میلادمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ کرام ومحدثین حصہ ششم

اب امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : ’’میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا۔ ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا۔ اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے کرایا تھا۔ اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی۔ پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے : میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں۔ اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ اﷲ تعالیٰ۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا۔‘‘
البداية والنهاية، 9 : 18
حسن المقصد في عمل المولد : 44
الحاوي للفتاوي : 200
سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 362، 363
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236

شاہِ اِربل تقریباتِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ امام ابن کثیر نے اتنی خطیر رقم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنے کی تحسین کی ہے اور ایک لفظ بھی تنقید اور اِعتراض کے طور پر نہیں لکھا۔ یاد رہے کہ ایک دینار دو پاؤنڈ کے برابر تھا اور اس طرح میلاد پر خرچ کی گئی رقم چھ لاکھ پاؤنڈ تک جا پہنچی تھی۔ دینار اور پاؤنڈ کا یہ موازنہ آج کے دور کا نہیں بلکہ آج سے آٹھ سو (800) سال قبل کا ہے۔ اگر آج کے زمانہ سے تقابل کیا جائے تو اُن دنوں ایک دینار کم و بیش ایک چوتھائی تولہ سونے کے برابر ہوتا تھا جو آج پاکستانی کرنسی میں قریباً چار ہزار روپے (4,000) روپے بنتا ہے اور اگر ایک دینار کی اُسی حساب سے قدر نکالی جائے تو یہ آج تقریبًا چالیس (40) پاؤنڈ بنتی ہے۔ اور اگر حساب کرتے ہوئے چالیس (40) کو تین لاکھ (300,000) سے ضرب دی جائے تو یہ رقم ایک اَرب بیس کروڑ (1,200,000,000) پاکستانی روپے کے لگ بھگ ہوگی۔ اور یہ محض ایک تخمینہ ہے۔

’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘
:: المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 17

’’اَحمد بن حنبل نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ اور میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دینے والی بشارت کا نتیجہ ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے ان خوابوں کی تعبیر ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم اَطہر سے ایسا نور پیدا ہوا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔ اور اسی طرح کے خواب اَنبیاء کی مائیں دیکھتی تھیں۔‘‘
(1) البقرة، 2 : 129
(2) الصف، 61 : 6
المسند، 4 : 127، 128، رقم : 17190، 17191، 17203
ابن حبان، الصحيح، 14 : 312، رقم : 6404
مستدرک علي الصحيحين، 2 : 656، رقم : 4174
المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 631
مسند الشاميين، 2 : 340، رقم : 1455
الطبقات الکبري، 1 : 149
موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، الرقم : 2093
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 223
فتح الباري، 6 : 583
البداية والنهاية، 2 : 321

کھانا کھلانا ہر وقت مستحب ہے۔ اگر کسی موقع پر ربیع الاول شریف کے مہینے میں ظہورِ نبوت کی یادگار کے حوالے سے خوشی اور مسرت کے اِظہار کا اِضافہ کر دیا جائے تو اس سے یہ چیز کتنی بابرکت ہوجائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اَسلاف نے ایسا نہیں کیا اور یہ عمل بدعت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مکروہ ہو کیوں کہ بہت سی بدعات مستحب ہی نہیں بلکہ واجب ہوتی ہیں۔‘‘
علي بن إبراهيم، تشنيف الآذان بأسرار الآذان : 136
’’یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ہر سوموار کو ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔‘‘

إذا کان هذا کافرًا جاء ذمه
وتبّت يداه في الجحيم مخلّداً
أتي أنه في يوم الاثنين دائماً
يخفّف عنه للسرور بأحمدا
فما الظن بالعبد الذي طول عمره
بأحمد مسرورًا ومات موحدًا

1۔ جب ابولہب جیسا کافر جس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے اور جس کی مذمت میں قرآن مجید کی پوری سورت تَبَّتْ يَدَا۔ نازل ہوئی۔

2۔ باوُجود اس کے جب سوموار کا دن آتا ہے تو احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہمیشہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔

3۔ پس کیا خیال ہے اس بندے کے بارے میں جس نے تمام عمر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانے میں گزاری اور توحید کی حالت میں اُسے موت آئی!
:: حسن المقصد في عمل المولد : 66
الحاوي للفتاوي : 206
سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
السيرة النبوية، 1 : 54
حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1289252 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.