بے قراری سی بے قراری ہے (قسط ٣)

ے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

کئی دنوں سے مجھے ایک ہی خواب بار بار دکھائی دے رہا تھا۔۔
جنگل کے بیچوں بیچ صدیوں ایک بہت پرانی حویلی تھی جس کیدیواروں میں دڑاڑیں پڑ چکی تھیں۔ اس کا زنگ آلود گیٹ بہت بھاری تھا۔ دیواروں پر جھاڑیاں اور بیلیں چڑھی تھیں۔ سارا ماحول ویرانی اور خوف میں ڈوبا تھا۔ کہیں کہیں الو بولنے کی آواز آ جاتی۔ جنگل کے گھنے پن کی وجہ سے سورج کی روشنی نیچے نہیں پہنچتی۔ میں جیسے ہی دروازے کے سامنے پہنچی، وہ خود بخود کھل گیا۔
اندر ہو کا عالم تھا۔ ہر طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔ ایسا لگتا جیسے وہاں صدیوں سے کوئی نہیں آیا۔ میں سیدھا چلتے ہوئے ایک بڑے سے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہاں ایک بھیڑیا زنجیروں سے بندھا تھا۔ وہ خود کو چھڑانے کے لیے غرا رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے حملہ کرنے کے لیے چھلانگ لگائی۔ مگر زنجیروں کی وجہ سے کچھ ہی فاصلہ پر رک گیا۔ اس کی آوازیں دل کو سہما دیتیں۔
میں نے دیوار پہ ٹنگا کوڑا اٹھایا اور غصے سے اسے مارنا شروع کیا۔ وہ درد کی شدت سے چیخنے لگا۔ بچنے کی پوری کوشش کرنے لگا۔ میں چاہتی تھی، وہ ایک پالتو کی طرح میرے پیروں میں سر رکھ کر اس تشدد روکنے کی فریاد کرے۔ اس چیخیں اور سسکیاں سن کر میرے جسم میں سرور کی لہر دوڑنے لگی۔۔ میں نے کبھی ایک چیونٹی بھی نہیں ماری پر اس بھیڑیے کو مارنے میں مجھے بہت مزہ آیا۔
میں نے اسے سخت برا بھلابھی کہا۔ اس کے جسم سے نکلتے خون کو دیکھ کر مجھے تسکین ملنے لگی۔
اس خواب کی کوئی سنس نہیں بن رہی تھی۔ میرے لاشعور میں ایسا کیا تھا کہ میں خواب میں اتنی تشدد پسند بن گئی۔ میں تو ایک معصوم سی نازک اندام لڑکی ہوں۔۔ میں نے صبح اٹھ کر فوراً اپنے خیالی گناہ معافی مانگی۔ دل پر اسی خواب میں اٹکا رہا۔
میں انھی سوچوں میں گم یونیورسٹی پہنچی۔ لائبریری میں بیٹھی اسی خواب کے بارے میں سوچنے لگی۔ خواب بھی بنا مقصد نہیں ہوتے ان کے خاص معنی ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں جب ہم سو جاتے ہیں تو ہماری روح جسم سے نکل کر انجانی دنیاؤں کی سیر کرتی ہے۔ اس کے لیے ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
پتا نہیں میرے خواب کے پیچھے کیا ہو؟ یا شاید بے مقصد ہی ہو۔
عمارہ کی آواز مجھے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔
عبیر! تم نے حجاب کے نئے ڈیزائن فائنل کر لیے کہ نہیں۔
میں اپنے خیالوں میں اتنی کھوئی تھی کہ اس کے سوال کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکی۔ میں نے خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا۔
او میڈم! کس کے خیالوں میں گم ہو۔
میں ٹرانس سے باہر آ گئی۔
عمارہ ییلو شرٹ اور بلیک ٹائٹس میں کمال لگ رہی تھی۔ اوپر سے لئیر کٹنگ نے غضب ڈھایا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر تل بہت ہی منفرد اور خوبصورت لگ رہا تھا۔
