امریکی دھمکیاں اور ہم

امریکہPluralismکا قائل ہے یعنی دنیا کی تقریبً تمام اقوام کا مسکن ہے ۔ جب امریکہ انگلستان ، بیلجیم ، فرانس اور کئی دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں نے خود کش حملے کئے تو امریکی شہریوں میں بھی نفرت کی آگ بھڑک اٹھی

امریکہPluralismکا قائل ہے یعنی دنیا کی تقریبً تمام اقوام کا مسکن ہے ۔ جب امریکہ انگلستان ، بیلجیم ، فرانس اور کئی دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں نے خود کش حملے کئے تو امریکی شہریوں میں بھی نفرت کی آگ بھڑک اٹھی جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتخابات میں انتخابی نعرہ بنا یا حالانکہ اکثر یورپی اقوام مسلمانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ، جسا کہ شام کے مہاجرین کو جرمنی نے جگہ دی ، عراق کے مہاجرین کو کینڈا میں جگہ ملی ، امریکہ میں ہی دیکھئے تو سٹاریکس کمپنی میں دس ہزار مسلمانوں کو ملازمت دی گئی مگر اسرائیلی اور بھارتی لابی ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک خاص ایجنڈے کیلئے کام لے رہی ہے۔ وہ اسلامی دہشت گردی کے نعرہ کو ٹرمپ کے دماغ سے نکلنے نہیں دیتی وہ اسے فاشسٹ ٹرمپ بنانا چاہتی ہے۔ وہ اسے امریکہ کا گورپا چوف دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ داعش اور القاعدہ کو خود امریکی ایجنسیوں نے جنم دیا پھر ان دونوں کی موجودگی کو امریکہ اسلامی ممالک میں مداخلت کا جواز بناتا ہے۔ اپریل 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کو دہشت گرد کہا اور اس پر حملہ کیا۔ مئی 2017 میں ایران کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ کہا حال ہی میں اوبامہ کی ایران کو امدادکو بیوقوفی قرار دیا۔ جون 2017 میں امریکہ نے قطر کو وارننگ دی۔ اپریل 2017 میں ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو قابل قدر قرار دیا امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے نومبر 2017 میں اعتراف کیا کہ کیٹلن کولمین اور اس کے خاندان کو طالبان کی پانچ سالہ قید سے رہا کروانا پاکستانی افواج کا کارنامہ ہے۔ نومبر 2017 میں ہی امریکی سفیر ڈیوڈ ایم ہیل نے کہا کہ حکومت پاکستان نے گزشتہ چند برسوں کے دوران دہشت گردوں کی بیخ کنی اور پاکستان کو زیادہ محفوظ اور پُرامن بنانے کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں امریکی افواج پاکستان اور اس کی سکیورٹی فورسز کی مسلسل کوششوں اور بے پناہ قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بھی ہم نے خفیہ معلومات کے تبادلے اور آلات و تربیت کی فراہمی کے ذریعے مشترکہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود امریکہ نے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خاتمے افغان طالبان کے خلاف کارروائی، پچھتر مطلوب افراد کی فراہمی کی لسٹ تھما دی اور پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کردیا کیونکہ یہ اصول ہے کہ ہمیشہ طاقتور کمزور کو ڈمور کا کہتا ہے اور کولیشن فنڈ کے اجراءکو ان مطالبات سے جوڑ دیا۔ بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

پاکستان کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم آپ کے حصہ دار ہیں اور وہ بھی بلامعاوضہ کولیشن فنڈ کا آڈٹ کروالو۔ ہماری قربانیوں کا اعتراف کرو۔ قابل کارروائی اطلاعات دو ایکشن ہم کریں گے۔ افغان مسئلے کا فوجی نہیں سیاسی حل نکالو۔ ماسٹر مائنڈ، سہولت کاروں اور حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کو توڑو۔ افغان طالبان کو ہمارے ہاں کسی پناہ گاہ کی ضرورت نہیں۔ ان کے آنے جانے کو روکنے کیلئے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا لائحہ عمل ترتیب دو۔ پاک افغان سرحد کی حفاظتی باڑ کی دوطرفہ تعمیر میں حصہ ڈالو بھارت کو خطے میں قائدانہ کردار کی بجائے عدم استحکام کا ذمہ دار سمجھو کیونکہ حلیفوں میں اعتماد حربی جیت کی لازمی ضرورت ہوتی ہے مگر امریکہ ایک طرف پاکستان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہا ہے اور دوسری طرف افغانی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے زور دے رہا ہے۔ ہمیں دباﺅ میں لانے کیلئے سلامتی کونسل میں بھارت کی جانب سے مسعود اظہر اور حافظ سعید کے خلاف قراردادیں پیش کروا رہا ہے جسے چین نے ویٹو کردیا جبکہ 6.3 ٹریلین ٹن افغانستان اور سنٹرل ایشیا ئی ریاستوں میں تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول اور دسترس کی خواہش امریکہ کو امن کی جانب نہیں آنے دیتی۔ دوسرا یہ کہ چین، روس، ایران اور پاکستان کی مسلسل نگرانی کیلئے امریکہ یہاں اپنا قیام بڑھانا چاہتا ہے پاکستان کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے، اس سلسلے میں 16 اکتوبر 2016 کو مسقط میں چار فریقی مذاکرات بھی ہوئے مگر امریکہ فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اب امریکہ پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک بھی کرنا چاہتا ہے جو اس کی خام خیالی ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ پاکستانی فوج تعلیمی اداروں چرچوں اور درگاہوں پر حملے افغانستان کے ان علاقوں سے ہوتے ہیں جہاں امریکی فوج کی مدد سے اشرف غنی کی حکومت ہے مگر اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے حال ہی میں امریکی تھنک ٹینک نے ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ جنگی خسارے کو افغانستان سے پورا کرے، پینٹاگون نے ٹرمپ کو ایک پلان دیا ہے کہ افغانستان میں رکھی جانے والی فوج کو ہائپرسونک میزائل اُڑانے کی تربیت دی جائے۔ ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل سائبر بریگیڈ افغانستان میں رکھا جائے ۔

