اُلجھاوا

لیجئے ،وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے واہ شگاف انداز سے ایک مرتبہ پھر اپنے اِس عزم کو دہراتے ہوئے کہاہے کہ ـ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ آئندہ انتخابات میں یہی پاکستان مسلم لیگ(ن) کا منشور اورنعرہ ہوگااِنہوں نے بڑے وثوق سے کہتے ہوئے اِس کا بھی یقین دلایاہے کہ کوئی بھی پاکستانی ایسا نہیں ہوگا جو یہ نہ چاہئے گا کہ ووٹ کو عزت نہ دی جائے اور ساتھ ہی اس اُمیدکا بھی اظہار کردیاہے کہ اِس نعرے اور منشور کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ ن ہی الیکشن میں بھر پور کامیابی حاصل کرے گی‘‘۔وزیراعظم نے جو کہا یہ اِن کا اپنا بیانیہ ہے جواِن کی نظر میں تو درست ہے مگراَب اِس پر قوم کو سوچناہے کہ آئندہ اِسے کیا کرناہے ؟

تاہم حکمرانواور سیاستدانوں کی چپقلش میں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرے ارضِ مقدس پاکستان میں سب کچھ ٹھیک چل رہاہے مگر پھراچانک ہی سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان جاری کھینچاتانی اور تاؤ کی کیفیت دیکھ کر اندر ہی اندر یہ احساس کچوکے مارنے لگتاہے کہ نہیں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ستر سالوں سے قوم اِسی مخمصے اور تذذب میں مبتلاہے اوریہ ابھی تک کسی نقطے پر نہیں پہنچ سکی ہے کہ ہمارے یہاں کیا ٹھیک ہے ؟اورکیا غلط ہے؟ یعنی کہ مایوسی کی ایک زنجیر ہے کہ جو پاؤں میں پڑی ہوئی ہے آج مُلک میں جو کچھ سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان ہورہاہے یہ ایک ایسا اُلجھاوا ہے جس کی گُتھی سب ایک ساتھ مل کر سُلجھانا چاہ رہے ہیں تب یہ ہی بجائے سُلجھنے کے اُلٹا اُلجھتی ہی چلی جارہی ہے آج ہمیں اِس پریشان کن صورتِ حال سے ضرور نکلنا ہوگا ورنہ ہم اپنا کل بہتر نہیں بنا سکیں گے۔

بہر کیف ،بھلا 28جولائی 2017ء کے بعد نااہل سیاست دانوں کی یہ بھی کوئی بات ہے ؟ ووٹ کو عزت دوسوچیں یہ بات سیاستدان کس سے کہہ رہے ہیں شاید اِنہیں خود بھی یہ نہیں پتہ ہے کہ یہ کس سے اور کیوں کہہ رہے ہیں؟ آج بس سبھوں کی زبان پہ یہی ہے کہ ووٹ کو عزت دو یعنی کہ اِن کے نزدیک انہیں ایوان تک پہنچانے والے ووٹ کی عزت نہ کبھی پہلے تھی اور نہ آج ہے۔

ارے جنابِ محترم ، یہ ووٹ کی ہی عزت اور احترام ہے کہ آپ اِس کے بل بوتے ہی ایوانوں میں قدم رنجافرماتے ہیں اگر ووٹ کی عزت نہ ہوتی اور یہ مقدس و محترم نہ ہوتاتو کوئی مائی کا لعل ایوانوں میں قدم نہیں رکھ سکتاہے ہارے والے سے کوئی پوچھے کہ ووٹ کی کیا عزت ہوتی ہے ؟ جتنے والا تو الیکشن جیت کر ووٹ اور ووٹرز کی عزت کو ہی بھول جاتاہے ؟ یقینا نہ آئے تو کبھی تنہائی میں دل پہ ہاتھ رکھ کراپنا محاسبہ کرکے دیکھ لیں تب ضمیر کی جو آواز آئے گی وہ یہی ہوگی کہ ہاں ، تم نے اپنی جیت کے بعد نہ ووٹ کو خود عزت دی ہے اور نہ ووٹرز کو اہمیت اور عزت دینے کا سوچا ہے اگر تمہاری نظر میں ووٹ کی عزت ہوتی تو تم پانچ سالوں میں سِوائے دوتین مرتبہ ایوان میں جانے کے بجائے ایوان میں اپنی حاضری اور موجودگی کے مطلوبہ اہداف پوراکرتے، اپنی جیت کے بعد ووٹ کی بے توقیر تو پہلے آ پ نے کی ہے اور اَب آپ کس منہ سے ووٹ کو عزت دو کی بات کررہے ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں کہ اگلے متوقع الیکشن ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر پاکستان مسلم لیگ ن لڑے گی ۔

