لاش کی واپسی

دیارِ غیر میں مرنے کا خوف بھی کوئی چیز ہے ورنہ دیارِ غیر میں کئی دہائیاں گزارنے والوں کی لاشیں ملکِ عزیز کی طرف روانہ نہ ہوا کریں۔ دیارِ عزیز بلا شبہ مسائل کی اماج گاہ ہے لیکن وطنِ عزیز کی محبت پھر بھی دیارِ غیر کی ساری رونقوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ہمارا بہت سا قیمتی سرمایہ وطنِ عزیزکی حدود سے باہر خدمات انجام دے رہا ہے۔ بہت سوں نے وہاں شادیاں بھی رچائی ہوئی ہیں اور اپنے ملک کی دوشیزاؤں کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ زندگی ایسی ہے کہ اس کے مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے ، صرف یہ ہوتا ہے کہ مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ مسائل نئی شکل میں پھر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ شاید بیرونِ ملک جانا بھی ایسا ہی ہے ؛ یہ بھی مسائل کی تبدیلی ہے خاتمہ نہیں۔

مشرق کے دن اور مغرب کی راتیں بہت بارونق ہوتی ہیں۔ امریکہ دنیا کی بے شما ر آنکھوں کا خواب بن کر بے شمار دلوں کو دنیا بھر سے اٹھا کر اپنے خواب نگر میں لے گیا ہے۔ اس نے کتنے ہی دلوں کی جڑیں کاٹیں اور کتنے ہی نئے پودے ساری دنیا سے منگوا کر امریکی سر زمین میں لہرانے کے لئے چھوڑ دیئے۔ لیکن جو درخت اپنی جڑیں مشرقی علاقوں میں چھوڑ آئے تھے ان کے لئے یہاں لہرانا تو درکنار ، مرنا بھی پریشان کن ہو چکا تھا۔ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کے نام نہاد روشن مستقبل کے لئے اپنے آبائی گھروں کو خیر باد کہہ تو دیا تھا لیکن شام ڈھلتے ہیں وہ امریکی کی فضاؤں سے بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پلک جھپکنے میں مشرقی ہواؤں میں پہنچ ہوتے۔ ان کی آنکھوں میں آنے والے خواب اپنے ماں باپ، اپنے پرانے گھروں، اپنے بچپن اور اپنے دوستوں اور اقربا کے ہی ہوتے جن سے سے ان کا بس اب الیکٹرونک میڈیا سے ہی رابطہ ہو سکتا تھا۔ قدرتی رابطے سے زیادہ کوئی بھی مصنوعی رابطہ موٗثر اور پائیدار نہیں ہوتا۔ کہاں کسی کو سامنے بٹھا کے بات چیت کر لینا اور کہاں بس آواز سننا یا تصویر دیکھنا۔ قدرتی قربت مصنوعی طریقے سے پیدا نہیں کی جا سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاجی سردار علی کو امریکہ ایک سانس اور ایک نظر کے لئے بھی پسند نہ تھا۔ بچے بار بار مجبور کرتے کہ امریکہ جانا ہے۔ و ہ اسے بے شمارسبز باغ دیکھاتے کہ وہاں کی زندگی کے اپنے ہی نظارے ہیں۔ وہاں جانا تو دنیا کے ہر شخص کا خواب ہے۔ پاکستان میں رہ کر وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ جو باپ اپنے بچوں کو منزل پر پہنچانے سے پہلے ہی بوڑھا ہو چکا ہو اسے شاید اپنی ناکامی چھپانے کے لئے اپنے نوجوان بچوں کی بات ماننے کی زیادہ مجبوری ہوتی ہے ورنہ وہ انہیں کہہ سکتا تھا کہ انہیں کیا مجبوری ہے؟ اور جہاں ہو ں ہی مجبوریاں وہاں سے نکلنا بھی آسان یا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور پھر مغرب اور امریکہ ، نوجوانوں کی جنت ،کا فریب بھی مشرقی نوجوانوں کو دن رات اپنے شکنجے میں جکڑے رکھنے والی طاقت ررکھتا ہے۔سردار علی کی بیوی ،خورشید بیگم، بھی ایسی صورتِ حال میں اولاد کی ہمدرد ثابت ہوتی ہے اور ایسے لگتا کہ وہ اپنے شوہر سے اپنی ساری عمر کی شکستوں کا بدلہ ، اولاد کی اس نئی سر اٹھانے والی طاقت کو اپنے ساتھ ملا کر، لے رہی ہو۔ ویسے بھی عورت جب شادی کی صورت میں اپنے ماں باپ کے گھر کو خیر باد کہتی ہے تو اس کا بدلہ اپنے شوہر ِسے لینے میں اپنا کتھارسس پاتی ہے۔ اور وہ بچاری اولاد کی محبت اور خوشی کے لئے بھی تو اپنا آپ قربان کرنا سیکھ چکی ہوتی ہے۔ حاجی سردار علی کی شریک حیات بھی اس معاملے میں اس کی مخالف بن گئی اور اپنی رائے کا سارا وزن اولاد کے پلڑے میں ڈال کر اس کو اکیلا پیچھے چھوڑ جانے کی دھمکی دے کر امریکہ چلے جانے کا علم بلند کر دیتی۔
حاجی سردار علی اس بات پر بضد رہا کہ امریکہ جانے کی بجائے اس کے بیٹے پاکستان میں رہ کر کوئی چھوٹاموٹاکام کر لیں۔ پردیس آخر پردیس ہی ہوتا ہے۔ اپنا ملک اپنا ہوتا ہے۔
کون سا اپنا ملک، جہاں دن رات لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے؟ ایک بیٹے نے جواب دیا
جہاں آئے روز نئی نئی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں ، کسی دن ہمارے گھر بھی ہو گئی پھر ہوش آئے گی! دوسرے بیٹے نے غصے سے کہا۔
جہاں بڑے بڑے بم دھماکے ہو رہے ہیں ، گھر سے باہر جاؤ تو پتہ نہیں ہوتا کہ واپس گھر آنا نصیب ہو گا کہ نہیں! سردار علی کے سب سے چھوٹے بیٹے نے بھی اپنی آواز بھائیوں کی آواز کے قافلے میں شامل کر دی۔
میرا خیال ہے بچے ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ ہمیں بھی امریکہ چلے جاتا چاہیئے۔ اتنی دنیا جا بھی چکی ہے۔ ہم بھی وہاں کہیں رہ لیں گے۔ سردار علی کی بیوی بھی بچوں کی طرف مائل نظر آئی۔
سردار علی کے گھر میں آئے روز یہ بحث اور مکالمہ چلتا ہی رہتا۔ اسے ہر روز نئی نئی دلیلیں سننے کو ملتیں۔ ایک دن اس کا بیٹا فرمان علی اپنے ایک دوست کو اپنے ساتھ گھر لے آیا کہ وہ اس کے والد کو سمجھا ئے کہ امریکہ جانے اور وہاں رہنے کے کیا کیا فوائد اور مزے ہیں۔ فرمان علی کے دوست نے سردار علی کو پورے دو گھنٹوں کا لیکچر دے کر اسے امریکہ جانے پر راضی کر لینے کی بھر پور کوشش کی لیکن سردار علی کا دل اس کی باتوں میں آنے والا بالکل نہ تھا۔ سردار علی اس نوجوان کی باتوں کو اپنے استدلال سے تو رد نہیں کر سکتا تھا لیکن ان باتوں کو نہ ماننے میں وہ مکمل طور پر آزادبھی تھا۔ اور وہ اپنی آزادی استعمال کرنے میں کسی مصلحت کا شکار بھی نہ ہو اکرتا تھا۔
سردار علی تو محلے کے لوگوں سے اور کبھی کبھی عارف کے چائے کے ہوٹل سے بھی اس قسم کی باتیں سننے کو ملتیں کہ امریکی ڈالر کی پاکستانی روپے پر برتری کیسے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کس طرح ہر ملک امریکہ کو سپر پاور ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اور کس طرح پاکستان کو امریکی امداد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح کی باتیں اس کے دل میں امریکہ کی دھاک بیٹھانے میں کوئی کسر تو نہ چھوڑتیں لیکن وہ بندہ ذرا دیسی ماحول کا تھا۔ اسے مغربی دنیا کی من مانی کی آزادی اور بے راہ روی اور نوجوانوں کی عیاشی کی زندگی جس کا وہ امریکی زندگی میں یقین رکھتا تھا کہ وہاں یہی سب کچھ ہے، اسے امریکہ کا دیوانہ بنانے کی بجائے امریکہ کا بیگانہ بنا دیا کرتیں ۔