ہاں ڈیزائن فائنل ہو گئے ہیں۔ تم انھیں ایک بار دیکھ لو تاکہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی نہ رہ جائے۔ ایک بار سوٹ بننے کے لیے چلے گئے تو پھر کوئی موڈیفیکیشن نہیں ہوپائے گی۔ میں اسے سافٹ وئیر میں ڈیزائنز دکھانے لگی۔ وہ جیسے ہی میرے قریب ہوئی کلون کی بھینی بھینی خوشبو میرے ذہن کو تر و تازہ کرنے لگی۔
عمارہ یہ کون سا پرفیوم لگایا ہے تم نے؟
اچھا ہے نا! اس نے چپکتے ہوئے کہا۔
مما کو ان کے بھائی نے سپیشل گفٹ بھیجا ہے فرانس سے۔ میں نے فوراً قبضہ کر لیا۔
تمھارے مزے ہیں بہن۔ ادھر ہمارے رشتے دار ہیں، قسم لے لو جو دس روپے کا عطر بھی گفٹ کر دیں۔
میری بات سن کر وہ ہنس دی، اور ڈیزائن دیکھنے لگی۔
واہ عبیر، یہ کلر کمبینیشن کتنا منفرد ہے۔ پر یہ عبایہ تھوڑا آڈ ہے، یہ منفرد تو ہے لیکن تنگ تنگ سا ہو گا۔
تمھاری بات ٹھیک ہے لیکن میں نے کئی ڈیزائن اس سے ملتے جلتے دیکھے ہیں۔
ٹھیک ہے۔ میں ابھی تمھیں دیکھ کر بتاتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ڈیزائنز کے اندر گھس گئی۔
واہ عبیر! میں نے آج تک ایسے ڈیزائن نہیں دیکھے۔
میری جان! یہ انوکھے آئیڈیاز تم کہاں سے لاتی ہو۔ یہ کہہ کر عمارہ نے مجھے گلے لگانے کی کوشش کی۔
تمھیں معلوم ہے باقی لوگوں کو تو شہزادہ گلفام کے خواب آتے ہیں، مجھے کسی سائنسدان کی طرح فیشن سے متعلق خواب میں آتے ہیں۔
جی جی۔ ۔ اسی لیے آپ کی زندگی میں بھی کوئی شہزادہ گلفام نہیں آتا۔
وہ بھی آ جائے گا اتنی جلدی کیا ہے۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔
ہاں جی ابھی پچھلے سال ہی تو فیڈر پینا چھوڑا ہے ہماری گڑیا نے۔
بکو مت۔ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔
عمارہ میری بچپن کی دوست تو نہیں تھی پر یونیورسٹی کے چار سالوں میں ہم اتنی پکی سہیلیاں بن گئی کہ لگتا ہمیشہ سے ساتھ ہیں۔ وہ اکثر کہتی
میری جان! تم اتنی خوبصورت ہو کہ کھا جانے کو دل کرتا ہے۔ اگر میں لڑکا ہوتی تو تم سے شادی کر لیتی۔
مگر تم جو خود کو اتنا چھپا کے رکھتی ہو، اس کی سمجھ نہیں آتی۔
یار حسن تو ہوتا ہی دکھانے کے لیے ہے۔ مجھے دیکھو! فقیروں میں اپنے حسن کا دیدار بانٹتی ہوں۔ بیچارے لڑکوں کے دلوں کو تھوڑا سکون تو ملتا ہے۔ تمھیں دیکھ کر تو وہ تصور کرتے رہتے ہیں۔ جانے اس نقاب کے پیچھے جانے کیا قیامت ہو گی۔ تم اس معاملے میں اتنی کنجوس کیوں ہو؟
آج ایسا کرو رخ سے پردہ ہٹاؤ اوریونیورسٹی میں قیامت برپا کر دو۔۔
مجھے ہنسی آ گئی، سوری میرا وقت سے پہلے قیامت برپا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
عمارہ بہت جولی اور کانفیڈنٹ تھی۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ بڑوں بڑوں کو سیدھا کر دیتی۔ دل کی بہت اچھی تھی۔ اس کی بچپن کی محبت اس کا کزن ہے جس کے ساتھ اس کی شادی بھی ہو جانی تھی۔ وہ بیچارا ہر وقت عمارہ کے نخرے اٹھاتا رہتا۔ لیکن یہ اسے تڑپا تڑپا کر مزے لیتی۔ بعد میں کہتی، ہائے بیچارے کے ساتھ میں نے کتنا برا کیا۔
