جوتے مارنے کا کلچر

سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے منہ پر سیاہی پھینکنے کے واقعہ کی ابھی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ سابقہ وزیر ِ اعظم میاں نوازشریف کے ساتھ لاہور میں وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ جامہ نعیمیہ ایک سیمینار سے خطاب کرنے کیلئے ابھی سٹیج پر پہنچے ہی تھے کہ جامعہ کے ایک سابق طالبعلم نے انہیں جوتا دے مارا تین باروزیر ِ اعظم بننے والی شخصیت سے اس سلوک کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس سے اگلے روز فیصل آبادمیں تحریک ِ انصاف کے چیئر مین عمران خان کو جوتا مارنے کیلئے مستعد شخص کو’’ بر وقت‘‘ دھرلیا گیا پھر گجرات میں جلسہ کے دوران کسی تماشائی نے عمران خان کی طرف جوتا اچھال دیا جو نستعلیق سے علیم خان کو جالگا اس پہلے لیگی رہنما احسن اقبال سے بھی یہی سلوک ہوچکاہے چندسال پہلے وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف لاہورمیں ساؤتھ ایشیا لیبرکانفرنس کی تقریب میں ابھی سٹیج پرآکر بیٹھے ہی تھے کہ پریس گیلری میں بیٹھے نجی ٹی وی چینل کے صحافی نے ان کی طرف جوتا اچھال دیاخوش قسمتی سے وزیر ِاعلیٰ اس کی زدمیں آنے سے بال بال بچ گئے اور جوتا سٹیج پر گرگیا۔ ماضی میں سابق امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈکیمرون، امریکہ کی سابق خاتون ِ اول ہیلری کلنٹن، ایرانی صدر احمدنژاد، مقبوضہ کشمیرکے کٹھ پتلی وزیر ِ اعظم عمر عبداﷲ، بھارتی عام آدمی پارٹی کے رہنما اروندکیجریوال،سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اورسابق صدر پرویز مشرف بھی اس صورت ِ حال سے دو چارہوچکے ہیں اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل معروف قانون دان احمد رضا قصوری کے چہرے پرکسی نے کالے رنگ کا سپرے کردیا تھا سابقہ وزیر مرحوم شیر افگن نیازی اورسینیٹر طارق عظیم کی بھی پٹائی ہو چکی ہے۔۔۔یہ سب واقعات معاشرہ میں عدم برداشت کی نشان دہی کرتے ہیں میاں نواززشریف ،عمران خان ،خواجہ آصف اور علیم خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کوانتہائی سنگین کہا جا سکتاہے اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب نہیں ہوا بلکہ شدید بدنامی بھی ہوئی ہے سوچتاہوں کاش ایسے واقعات نہ ہوں تو کتنا اچھا ہو۔ ماضی میں کسی سیاسی جلسے یا جلوس کو ناکام بنانے کیلئے گندے انڈے یا ٹماٹر مارنے کا رواج تھا اسے بھی بڑا واقعہ شمار کیا جاتا تھا اب تو جوتے مارنے کا کلچر فروع پارہاہے جو انتہائی خوفناک رویے کا عکاس ہے اسے انتہا درجے کی بدتمیزی سے تعبیر کیاجاسکتا ہے ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ایساکیارہے ہیں انہیں خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ غالب نے تو کہا تھا
ہر اک بات پہ کہتے ہو تو کیا ہے؟
تمہی کہو ۔۔یہ انداز ِ گفتگوکیاہے؟

آج غالب زندہ ہوتے تو اس بدتمیزی اور بد تہذیبی پر نہ جانے کتنے شعر لکھ ڈالتے لیکن بیشترلوگوں نے توایسے واقعات کو یقینا چٹخارے لے لے کر بیان کیا ہوگا لیکن ٹی وی چینل جس انداز سے کلپ دہراتے ہیں کہ ہر مرتبہ دیکھنے سے اس کا لطف دوبالاہورہاہو یہ طرز ِ عمل درست نہیں ایسے واقعات سے ظاہرہوتاہے کہ ہمارے مزاج میں عدم برداشت کی انتہاہوگئی ہے ۔تحمل ، مروت ،بردباری اوردرگذرکرنا شاید پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب تو زیادہ تر لوگوں میں قوت ِ برداشت کم ہوتی جارہی ہے جس کے باعث بات بے بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں معمولی’’ تو تو میں میں‘‘پر اسلحہ نکل آتاہے ۔۔ کبھی۔ برداشت ،تحمل ، مروت سیاستدانوں،صحافیوں ،سرکاری و غیرسرکاری افسران اوربیوروکریٹ کا خاصا ہوتا تھا دور ِ حاضر میں لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اس ماحول میں جوتا کلب میں شامل ہونے والوں کے ضبط کاامتحان بھی ہے ۔ کس کا اس انداز میں پرسنل ہونا کسی طور مناسب نہیں ہے اس طرح تو معاشرہ میں زبردست انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ معاشرہ میں سیلف ریسپکٹ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کسی رہنماؤں کو جوتا مارا جا سکتاہے تو پھر گولی،اینٹ ،پتھر سے بھی نشانہ بنایا جا سکتاہے خدار ا اس کلچرکا ابھی سے گلہ گھونٹ دیا جائے یہ صریحاً خانہ جنگی کا راستہ ہے ہرشخص اپنی جگہ محترم ہے ہر شخص کی عزت ملحوظ ِ خاطررکھی جائے ۔۔مرحوم غلام حیدروائیں کہا کرتے تھے قوت ِ برداشت نہ ہو تو سیاست چھوڑتا زیادہ بہترہے ۔۔ہم نے کئی پریس کانفرنسوں میں مزاج کے خلاف سوال کرنے پر کئی سیاستدانوں کو سیخ پاہوتے دیکھاہے کئی اس قدر غصے میں آجاتے ہیں کہ وہیں کھڑے کھڑے صحافیوں کو بے نقط سنا دیتے ہیں۔پاکستان کے قیام میں لاکھوں افراد نے بہت قربانیاں دی ہیں۔بہرحال مملکت ِ خدادادپاکستان میں جوتا مارنے کے کلچرکو سختی سے کچلنے کی ضرورت ہے اس مکروہ فعل سے آزادی ٔ اظہار کو بہت سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں یہ کام اظہارِ رائے کی آزادی کا بھی دشمن ہے مذہبی نقطہ نظر سے انتہائی گھناؤنا کام ۔پست اور گھٹیا سوچ کا مظہر اس طرح کوئی بھی پبلک مقام پر آنے کی جرأت نہیں کرے گا۔خوفناک بات یہ ہے کہ جوتے مارنے کی رسم چل نکلی تو کل کلاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا مذہبی رہنما، سیاستدان،سماجی شخصیات،صحافی یاپھرکوئی بھی اس جوتا گردی کا شکارہوسکتاہے ۔لوگ اپنے کسی بھی مخالف کو جوتے مارکر ذلیل کرسکتے ہیں اس صورت میں اتنی انارکی پھیلے کی جس کا اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 159794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.