ستم کے ہاتھ کی تلوار ٹوٹ جائے گی

یہ صورتحال صرف ہندوستان کی ہی نہیں ہر اس ملک کی ہوسکتی ہے جہاں حکمرانی فاشسٹ نظریئے کی تکمیل کیلئے حاصل کی جاتی ہے اور صرف فرقہ پرستی اور بین المذاہب منافرت کو ہوادے کر اصل امور سے نظریں چرائی جاتی ہیں ۔

پنجاب بینک میں ہوئے حالیہ ۱۱۳۰۰؍کروڑکے غبن نے جہاں ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے وہاں عوامی سطح پر موجودہ بی جے پی سرکار کی نااہلی اور غیر محفوظ طریقہ ٔ کار پر بے اعتمادی کی ایک تیز لہر دوڑادی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک بغیر کسی قانون اور ضابطے کے بس گھسٹ رہا ہے ۔اتنے بڑے گھوٹالے کے بعد سےہر کوئی حیرانی میں مبتلا ہے کہ آخر کس طرح ایک بینک منیجر اور اس کے چند ساتھیوں نے اس فراڈ کو انجام دیا ،کہا جاتا ہے کہ یہ خردبرد تقریباًسات سالوں سے جاری تھی لیکن کسی کو قطعی اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ لوگ اتنا بڑا فراڈ کرنے والے ہیں حالانکہ اس ضمن میں پی این بی کے ڈائرکٹر نے ۲۰۱۶میں ہی وزارت مالیات کو رپورٹ بھیجی تھی کہ اس تعلق سے اعلا پیمانے پر تفتیش کی ضرورت ہے لیکن ان کی درخواست پر کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جیسے یہ کوئی اہم بات ہی نہ ہو ۔اس بڑے غبن کے ماسٹر مائنڈ سابق ڈپٹی منیجر گوکل ناتھ شٹی ہیں کتنی حیرت کی بات ہے کہ وہ شخص سات برسوں سے نیرومودی کی کمپنی کو فائدہ پہنچاتا رہالیکن حکومت اور بینک عملے کو اس واقعے کی خبر تک نہ ہوئی ۔ شٹی سی بی آئی کی حراست میں ہے اس کے یہاں سے برآمد دستاویزات اور دیگر ثبوتوں کی روشنی میں سی بی آئی معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہے ۔ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ سارا گھوٹالہ لیٹر آف انڈرٹیکنگ ( ایل اویو )کے ذریعے کیا گیا ہے ۔اس تعلق سے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخریہ ایل اویو کیا ہے ۔دراصل ایل اویو کسی بین الاقوامی بینک یا کسی ہندوستانی بینک کی بین الاقوامی شاخ کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر بینک کمپنیوں کو ۹۰سے ۱۸۰دنوں تک کیلئے قلیل مدتی قرض دیتا ہے اور اسی لیٹر کے ذریعے کوئی بھی کمپنی دنیا کے کسی خطے سے یہ رقم نکال سکتی ہے ۔لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ قانون کتنا ہی سخت کردیا جائے بدعنوان افراد غبن کیلئے راستہ نکال ہی لیتے ہیں ۔یہاں بھی یہی ہوا اس ایل او یو کا غلط استعمال پی این بی کے افسران نے اس کمال ہوشیاری سے کیا کہ سات سالوں تک کسی کو خبر نہ ہوسکی ۔اخبارات کے بموجب قریب سات سال کے اندر ڈیڑھ سو سے زائد فرضی ایل او یو نیرومودی کی کمپنی کے نام جاری کئے گئے ۔شٹی نے اس جعلسازی کیلئے سوئفٹ سسٹم کا استعمال کیا ۔سوئفٹ سسٹم کے ذریعے ہی بینک ان رقومات کو منتقل کرتا ہے اس میں ایک خاص کوڈ استعمال کیا جاتا ہے ۔شٹی نے یہ ہوشیاری کی کہ اس نے سوئفٹ سسٹم کا استعمال کرنے کے بعد ان تفصیلات اور رقومات کی انٹری بینک کے داخلی سسٹم میں نہیں کی ۔بینک کا داخلی سسٹم سوئفٹ سے مربوط نہیں تھا لہذا اس تمام لین دین کا ریکارڈ بینک کے سسٹم میں گیا ہی نہیں ۔شٹی خودہی میسیج بھیجتا اور خودہی اس کا ریویو کرتا تھا ،اس طرح وہ لیٹر آف ٹیکنگ بار بار جاری کرتا رہا ۔جانچ کے دوران گرفتار افسروں نےاس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اس طرح دیئے جانے والے ہر لون پر کمیشن طے تھا ۔سی بی آئی کے مطابق اس جعل سازی میں پی این بی افسران کے علاوہ باہر کے بھی افراد شامل ہوسکتے ہیں ۔شٹی اور دیگر افسران اس وقت سی بی آئی کی گرفت میں ہیں لیکن نیرومودی ملک چھوڑچکا ہے ،اسے واپس لانے کیلئے حکومت کے ذمے داران کیا کررہے ہیں اس تعلق سے لوگ لاعلم ہیں ۔ابھی اس گھوٹالے کی خبر گرم ہی تھی کہ ایک اور خبر آگئی ۔روٹو میک پین کمپنی کے مالک وکرم کوٹھاری پرپانچ سرکاری بینکوں سے آٹھ سو کروڑ روپئے قرض لے کر فرار ہونے کا الزام ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کانپور میں واقع روٹو میک پین کمپنی کے مالک نے جن بینکوں سے بطور قرض رقم لی تھی ان میں الہ آباد بینک ، بینک آف انڈیا ، بینک آف بڑودہ ، انڈین یونین اوورسیز بینک اور یونین بینک آف انڈیا شامل ہیں اور ان بینکوں نے اتنی بڑی رقم بینک کی شرائط اور قانون کو بالائے طاق رکھ کردے دی ۔وکرم کوٹھاری نے ایک عرصہ گزر جانے کے بعد نہ سودکی رقم دی نہ ہی اصل رقم واپس کی اور اب صورتحال یہ ہے کہ کانپور کے مال روڈ پر واقع سٹی سینٹرمیں اس کمپنی کے آفس میں قفل لگا ہوا ہے نہ آفس کھل رہا ہے نہ ہی وکرم کوٹھاری کا کچھ پتہ چل رہا ہے کہ وہ کہاں ہے ۔ظاہر ہے کہ وہ فرار ہوچکا ہے ۔یہ صورتحال ہمارے اس ملک کی ہے جسے کبھی سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ،اب اس کی معیشت بری طرح سے ڈانواڈول ہوچکی ہے ۔

