اب اس آزادی سے دم گھٹتا ہے

میں اپنی دوست کے ساتھ کالج سے واپس آرہی تھی، جون کی شدید گرمی اور حبس کے باعث سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں گھر والوں کی طرف سے تھوپا ہوا نقاب ، سخت اٌلجھن ہو رہی تھی تو میں نے نقاب اٌتار دیا تو میرے ساتھ چلتی دوست نے کہا کہ کیا کر رہی ہو کسی نے دیکھ لیا تو، جواباً میں نے اٌسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہو گئی، نقاب ہٹایا تو سانس بحال ہوئی۔

مجھے ماڈلنگ کا شوق تھا یا یہ کہیں کہ گھر کے گھٹن زدہ ماحول سے فرار کا راستہ ڈھونڈا تھا، میں نے ایک دو جگہ اپنی تصاویر دی ہوئی تھیں، ایک جگہ سے کال آئی اور ایک ہوٹل میں مجھے بلوایا گیا، وہاں فوٹو شوٹ ہوا کیونکہ مجھے ایک ڈرامے کے لیے سائن کر لیا گیا تھا۔ اٌسکے لیے مجھے ان کے ساتھ بیرونِ ملک جانا تھا۔

گھر والے تو مجھے گھر سے باہر نہ نکلنے دیتے، شوٹنگ کے لیے ملک سے باہر جانا تو ناممکن تھا۔ اس لئے میں نے رات کے پچھلے پہر گھر سے فرار حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور میں اس میں کامیاب بھی ہو گئی، لیکن اب میں مکمل طور پر انہی کے رحم و کرم پر تھی جن کے ساتھ مجھے دوسرے ملک جا کر کام کرنا تھا، دو دن بعد میری فلائٹ تھی اور میں جانے کے لئے آزاد تھی۔ میرے گھر سے جانے کے بعد کیا ہوا مجھے اسکا علم نہیں تھا اورنہ مجھے جاننے کی خواہش تھی۔اب بس مجھے اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچنا تھا۔ ناجانے کیوں میں آزاد تو تھی لیکن پرسکون نہیں تھی، گہرے گلے اور گھٹنوں سے کافی اوپر تک آتی چست شرٹ کے ساتھ جینس پہنے میں وہ زندگی شروع کرنے جارہی تھی جو میری منتخب کردہ تھی، جسمیں میں آرام دہ تو محسوس نہیں کر رہی تھی لیکن میں یہ سوچ کر اپنی گھبراہٹ کو زائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ وقتی گھبراہٹ ہے اور آہستہ آہستہ میں اس زندگی میں مگن ہو جاؤں گی۔۔۔

لیکن آج آٹھ سال گزر جانے کے بعد ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ٹرین آنے کا انتظار کرتے ہوئے بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اب بھی وہیں ہوں اٌسی ائیرپورٹ پر بیٹھے اٌسی فلائٹ کا انتظار کر رہی ہوں۔ وہی محسوس کر رہی ہوں جو اٌس دن محسوس کیا تھا لیکن اس احساس کے ساتھ آج کچھ اور بھی محسوس ہو رہا ہے، شاید پچھتاوا، شاید ندامت ، شاید احساسِ جرم ، یا شاید خود سے گِھن۔۔۔۔۔ اپنے وجود سے ، اپنی زندگی سے ، اپنی آزادی سے۔ لیکن تب واپسی ممکن تھی ، شاید تب میرے گھر والے میرے منتظر تھے اور اب۔۔۔۔۔۔ اب پیچھے مٌڑ کر دیکھنے پر گہرے سنّاٹے اور خالی پن کے سوا کچھ نہیں رہا۔۔۔۔

اِن آٹھ سالوں میں میں نے ویسی ہی زندگی گزاری ہے جیسی میں نے کبھی چاہی تھی مکمل آزادی کے ساتھ، لیکن انتہا کی قید میں۔ جس زندگی میں کبھی چارم نظر آتا تھا وہ اندر سے اتنی گھناؤنی ہوگی اسکا اندازہ وقت گزرنے کے ساتھ ہوا، اِن آٹھ سالوں میں مجھ سے ہر وہ کام کروایا گیا جو گناہ ہے لیکن پھر بھی میں اسکی عادی نہیں ہوئی ، آج بھی مجھے پہلے جیسی گِھن محسوس ہوتی ہے ، خوف آتا ہے تنہائی میں میرا وجود سوکھے پتے کی طرح لرزتا ہے لیکن آج فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ، مجھے دھوکے سے یہاں لایا گیا تھا ماڈلنگ کا جھانسہ دے کر یہ لوگ جو کام کرواتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہے۔۔

آج پھر بابا کی وہ باتیں یاد آتی ہیں جو وہ میرے پردہ کرنے پر منہ بنانے پر کہتے تھے، وہ کہتے تھے کہ یہی تمہارے لیے بہتر ہے، ننگے سر نکلو گی تو باہر کی دنیا تمہیں کھا جائیگی ، آج دل چاہتا ہے کہ اٌنکے سینے سے لگ کر کہوں کہ بابا یہ دنیا نوچ نوچ کر کھاتی ہے۔

جب باہر نکلنے سے پہلے امّاں کہتیں تھیں کہ جتنی آزادی ہم نے تمہیں دی ہے اٌس سے زیادہ آزاد مت ہونا یہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہوگا مجھے ان کی باتوں سے کوفت ہوتی تھی آج دل چاہتا ہے کہ اٌن سے کہوں کہ یہ آزادی عذاب ہے امّاں اس میں دم گھٹتا ہے۔

آج دل چاہتا ہے کہ اس نمائش کا سامان بنے وجود کو کوئی بڑی سی چادر سے ڈھانپ لے، چھپا دے، تاکہ مجھے کوئی نہ دیکھ سکے، تاکہ میں لوگوں کی میلی نگاہوں سے محفوظ رہ سکوں، تاکہ میں اپنی روح کو آزاد محسوس کر سکوں۔ پہلے نقاب ہٹا کر سانس آتی تھی اب دنیا سے چھپ جانے کو جی چاہتا ہے اب اس آزادی سے خوف آتا ہے، دم گھٹتا ہے جسکے لیے میں نے اپنی دنیا و آخرت دونوں تباہ کر لیں۔

میری ٹرین آچکی ہے، سفر جاری ہے، وہ سفر جسکی منزل صرف بربادی ہے اور واپسی کا ہر راستہ بڑا سا پتھر رکھ کر بند کر دیا گیا ہے۔۔۔

A Silent Message...!

Irma Moin
About the Author: Irma Moin Read More Articles by Irma Moin: 7 Articles with 6391 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.