ہم دونوں فیشن ڈئزائننگ میں ماسڑ کر رہی تھیں۔ ابھی فائنل پروجیکٹ چل رہا تھا۔ مجھے ہمیشہ سے ہی اسلامی فیشن میں کچھ کرنے کا شوق تھا۔ ایسا فیشن جو حیا والا بھی ہو اور جدید بھی۔ میں ڈیزائن کے ساتھ کلر کمبینیشن میں کچھ جدت لانا چاہتی تھی۔ یہ مشکل کام اور ناکامی کا خطرہ زیادہ تھا۔ پر ہمارے حوصلے بلند تھے۔
عمارہ کا ذہن مارکیٹنگ میں خوب چلتا۔ نئے نئے لوگوں سے تعلق بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ وہ تھیبھی اونچے گھر کی اسی لیے تعلقات بنانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس نے یونیورسٹی آتے ہی سوچا کہ اپنا برینڈ کھولے گی۔ اس کے مقابلے میں مجھ سے یہ میل ملاقات والے کام نہیں ہوتے۔ میں خاموشی سے کتابوں اور رنگوں کی دنیا میں رہنا چاہتی تھی۔ مجھے نئے نئے آئیڈیاز سوجھتے۔ فائنل پروجیکٹ کے لیے ہم نے اسلامی فیشن کو چنا۔ ہمارا پلان تھا کہ پاس آوٹ ہونے کے بعد اسے کمرشلی چلائیں گے۔ ( آہ ہمارے معصوم خیال)
ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا، کہ لڑکیوں کو باہر کام کرنے دیا جائے۔ ابا زیادہ مذہبی تو نہیں مگر عورتوں کے گھر سے نکلنے کے خلاف تھے۔ اورلڑکیوں کی شادی جلدی کر دینے کے حق میں تھے۔ میرے یونیورسٹی کے لیے بھی وہ بہت مشکل سے مانے۔
امی نے دلیل دی کہ کم پڑھی لکھی لڑکیوں کے اچھے رشتے نہیں آتے۔ پر مجھے ڈگری کسی اچھے رشتے کے لیے نہیں چاہیے تھی۔ میں کچھ خوبصورت کرنا چاہتی تھی۔
ہمارے خاندان نے دو ہجرتیں کیں۔ پہلی انڈیا سے مشرقی پاکستان، دوسری مشرقی پاکستان سے کراچی۔ خاندان کے بہت سے لوگ شہید ہوئے، جائدادیں لٹ گئیں۔ دادا کا سارا خاندان بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔ صرف دادی اور ابا ہی بچ پائے۔ دادی بہت ہمت والی خاتون تھیں۔ انھوں نے زندگی کی مشکلات کا بڑی دلیری سے سامنا کیا۔ کسی بھی موقع پر مایوسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ اس زمانے میں روئی کا کاروبار کرتی تھیں، جب اس بزنس میں عورتوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
دادی نے ابا کو پڑھانے کی ناکام کوشش کی۔ ابا میں پڑھائی والی بات ہی نہیں تھی۔ وہ بس کاروبار کرنا چاہتے تھے، تاکہ اپنی ماں کو سکھ دے سکیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے، ان کی ماں مردوں کے درمیاں بیٹھ کر کاروبار کرے۔ وقت کے ساتھ وہ بہت کٹڑ ہوتے گئے۔ امی کوبھی گھر سے باہر نہ نکلنے دیتے۔ بلوائیوں کے ہاتھوں عورتوں کی عزتیں لٹتے دیکھ کر ان کے ذہن میں عجیب سا خوف بیٹھ گیا۔ انھیں ہر بندے کے اندر ایک درندہ نظر آتاجو کسی بھی وقت باہر نکل سکتا ہے۔
دادی کو روحانیت سے شغف تھا۔ ہر وقت تسبیح پڑھتی رہتیں۔ رسول پاکﷺ سے انھیں خاص محبت تھی۔ جب بھی نعت سنتیں بے اختیار رو پڑتیں۔ میرا سارا بچپن انھی کے ساتھ گزرا۔ وہ بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتیں۔ میرا نام "عبیر مستور" بھی انھوں نے ہی رکھا۔ کہتیں اس کا مطلب چھپی ہوئی خوشبو ہے۔ اوراسے ایک خزانے کی طرح چھپا رہنا چاہئے۔ اسی لیے انھوں نے مجھے خود برقع سی کر دیا۔