یہ صورتحال صرف ہندوستان کی ہی نہیں ہر اس ملک کی ہوسکتی ہے جہاں حکمرانی فاشسٹ نظریئے کی تکمیل کیلئے حاصل کی جاتی ہے اور صرف فرقہ پرستی اور بین المذاہب منافرت کو ہوادے کر اصل امور سے نظریں چرائی جاتی ہیں ۔بی جے پی سرکار اپنے قیام سے ہی ایسے غیر ضروری اور مہلک امور میں لگی ہوئی ہے کسی بھی حکومت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملک کو جنگل راج نہ بننے دیا جائے اور امن و انصاف کے ذریعے ایسا ماحول قائم کیا جائے کہ یہاں بسنے والاہر شخص خوشحال ہو اور یہی خوشحالی ملک کی ترقی میں اہم کردار نبھاتی ہے ،لیکن یہاں سب کچھ ٹھپ پڑا ہے ،کرپشن اور بدعنوان ممالک کی فہرست میں یہ ملک ۴۳ویں درجے پر ہے جو کہ تمام ہندوستانیوں کیلئے لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔اخبارات کی سرخیاں سیا ہی کے بجائے خون سے لکھی جارہی ہیں کسی دن کا اخبار ایسا نہیں ہوتا جو خوش کن خبریں سنائے ہر طرف قتل و غارت گری کا بازارگرم ہے ،مہنگائی آسمان چھورہی ہے اور ذرائع آمدنی محدو د ہیں اسی عدم توازن کے سبب لوٹ مار ،جرائم ،رشوت خوری اور بدعنوانیوں کا طوفان ساری جمہوری قدروں کو پامال کررہا ہے ۔گھرپھونک تماشا دیکھ کا مطلب اب تیزی سے سمجھ میں آنے لگا ہے ۔مودی حکومت کی چار سالہ کارکردگی فرقہ پرستی اور ہندومسلم منافرت سے بھری پڑی ہے کبھی گائے کے نام پر کبھی بابری مسجد کے نام پر ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ پورا ملک خون میں نہا جائے ۔آر ایس ایس اور بی جے پی کی ان چالوں کو عوام خوب سمجھ چکی ہے ،اسے روٹی کپڑامکان اور وقار و عزت کی زندگی مطلوب ہے مٹھی بھر مفاد پرستوں کا رعب اسے متزلزل نہیں کرسکتا ۔جمہوری طرز حکومت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت خواہ کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو اسے صرف پانچ ہی سال ملتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن میں اسے ذلیل ہوکر جانا پڑتا ہے ۔بینکوں کا کرپشن ، فرقہ وارانہ سیاست ،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی یہ ایسے عوامل ہیں جسے کوئی امن پسندانسان برداشت نہیں کرسکتا ،ملک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو امن و انصاف کی حکومت چاہتے ہیں ۔۲۰۱۹کا پارلیمانی الیکشن یہ ثابت کردے گا کہ لوگ امن پسند اور جمہوری حکومت چاہتے ہیں یا فاشسٹ، اذیت پسند اور غیر جمہوری طرز سلطنت،رہے نام اللہ کا ۔

Waseel Khan
About the Author: Waseel Khan Read More Articles by Waseel Khan: 126 Articles with 95046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.