ہوا یہ کہ سردار علی کی بیوی کا ایک دور کا کزن امریکہ سدھار گیا ۔ یہ خبر تو سردار علی کے لئے ایسے ہی تھی جیسے ناگا ساکی پر ایٹم بم گرنے والی بات پھر سے ہو گئی ہو۔ اس کے برادر ان لا کا امریکہ جانا ہی تھا کہ گھر میں دن رات امریکہ امریکہ ہونے لگی۔ اس کے بچوں کو تو جیسے اب صبر کرنا زہر پینے کے متراد لگنے لگا کہ اب تو وہ کسی قیمت پر بھی پاکستان نہیں رہیں گے۔ اب تو اگر ان کا باپ ان کی مدد نہیں بھی کرتا تو وہ لوگوں سے ادھار مانگ کا امریکہ جانے کے خواب کو عملی رنگ ضرور دیں ۔ انہوں نے سردار علی کے منہ پے کہہ دیا کہ اگر موت آنی ہے تو آ ہی جانی ہے۔ جس کی جہاں لکھی ہے وہاں آنی ہے اگر تمھاری موت امریکہ میں لکھی ہے تو وہاں ہی آئے گی۔ ساری خدائی ایک طرف جورو اکا بھائی ایک طرف۔ اب تو اس بھائی کے ساتھ گھر کی پوری فیملی بھی مل چکی تھی۔ اب تو کوئی طرف دار رہ ہی نہیں گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار علی کو امریکہ گئے دو سال ہو گئے تھے، اس کے بچے وہاں کے ماحول میں ایسے رچ بس گئے تھے کہ جیسے پیدا ہی وہاں ہوئے ہوں۔ ان کو اپنے پرانے گھر کی یاد خواب میں بھی کبھی نہ آئی تھی۔ان کو ایسے لگتا جیسا جیتے جی ہی جنت مل گئی ہو ۔ وہ اب کبھی پاکستان واپس نہ آنا چاہتے تھے۔ سردار علی کی بیوی یہاں آ کے اتنی خوش نہیں تھی لیکن وہ اپنی اولاد کے آگے بے بس تھی۔ یا اس کی خوشی اپنی اولاد کی خوشی میں تھی جو کہ ایک مشرقی ماں کا خواب اور نظریہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کے دل میں جھانک کر کوئی دیکھ پاتا تو اس کو یہاں کا ماحول اور لوگ بالکل پسند نہ تھے۔ خاص طور پر مختصر لباس پہننے والی لڑکیوں اور عورتوں کو تو وہ دیکھنا بھی نہ چاہتی تھی۔ اسے اپنا پرانا گھر اور ماحول یاد تو آتے تھے لیکن وہ اپنی اولاد کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھتی تو اسے وہاں اپنا آپ کھویا ہوا دیکھائی دیتا۔ اس کی اولاد کی آنکھوں میں امریکی خواب تھا جس میں ترقی کے سوا کوئی اور پیغام نہ تھا۔ اس میں یادوں کی کہکشاؤں کو سمیٹ کر شاہراہیں بنانے کا ہنر سیکھا جاتا ہے۔ جذبات کی جگہ سوچوں کی حکمرانی اختیار کی جاتی ہے۔ اس میں ماضی کے قبرستان پر بلڈوزر چلا کر مستقبل کے بنگلے تعمیر کئے جاتے ہیں۔جس میں بوڑھوں کو اولڈ ہومز کے مسکین بنا کر گھروں کو اس کی سستی اور کراہت سے پاک کر دیا جاتا ہے۔ جہاں مشین کے ساتھ مشین بن کے حتیٰ کہ اپنا آپ بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ لیکن مشرق کے بوڑھے یہ خواب نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی آنکھیں ایسے خواب دیکھنے کی عادی جو نہ تھیں۔
سردار علی کی بیوی جب موقع پاتی اس سے اظہارِ ہمدردی کر لیتی اور دونوں میاں بیوی اپنے آپ کو جیسے ایک غیر قانونی قید میں محسوس کرنے کے علاوہ کچھ کر بھی نہ سکتے تھے۔ اسے اب سردار علی کے امریکہ نہ آنے کے خیال میں دانائی نظر آنے لگی تھی لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب واپسی کی راہیں نہ صرف تنگ بلکہ تاریک بھی ہو چکی تھیں۔ بچوں کے پاس کئی کئی دن بات کرنے کو بھی وقت نہ نکلتا اور وہ اپنے کام میں اس قدر’ رُج‘ گئے تھے کہ ان کے آپس میں مشورے ہونے لگے کہ کون سا اولڈ ہوم زیادہ مناسب رہے گا۔اس کی بیوی اس صدمے میں بڑی تیزی سے تنزلِ صحت کا شکار ہو گئی۔ اور پھر چند دن کسی ہسپتا ل میں گزارنے کے بعد جلد ہی امریکہ کی قیدِ ترقی سے آزاد ہو کر پاکستانی روحوں کے جہان میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی کے داغِ مفارقت دے جانے کے بعد سردار علی کی تنہائی تو آسمان سے باتیں کرنے لگی تھی۔ وہ دیواروں سے باتیں کر کر کے تھک چکا تھا۔ اب وہ کسی طرح سے واپس پاکستان پہنچ جانا چاہتا تھا ۔ لیکن اس کا ذہن سوالوں کی گرد میں جوابات ڈھونڈھنے سے قاصر رہتا۔ واپس پاکستان وہ کس کے پاس جائے گا۔ اس کا بھائی بھی دنیا سے جا چکا تھا اور اس کی بھابھی پہلے ہی دنیا سے کوچ کر چکی تھی۔ اب وہ واپس جا کر کس کے کندھوں کا بوجھ بنے۔ اس کی دیکھ بھال کون کرے، اس کے اخراجات کون اٹھائے۔ اس طرح کے کئی ایک سوال اس کے سر کا درد بن کر اس کے سر پر منڈلاتے رہتے۔ اسے اپنے دوست احباب بہت یاد آتے ، جن کے ساتھ بیتے ہنسی مذاق کے لمحات اسے یاد آتے ہی رلا دیتے۔ اسے اپنی حالت ہندوستان کے آکر مغل فرمان روا بہادر شاہ ظفر سے بھی زیادہ محرومی والی لگتی کہ جس کے پاس کوئی ایک بھی شخص اس کی بات سننے والا نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک دن بیٹھے بیٹھے ایک کاغذ لے کر اس پر اپنی وصیت کے چند جملے لکھ ڈالے۔ کہ جب وہ مرے تو اس کی لاش پاکستان میں اس کے محلے کے قبرستان میں دفن کی جائے۔ اسے اب اپنے محلے کے قبرستان سے بھی محبت ہونے لگی تھی ۔یہ وصیت اس نے اپنے کمرے میں پڑی چھوٹی سی میز پر یوں رکھ دی کہ اس پر کسی نہ کسی کی نظر ضرور پڑ جائے۔ اور ایک شام اپنے بیٹوں سے کچھ وقت مانگ کر اس نے ان کے آگے اپنی اس آخری خواہش کا اظہار کر دیا۔ جسے اس کے بچوں نے بے دلی سے سن تو لیا لیکن اسے تسلی دی کہ’ وہ ابھی کافی دیر تک زندہ رہے گا۔ وہ ایسی باتیں نہ سوچا کرے‘۔
لیکن زندگی کا دارومدار انسان کے ہاتھ میں کب ہے۔ کون جانے کب بلاوا آ جائے اور اس بلاوے کے آگے انکار کی گنجائش بھی نہیں۔
آخر ایک شام سردار علی کا دل ایک لمبی اڑان بھرنے کو کر رہا تھا کہ کہیں دور اڑ جائے۔ کہیں دور اڑ جائے ۔ کہیں دور اڑ جائے۔ شاید اس کی روح کا اپنے قفسِ عنصری سے کہیں دور پرواز کر جانے کا وقت آ گیا تھا جسے اس کیامریکہ کی غلامی سے آزادی بھی کہا جا سکتا تھا۔
صبح اس کے بیٹے اپنے اپنے کام پر جانے سے پہلے پریشان ہوئے کہ ان کا پاپا آج اپنے کمرے سے نکلا نہیں۔ کمرہ کھولا گیا تو ان کا پاپا کمرے میں نہیں تھا لیکن اس کا جسم بستر پر ہی پڑا تھا جس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جسے اس نے اپنے سینے پر لٹایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ’ مجھے پاکستان میں میرے محلے کے قبرستان میں دفن کر نا۔ آپ کا مجھ پراحسان ہو گا ‘!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند روز بعد کوٹ غلام محمد خان قصور کی جامع مسجد میں اعلان کیا گیا کہ میاں سردار علی گلی جامع مسجد والے قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے ہیں ان کا جنازہ ان کے بھائی میاں باغ علی مرحوم کے گھر سے نمازِ ظہر کے بعد اٹھایا جائے گا اور ان کی نمازِ جنازہ خواجہ دائم الحضوری ؒوالی جناز گاہ میں ادا کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285218 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More