دادی کی باتیں انوکھی ہوتیں۔ جنھیں سنتے رہنے کا دل کرتا۔ وہ ہر وقت تسبیح پر کچھ پڑھتی رہتیں۔ پوچھنے پر کہتیں بس بس درود شریف پڑھتی ہوں۔ مجھے خیال آتا کہ وہ چھپ چھپ کر کوئی خاص وظیفہ پڑھ رہی ہیں۔ جس سے انھیں بہت بڑی روحانی طاقتیں مل جائیں گی۔ ہر رات سونے سے پہلے مجھ پر کچھ پھونکتیں۔
میرے اوٹ پٹانگ خوابوں پر بہت ہنستیں۔ جب میں نے پینٹنگ شروع کی تو مجھے انسانی چہرہ بنانے سے منع کر دیا۔ اسی لیے میرا فوکس لینڈ سکیپ اور دوسرے ڈیزائنز کی طرف چلا گیا۔
میں لینڈ سکیپس کو اس نظر سے دکھانا چاہتی جیسے خود دیکھتی اور محسوس کرتی۔
میں اس وقت میڑک میں تھی جب دادی کی فوتگی ہوئی۔ میں بہت دنوں تک روتی رہی۔ میری دادی سے محبت بہت گہری تھی۔ وہ ایک طرح سے میری دوسری امی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا وہ کہیں میرے ساتھ ہی ہیں۔
فائنل سمیسٹر میں پروجیکٹ کے علاوہ ایک آدھا سیبجیکٹ ہی پڑھنا پڑتا تھا۔ ہم سارا دن بیٹھ کر مستقبل کے منصوبے بناتیں۔ عمارہ مجھے اکثر ڈیفنس میں اپنے گھر لے جاتی۔ اس کے پاپا ایک ملٹی نیشنل فرم میں سی ای او تھے۔ بڑا بھائی US پڑھنے گیاپھر وہیں سیٹل ہو گیا۔ اس کی شادی پاکستان میں ہی ہوئی۔ کبھی کبھی وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آتا تھا۔ اس کی مما ایک پرائیویٹ سکول سسٹم کی مینجمنٹ میں تھیں۔
اس سارے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے عمارہ بہت کانفیڈنٹ تھی۔ پر اس میں امیر لڑکیوں والی برائیاں نہیں تھیں۔ اسے اپنے ماں باپ کے پیسے اڑانے سے زیادہ اپنے لیے کچھ کرنے کی خواہش تھی۔ وہ اپنی مما کو کچھ کر کے دکھانا چاہتی تھی۔ وہ سوشل گیدرنگز میں جاتی لیکن سپیشل والی پارٹیز میں جانا پسند نہیں کرتی۔ کہتی یہ بے فائدہ ہیں۔ فیک لوگ، فیک باتیں۔ کچھ بھی اوریجنل اور ڈیپ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ہر ٹرینڈ اور فیشن کے پیچھے جاتے ہیں اور تھوڑی دیر میں اس سے بور ہو کر کچھ اور کرنے لگتے ہیں۔
عمارہ کام بھی اپنی زندگی کو معنی دینے کے لیے کرنا چاہتی تھی۔ وہ کسی پر ڈیپینڈنٹ نہیں ہونا چاہتی تھی اور نہ ہی ایسی بیوی بننا چاہتی تھی جو صرف پارٹیز اور شاپنگ کر کے خوش ہوتی ہو۔
میرا بیک گراؤنڈ ایسا نہیں تھا کہ میں اتنی بڑی یونیورسٹی میں فیشن ڈیزائنگ جیسی ڈگری کر سکتی۔ خوش قسمتی سے مجھے مجھے سکالر شپ مل گیا جو اتنا تھا کہ میری پاکٹ منی بھی نکل آتی۔ اسی وجہ سے میں اس یونیورسٹی میں مس فٹ تھی۔ یہاں سب لڑکے لڑکیوں کے کپڑے، گاڑیاں اور شوق ہی احساس کمتری پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔
شروع شروع میں سب نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ جو یونیورسٹی میں اڑن طشتری سے آتی ہے۔ ویسے کراچی کی بسیں کسی اڑن طشتری سے کم بھی نہیں ہیں۔ مجھے روزانہ ایک گھنٹا بسوں کے دھکے کھا کر جانا پڑتا۔ رش کی وجہ سے سیٹ بھی نہیں ملتی، اوپر سے چھچوروں کی حرکتیں۔ اللہ کی پناہ۔
