سی پیک ڈیفنس ایگریمنٹ

پاکستان اور چین کی دوستی عالمی سیاست کے تمام اتارچڑھاؤ کے باوجود ایک مظبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ موجود ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی اعتماد اور دوستی میں مزید استحکام پیدا ہواہے ،حالات نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ دونوں ممالک اچھے اور مشکل حالات میں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں آج کے دور میں جہاں تعلقات کی بنیادیں صرف وقتی اورسیاسی مصلیحتوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔ وہاں پاک چین دوستی نے عالمی سیاست کو ایک نئے اندازسے دیکھنے اور لکھنے کی قابل قدرمثال قائم کی ہے اس لازوال دوستی کی حالیہ مثال پاک چائنہ اکنامک کوریڈور ہے جوچین اور پاکستان کی حکومت مل کر بنارہے ہیں جس سے چین کابراہ راست رابطہ گوادر بندرگاہ کے ساتھ منسلک ہوجائے گااور اس گوادر بندرگاہ سے ایک دوسرے کے ساتھ نئے انداز میں سرگرم تجارتی رشتے قائم ہونگے ،سی پیک منصوبے کی تجویز کس کی تھی اور اس پر عملدرآمد کن حالات میں اور کس نے کیا اس پر ایک الگ سے تحریرلکھی جاسکتی ہے مگر اس تحریر کے بنیادی مقاصد سی پیک منصوبے کی حفاظت کے گرد گھومتے ہیں ،سی پیک میں چین نے دنیا کی سب سے زیادہ فنڈنگ کی ہے اور یہ ہی با ت بہت سے دشمن زہنیت کے ملکوں کو بری طرح کھٹک رہی ہے ،اس پروجیکٹ سے دونوں ممالک یعنی پاکستان اور چین کی اقتصادیات کو جہاں فائدہ پہنچے گا وہاں اس سے لاکھوں عام لوگوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہونگے جس سے پورے علاقے میں خوشحالی اور ترقی کے عمل کو فروغ ملے گا، اگر اس ہی اقتصادی کوریڈور کو افغانستان اور ایران سے بھی براہ راست ملادیا جائے تواس علاقے میں اقتصادی عمل کو مزید ترقی حاصل ہوگی اور اس علاقے میں گوادرایک بہت بڑی اقتصادی بندرگاہ بن جائے گا،سی پیک دراصل جنوبی ایشیا ء کے ممالک میں باہمی رابطوں کا پروگرام ہے ،اس کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا بلکہ اس سے خطے کے دوست ممالک کی تجارتی سرگرمیوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔سی پیک سے پاکستان اور چین کے درمیان اہم شعبوں میں توانائی ، زراعت ،صنعت وحرفت،سیاحت سمیت متعدد دسرے شعبوں کو ترقی ملے گی وہاں اس پروجیکٹ سے پاکستان چین افغانستان سنٹرل ایشیاء اور ایران کو بھی فائدہ ملتا ہے،اس کے علاوہ ان منصوبوں سے دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرینگے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایسے ممالک بھی ہیں جو اس ترقی کے عمل کو کبھی قبول نہیں کرنا چاہتے،جب سے چین نے سی پیک کا اعلان کیا اس وقت سے لیکر آج تک بہت سے تنگ دل ممالک اس منصوبے میں نقائص نکالنے کے ساتھ اس کو روکنے کے نت نئے معاملات پراپنے غور وفکر میں موجود ہیں کہ کسی نہ کسی انداز میں اس منصوبے کو تکمیل سے پہلے ہی روک دیا جائے ،یہ ممالک کبھی نہیں چاہیں گے پاکستان چین اکنامک کوریڈروسے یہ دونوں ممالک دنیا کی اقتصادیات میں نمایاں حاصل کرلیں لہذا یہ ممالک جن میں ہندوستان سرفہرست جس کے چین اور پاکستان دونوں سے تعلقات خراب ہیں،اس کے علاقے امریکا اور اسرائیل جیسے ممالک بھی اس منصوبے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگرچہ کھلم کھلا اس منصوبے کی مخالفت نہیں کرتے لیکن خاموشی سے امریکا جہاں ہندوستان کو اس منصوبے کے خلاف شے دے رہاہے وہاں امریکانے اس اقتصادی کوریڈور کے خلاف منفی پروپیگنڈہ چلارکھاہے ،مگر یہ یقین رکھنا ہوگا جیسے ہی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کے قریب پہنچے گا ویسے ہی بھارت اور امریکا کی مخالفت میں بھی تیزی آنا شروع ہوجائے گی جس کی نوعیت کسی بھی لحاظ سے بدل سکتی ہے فی الحال یہ ممالک پاکستان اور چین پر مختلف انداز سے دباؤ جاری رکھیں ہوئے ہیں،سوال یہ ہے کہ اس اقتصادی راہ داری کی حفاظت کے لیے ہمیں کون کون سے اور کس ا نداز میں اقدامات کو اٹھانا چاہیے ؟۔