میلادمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ کرام ومحدثین حصہ ہفتم

شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا : ’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔

’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔

’’اﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔

’’اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسی معین دن کو منایا جائے تاکہ یومِ عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مطابقت ہو۔

’’اور اگر کوئی اس چیز کو ملحوظ نہ رکھے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کو ماہ کے کسی بھی دن منانے میں حرج نہیں بلکہ بعض نے تو اسے یہاں تک وسیع کیا ہے کہ سال میں سے کوئی دن بھی منا لیا جائے۔ پس یہی ہے جو کہ عملِ مولد کی اصل سے متعلق ہے۔

’’جب کہ وہ چیزیں جن پر عمل کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان پر اکتفا کیا جائے جس سے شکرِ خداوندی سمجھ آئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ (ان میں) ذکر، تلاوت، ضیافت، صدقہ، نعتیں، صوفیانہ کلام جو کہ دلوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرے اور آخرت کی یاد دلائے (وغیرہ جیسے اُمور شامل ہیں)۔‘‘
:: حسن المقصد في عمل المولد : 63، 64
الحاوي للفتاوي : 205، 206
سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366
شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263
السيرة النبوية، 1 : 54
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237

’’(محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہلِ اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماہِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدس کی برکات اﷲ تعالیٰ کے بہت بڑے فضلِ عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن جزری مقری نے بیان کیا ہے کہ ماہِ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔‘‘
:: المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 12، 13
سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 362
إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
تفسير روح البيان، 9 : 56، 57
السيرة النبوية، 1 : 53
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233

اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ)امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی (1445۔ 1505ء) کی کتاب کے چند اہم اقتباسات درج کیے جاتے ہیں :

’’رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا جو کہ اصل میں لوگوں کے جمع ہو کر بہ قدرِ سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں منقول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور وہ اس بدعتِ حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اِظہارِ فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔‘‘
:: حسن المقصدفي عمل المولد : 41
الحاوي للفتاوي : 199
سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236

’’بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہمارے لیے نعمتِ عظمیٰ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اِظہارِ شکر کا حکم دیا ہے اور مصیبت پر صبر و سکون کرنے اور اُسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اِسی لیے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اِظہار کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔‘‘
:: حسن المقصد في عمل المولد : 54، 55
الحاوي للفتاوي : 203

’’يوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالے سے ایک اور دلیل جو مجھ پر ظاہر ہوئی ہے وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اور عقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی چیز پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوبارہ اپنا عقیقہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکرانے کا اِظہار تھا اس بات پر کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے شرف کا باعث بنایا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
:: حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
الحاوي للفتاوي : 206
سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237

’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔

’’ابن جزری کہتے ہیں : پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی ہے، تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔

’’ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِس ماہِ (ربیع الاول) کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہر طور فیض یاب ہوتا ہے۔

’’محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتوں کو (بھی) بہ طور عید منا کر اس کی شدتِ مرض میں اضافہ کیا جس کے دل میں (بغضِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب پہلے ہی خطرناک) بیماری ہے۔‘‘
:: المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147، 148
شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260. 263
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233، 234

اِمام قسطلانی کی اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل میں محافلِ میلاد منعقد کرنا، واقعاتِ میلاد پڑھنا، دعوتیں کرنا اور کثرت کے ساتھ صدقہ و خیرات کرنا، اَعمالِ صالحہ میں زیادتی کرنا اور خوشی و مسرت کا اِظہار کرنا ہمیشہ سے سلف صالحین کا شیوہ رہا ہے۔ اور ان اُمور کے وسیلہ سے اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

’’یہ عمل سنن میں سے تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس دن مال خرچ کرتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کے ظہور پذیر ہونے کی خوشی مناتا ہے اور سماع کی محفل منعقد کرتا ہے جو کہ ایسا اجتماع نہ ہو جس میں لغویات جیسے شہوت انگیز گیت، دنیاوی عشق پر مبنی شاعری جس میں محبوب کے رُخساروں، آنکھوں، ابروؤں کا ذکر ہوتا ہے بلکہ ایسے اشعار ہوں جو کہ آخرت کی یاد دلائیں اور دنیا میں زُہد و تقوی اختیار کرنے کی طرف رغبت دلائیں تو ایسا اجتماع اچھا ہے اور ایسے اجتماع کرنے والا اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ مگر اس اجتماع میں لوگوں کا بغیر حاجت اور ضرورت کے سوال کرنا مکروہ ہے اور اس اجتماع میں صالح لوگوں کا جمع ہونا۔ تاکہ وہ یہ ضیافت کھائیں اور اللہ کا ذکر کریں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجیں۔ اُن کے اجر و ثواب اور قربتِ الٰہیہ میں مزید اِضافہ کا موجب ہے۔‘‘
:: سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 364

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا دن بڑا ہی مقدس، بابرکت اور قابل تکریم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے تو وہ نجات و سعادت حاصل کرلیتا ہے، اور اگر ایسا شخص خوشی منائے جو مسلمان نہیں اور دوزخ میں رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہو تو اس کا عذاب کم ہوجاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق چلنے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات مکمل ہوتی ہیں۔ یہ دن یوم جمعہ کے مشابہ ہے، اس حیثیت سے کہ یوم جمعہ میں جہنم نہیں بھڑکتی جس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے۔ اس لیے اس دن خوشی اور مسرت کا اظہار اور حسبِ توفیق خرچ کرنا اور دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا بہت ہی مناسب ہے۔‘‘
:: سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 364
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1280570 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.