اوپر سے میرا نقاب کے ساتھ عبایہ بھی ان کے لیے ایک عجوبہ ہوتا۔ ٹھیک ہے میں اپنی طرف سے بڑا اچھا عبایہ ڈیزائن کر کے پہنتی۔ پھر بھی بات نہ بنتی، مجھے عجیب عجیب سے کمنٹس سننے پڑتے۔ لوگ بھی کیا کریں پردہ بھی تو صرف غریب اور لوئر مڈل کلاس کے ساتھ منسوب ہو گیا ہے۔ اسی بات نے مجھے مجبور کیا کہ اسلامی فیشن میں کچھ ایسا کروں جسے امیر لڑکیاں بھی فخر سے پہنیں۔
جب عمارہ میری فرینڈ بنی، میری مصیبتیں کم ہونا شروع ہوئیں۔
میری کلاس پرفارمنس سب سے اچھی تھی۔ مجھے نئے نئے آئیڈیاز سوجھتے رہتے۔ جنھیں علمی جامہ پہنانے میں بہت مزہ آتا۔ اسی کام نے مجھے اتنا مگن کیا کہ لوگوں کی نظروں اور باتوں کی کوئی پرواہ نہ رہی۔ زیادہ تر لڑکیاں اور لڑکے ٹائم پاس کے لیے ہی آئے تھے جنھیں زندگی میں کچھ خاص کرنے کا خیال نہیں تھا۔ شاید میری یہی باتیں عمارہ کو پہلے میرے قریب لائیں۔
دھیرے دھیرے ہم پکی سہیلیاں بن گئیں۔
وہ مذاق میں کہتی جس دن تم اپنا نقاب اٹھاؤ گی، مجھے پورا یقین ہے تیس چالیس لوگ تو اسی دن جان سے جائیں گے۔
ویسے اس نقاب کے پیچھے "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے "۔
بکومت۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں، بس دادی نے قسم دی تھی۔ شادی سے پہلے نقاب نہیں اتارنا۔ اب میں دادی سے کیا ہوا وعدہ نہیں توڑ سکتی۔
اچھا تو جی پھر کون ہو گا ہماری دلہنیا کا گھونگٹ اٹھانے والا؟
جو ہماری حور پری کو بغیر دیکھے ہی شادی کے لیے مان جائے گا۔ وہ اگر سوچے کہ نیچے کوئی مونچھوں والی آنٹی ہوئی تو؟
عمارہ کی بچی ! دفع ہو جاؤ تم، کبھی تو اچھی بات کر لیا کرو۔ میں نے عمارہ کو ایک مکا لگایا۔
اچھا نہیں کرتی، یہ بتاؤ تمھارا یہ شہزادہ گلفام ہے کہاں؟ ابھی تک ڈھونڈنا سٹارٹ بھی کیا کہ نہیں؟
یار مجھے نہیں پتا لیکن دادی کہتی تھیں کہ مجھے ڈھونڈنے والا خود ڈھونڈتا ہوا آئے گا۔
اچھا تو دادی نے کوئی نشانی بھی بتائی تھی ہمارے شہزادے گلفام کی۔ تاکہ کراچی کی دو کروڑ آبادی میں ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو۔
یار مجھے خود یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں، جو قسمت میں لکھا ہو گا مل جائے گا۔ اسی لیے میں ان باتوں پر زیادہ پریشان نہیں ہوتی۔
سچ بات یہ تھی، مجھے کبھی کوئی لڑکا پسند بھی نہیں آیا۔ میں نے ہمیشہ خود کو بچا کے رکھا۔ سکول کالج میں کئی لڑکوں نے کوشش کی۔ میں نے کبھی اپنی نظریں نہیں اٹھائیں۔ مجھے بس کسی کا انتظار تھا۔ جب وہ آئے گا تو میرا دل گواہی دے گا کہ یہ وہی ہے۔ آج تک کسی کو دیکھ کر میری دھڑکن تیز ہی نہیں ہوئی۔ اگرچہ یونیورسٹی اچھے خاندان کے امیر لڑکوں سے بھری پڑی تھی اور کئی لڑکیوں کی سیٹنگ یہیں بن گئی۔
اس خواب کے آنے کے بعد میں کچھ بیچین سی رہتی۔ دل کہتا کچھ ہونے والا ہے۔

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.