درحقیقت ووٹ کی ہی عزت ہے کہ ووٹرز اپنے مقدس ووٹ کا اپنے تعین دیانتدارانہ استعمال کرکے اپنے پسند کے اُمیدوار کو قومی فریضہ اور امانت سمجھ کر دیتاہے مگربڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے ہمارے یہاں الیکشن سے پہلے یعنی کہ اپنے حلقے کے ووٹرز سے ووٹ لینے تک اُمیدوار کی نظر میں ووٹرز کی اہمیت ہوتی ہے مگر معاف کیجئے گا، جیسے ہی انتخابات کے نتائج آتے ہیں اور کوئی اُمیدوار کامیاب ہوجاتاہے تو اِس کے نزدیک ووٹرز کی قدر و عزت صفر اور ووٹ کا تقدس بلند ہوجاتاہے وہ اپنی جیت کے لئے حاصل ہونے والے ووٹوں کے شمار کو ہی عزت دیتاہے اِس سے توکل اور آج کا کوئی بھی ا اُمیدوارنکاری نہیں ہوگا مگر اَب یہ اِسے نہ مانے تو اور بات ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ آج نااہل حلقے اور اِن کے چیلے چپاٹے جس ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگارہے ہیں اِن سمیت دوسروں نے کب اپنی جیت کے بعد ووٹ سے زیادہ ووٹرز کو عزت دی ہے۔

آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جہاں اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کا جذبہ موجود ہے وہاں سیاستدان اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر میدانِ سیاست میں اُترتے ہیں اِسی لئے اُن ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں سیاستدانوں کے نزدیک ووٹ سے زیادہ ووٹرز کو عزت دو کا نظریہ پروان چڑھاہے۔

جبکہ ہمارے ارضِ وطن پاکستان میں سیاستدان ہر پانچ سال بعدہونے والے الیکشن میں اربوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر جمہوریت کی آڑ میں قومی خزانے سے لوٹ مار کرتے ہیں آف شور کمپنیاں اور اقامے بناتے ہیں اپنے اور اپنی فیملی کے افرادکے بیرونی ممالک کے شہرت یافتہ اور اچھی ساکھ کے حامل بینکوں میں کھاتے کھلواتے ہیں اِن میں ساری قومی دولت منتقل کرواتے ہیں اِس طرح قومی خزا نے سے لوٹ مار کرکے یہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی خدمت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتارہتاہے۔

مگر جب اِن کے سیاہ کرتوتوں پر قومی ادارے اِن کا احتساب کرتے ہیں اور اِنہیں قانونی گرفت میں لا کر نا اہل قرار دیتے ہیں تو پھر یہ اپنی سُبکی مٹانے کے لئے’’ مجھے کیو ں نکالا؟‘‘ اور ساتھ ہی معصوم ووٹر ز کو اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے اُکساتے ہیں اور چیخ چلا کر ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کاٹیکہ لگاتے نہیں تھکتے ہیں جبکہ حکمرانواور سیاستدانوں کو دوٹ کو عزت دو کی مالا جپنے ہو ئے یہ احساس ہونا چاہئے کہ مسندِ اقتدار پر بیٹھانے والے تو بیچارے ووٹرز ہی ہوتے ہیں اِنہوں نے جنہیں اپنی جیت کے بعدمسائل درمسائل کے دلدل میں دھنسادیاہے آج یہ اِن بدعقل اور اندھے ووٹرز کی ہی بد دعائیں ہیں کہ آج حکمرانواور سیاست دانوں کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ سے تنگ ہوتاجارہاہے اوراَب جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب سے قریب تک آتے جائیں گے کرپٹ عناصر ، آف شور کمپنیوں اور اقامے والوں اور اربوں کھربوں قومی دولت لوٹ کر سوئیس بینکوں میں رکھنے اور قو می خزانہ لوٹ کھانے اور اپنے اللے تللے میں غریبوں کی خون پسینے کی کمائی قومی دولت کو اُڑانے والوں کا کڑے سے کڑا احتسابی عمل جاری رہنا چاہئے تب ہی پاکستان کی سرزمین ناپاک کرپٹ عناصر سے چھٹکاراپائے گی ورنہ یہ اگر بچ نکلے تو پھر یہ ناسور اور ناپاک عناصر پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر قومی خزا نے پر کوبرا سانپ بن کر بیٹھ جائیں گے اور مزے کریں گے جبکہ مُلک اور قوم مایوسیوں کے گندے بدبودار دلدل میں زندہ درگور ہوجا ئیں گے۔ (ختم شُد)

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 890399 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.