یعنی کونسی وہ کمزوریاں یا کمیاں رہ گئی ہے جسے اگر کرلیا جائے تو اس منصوبے کی تکمیل کو بغیر کسی ڈر کے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتاہے ،اس ممکنہ صورتحال کی وجہ سے جہاں ایک طرف یہ ضروری ہوگیاہے کہ پاکستان اور چین ملکر ترجیحی بنیادوں پراس اقتصادی کوریڈورکی بروقت تکمیل کریں وہاں اس منصوبے کے خلاف اٹھنے والی ممنکہ سازشوں کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کو بھی مزید بڑھائیں،اور جس انداز میں پاکستان اور چین کے درمیان جوہری معاہدہ جو پہلے سے ہی موجود ہے اسی انداز میں خصوصاً اس منصوبے کے لیے پاک چین ڈیفنس ایگریمنٹ کے طرز پرایک دفاعی معاہدہ عمل میں لایا جائے اس معاہدے میں دونوں ممالک کی مشترکہ فورس بنانے کے ساتھ بہت سے دفاعی اقدامات پر بات کی جاسکتی ہے ، جس کے زریعے نہ صرف ان عناصر کی نگرانی کی جائے جو چین اور پاکستان کے ساتھ اس منصوبے خلاف شرارتیں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ مشترکہ طورپر دشمن ممالک کو یہ باور کروادیا جائے کہ پاکستان اور چین ہر حالت میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک لیکر جائیں گے اور گڑبڑ کر نے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اس ضمن میں اگر کوئی مخالفت یا شرارت ہوئی تودونوں قوتیں ملکر اس کا مقابلہ کرینگی ۔اور اس سلسلے میں ایک اہم تجویز ہے کہ پاکستان اور چین آپس میں ملکر ایک دفاعی معاہدہ کریں جس سے واضح طور پریہ کہا گیا ہو کہ ایک دوسرے کے عمومی دفاع میں تعاون کے علاوہ اس کوریڈور کے زریعے اقتصادی کارروائیوں کی ہرطرح سے حفاظت کی جائیگی،یعنی اس منصوبے کے لیے اندرونی دہشت گردی یا بیرونی دفاعی دباؤ میں پاکستان اور چین مل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرینگے اس دوران اگر ضرورت پڑے تووہ دفاعی امور پر نہ صرف مشورہ کرکے آگے کی جانب بڑھیں گے بلکہ اس ضمن میں کوئی دفاعی اقدامات کی ضرورت ہوئی تو ان اقدامات کواٹھانے کے لئے کسی بھی لحاظ سے گریز نہیں کیا جائے گا۔یہ ایک ایسا دفاعی معاہدہ بن سکتاہے جو کسی ملک کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ صرف اور صرف اپنی اقتصادی اور سیاسی خود مختاری کا دفاع ہوگا ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان اور چین اس علاقے میں ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کچھ ممالک اس مقصد میں روڑے اٹکانے کا کام کرینگے تو اس دفاعی معاہدے کے تحت پاکستان اور چین ضرورت کے مطابق اپنی سیاسی وسفارتی و اقتصادی حفاظت کے لیے فوجی اقدامات کرینگے ۔پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبہ ہر لحاظ سے ایک منفرد منصوبہ ہے جس سے چین جنوبی ایشیاؤسطی ایشیااور مشرق وسطیٰ سے آگے جنوبی افریقہ تک ترقی اور خوشحالی کے راستیں کھل سکتے ہیں جس کے مزید فوائد آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ رونما ہوتے رہینگے اور یہ ہی چیز ملک دشمن عناصر کو اچھی طرح سے سمجھ میں آچکی ہے جو کبھی یہ نہیں چاہینگے کہ پاکستان اور چین اقتصادی لحاظ سے ان تمام ممالک سے کہیں آگے نکل جائیں۔ پاکستان گزشتہ دوددہائیوں سے جن مسائل کا شکار ہے ان میں سرفہرست دہشت گردی کا مسئلہ ہے جس سے نکلنے کے لیے پاکستان ہر طرح کی جانی ومالی قربانیوں کی بھاری قیمت چکا رہاہے،ایسے میں اس قسم کے منصوبے ترقی اور خوشحالی کی جانب پہلے قدم کے مترادف ہیں لہذا اس اقتصادی راہ داری کا ہر حال میں مکمل ہونا بہت ضروری ہوگیاہے۔ختم شد

Ayaz Memon Moti Wala
About the Author: Ayaz Memon Moti Wala Read More Articles by Ayaz Memon Moti Wala: 4 Articles with 4379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.