں کو کام دکھانے میں آسانی ہو سکتی ہے لہذا اسی طریقہ کار کو اپنانے پر زور دیا جائے گا۔
فافن کے ترجمان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات بظاہر معمولی نوعیت کی شکایات لگتی ہیں تاہم انکی گہرائی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ۲۰۱۸ کے انتخابات ایک بار پھر لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیں گے اور ان انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی اسمبلی ماضی کی انہی اشکال سے بھری ہو گی جن پر تاحال مختلف نوعیت کے مقدمات چل رہے ہوں گے،بنکوں سے اربوں کے قرضے لیکر معاف کروانا، الیکشن میں دھاندلی کے الزامات،ہزاروں جعلی ووٹوں سے جیتنے کے اعزاز ،قتل و غارت گری جیسے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات،جرگوں میں عام لوگوں کی بہو بیٹیوں کی عصمت دری کے خفیہ احکامات،عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپنی فیکٹریوں کے لئے امداد و قرضے لینے کی سیاسی کوششیں،اپنے عزیز و اقارب کو مہنگی اور پر کشش نوکریاں دلوانے کی جدو جہد ،خاندانی اقربا پروری،دوسروں اور عام لوگوں کے لئے میرٹ کی شدت سے رٹ لگانے کی بیان بازی،اپنے چہیتے اور مخبر صحافیوں کو کروڑوں اور اربوں روپے کے پلاٹس کی بندر بانٹ ،ایک ایک صحافی کو ایک بار نہیں تین تین بار پلاٹوں کی بندر بانٹ،سالوں تک عدالتوں میں عدم حاضری اور اربوں روپے کی سرکاری اراضی پر سرے عام قبضے جیسی خصوصیات کے حامل ،معزز اور انتہائی قابل عز ت و احترام افراد ایک بار پھر ہماری اسمبلیوں کی زینت بنیں گے۔

اس کے علاوہ ان معزز راہنماؤں کو یہ بھی حق حاصل ہو گا کہ اگر ان کے خلاف کوئی شکائیت سامنے لائی گئی تو وہ جمہوریت ،ملکی سلامتی اور اسلام کے خلاف ایک سازش تصور کی جا سکے گی جبکہ عام لوگ چند ہزار روپوں کی خاطر گرفتار ہو سکیں گے، ان پر مقدمات چل سکیں گے اور انہیں جیل بھی جانا ہو گا جیسا کہ آج بھی ہزاروں لوگ قابل تلافی تنازاعات کی وجہ سے جیلوں میں رسوا ہو رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔تاہم ان کے علاوہ ایسے لوگ جن پر کروڑوں روپے کے قرض واجب الدا ہوں گے ہماری اسمبلیوں کی زینت ہوں گے اور تمام سرکاری وسائل انکی خوش آمدید پر صرف ہوں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہوں گے جن پر کوئی ریاستی قانون لاگو نہ ہو سکے گا اور نہ ہی عوام لناس کو ان کی شہ خرچیوں اور اربوں روپے کے قرضوں کے حصول اور انکی واپسی کے عوامل تک رسائی حاصل نہ ہو گی۔نیز ان لوگوں کی پبلک اکاوئنٹس کمیٹی میں بھی کوئی پرسش نہ ہو گی یہاں تک کہ ایک ہزار ارب روپے کی بھی غیر قانونی ادائیگی کر دی جائے،غبن جیسے مقدمات میں سزا یافتہ افراد کو سٹیٹ بنک اور نیشنل بنک جیسے اہم اداروں میں چوہدری بنا دیا جائے۔

لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آ خر یہ کو جوگ ہیں جو آئین اور قانون سے با تر ہیں ۔اور کیا یہی جمہوریت ہے جس میں صرٖف بالا دست طبقات کو ہی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور ان کے مقابل عوام شودر اور کمی کمین ہیں اور ان کا کام صرف سستے داموں سرمایہ داروں کی فیکٹریو ں کو اور پھیلانا ہے تا کہ استحصالی قوتوں کو اور طاقت ور بنایا جا سکے۔کیا عوام اس پات پر یقین کامل کر لیں کہ جمہوریت ایک ایسے استحصالی اور مکروہ کھیل کا نام ہے جس میں صرف کمزور آدمی کا ہی حساب ہوتا ہے۔وہی گرفتار ہوتا ہے،وہی جیل جاتا ہے اور اربوں روپے لوٹنے والے،معاف کروانے والے،کروڑوں روپے کے ٹیکس چوری کرنے واے حکمران اور وزیر بنا د ئے جاتے ہیں ،پھر اگر انکی باز پرس کی جائے تو ان کو یہ بھی حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ججز کو ٹرائل کرنے کی باتیں کریں،مطالبات کریں اور رسہ گیر وں کی ملی بھگت سے راتوں رات قانون ہی بدل ڈالیں،اور یہ سب کچھ جمہوریت کی بالا دستی ہی کہلائے۔

لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں (عمر) لا درکار ہے یا کہ شودر لا جس میں صرف کمزور کو ہی ٹرائل ہو نا ہے،گرفتار ہونا ہے،جیل جانا ہے اور زلت اور رسوائیوں کا سامنا کرنا ہے۔

Anwar Baig
About the Author: Anwar Baig Read More Articles by Anwar Baig: 20 Articles with 13137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.