یکم جنوری 2018 کو ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر کی امداد دی گئی لیکن پاکستان نے اس امریکی امداد کے جواب میں امریکہ کو جھوٹ اور دھوکہ دیا۔ دہشت گردوں کے خلاف افغانستان میں امریکی جنگ کے ان 15 سالوں کے دوران پاکستان نے امریکہ سے بہت کم تعاون کیا لیکن جن دہشت گردوں کو امریکہ افغانستان میں تلاش کرتا رہا انہیں پاکستان نے اپنے ہان پناہ گاہیں فراہم کیں اور پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد کی فراہمی کا فیصلہ کرنے والے امریکی قائدین کے اس فیصلے کو بیوقوفی اور حماقت قرار دیا۔ جواب میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ 33 ارب ڈالر کا آڈٹ کرالے آڈٹ کسی امریکی فرم سے کروائیں فیس پاکستان ادا کرے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک نے انکشاف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 188 بلین ڈالر نقصان ہوا امریکہ پاکستان کا اب بھی 155 بلین ڈالر کا مقروض ہے جو اس نے ہماری سروسز کے بدلے ادا کرنے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 33 ارب ڈالر کی رقم میں 14 ارب 50 کروڑ ڈالرز کی وہ رقم ہے جو امریکہ کے ساتھ ملکر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اسلحہ اور دیگر ضروریات پر اپنے وسائل سے خرچ کی اس کے حسابات امریکی حکام کو پیش کئے گئے تفصیلی آڈٹ اور کٹوتیوں کے بعد یہ رقم امریکی کانگریس نے منظور کی تو امریکی انتظامیہ نے ریلیز کرکے وہ تمام پاکستانی اخراجات ریفنڈ کئے۔ 2 جنوری 2018 کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر مایوسی ہوئی۔ حالیہ بیانات حقائق سے متضاد ہیں اور اعتماد پر کاری ضرب لگائی گئی ہے چین نے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں عالمی برادری تسلیم کرے ۔ امریکہ آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران وہ نہ صرف پاکستان کی امداد روک سکتا ہے بلکہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں بھی لگا سکتا ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر نہ صرف اعلامیہ جاری کرنا چاہئے بلکہ آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنا چاہئے کہ پاکستان کو کیا کرنا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو روس، چین، سعودی عرب کے ساتھ مشاورت کرکے اس ٹویٹ کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ پاکستان کو ایک مضبوط دفاعی حکمت عملی بناناہوگی۔ افغانستان میں اسرائیلی اور بھارتی ٹریننگ سنٹر کی تصاویر معہ تربیت حاصل کرنے والے شرکاءکی تفصیل عالمی اداروں کو بھیجنا ہوگی۔ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا قلع قمع کرنا ہوگا، اپنی سکیورٹی کی مربوط پلاننگ کرنا ہوگی۔ امریکہ میں پاکستانی لابی کو متحرک کرنا ہوگا، انٹرنیشنل میڈیا پر امریکی استعماریت کے خلاف مہم چلانا ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔ امریکی ڈکٹیشن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مسترد کرنا ہوگا۔ عناد اور شک ختم کرکے افغانیوںاور ایرانیوں کے ساتھ رشتہ اخوت اجاگر کرنا ہوگا۔بقول علامہ اقبال۔
ایک ہی ملت میںگم ھوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغا نی

امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ جنگی ماحول پیدا کرکے سی پیک منصوبہ کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس کوشش کو ناکام بنانا ہوگا ۔ پاکستان میں موجود دہشت گردی کے علمبرداروں کی جڑیں تلاش کرنا ہوں گی۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا نہ صرف اعتراف کرنا ہوگا بلکہ قومی سوچ کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ کلبھوشن یادیو جیسے کئی اور جاسوس خیبرپختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں موجود ہوں گے جنہیں ڈھونڈنا ہوگا اور انہیں عدالتی کٹہرے میں لانا ہوگا تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے طشت ازبام ہوسکے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ ہائپرسونک میزائل کی تیاری، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور 200 گرام وزن والے چھوٹے جاسوس ڈورنز کی تیاری کے معاہدے کرنا ہوں گے، پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے مکمل کرنا ہوگا۔

Amir khan
About the Author: Amir khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.