خط کوفی میں لکھے شام کے بازار کا حال

 خالد جا وید نے جب اپنی شا عری میں یہ مصر عہ لکھا تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ ہو گا کہ چند سالوں بعد وہی شام کشت وخون کی نظر ہو جا ئے گا جس کے با زار کی رو نقیں دنیا کو خیرہ کر تی تھیں جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا شاعر اپنی شا عری میں حسن و جمال کے لئے مثال دیا کرتے تھے آج وہ با زار آگ و خون ،آہوں وسسکیوں سے گو نجتا ہے اور اس کی دھمک سن کر بے ضمیروں کے کا نوں میں جوں بھی نہیں رینگتی ہے وہ ادارے جن کاقیام دو سری جنگ عظیم کے بعد صرف اس لئے عمل میں آیا کہ دنیا میں امن ہو سلا متی ہو آنے والی نسلیں ایک آرام دہ پر سکون دنیا دیکھ سکے لیکن افسوس!وہ کو ئی ذمہ داری پوری طرح انجام نہ دے سکا دنیا کے امن پسند اس تبا ہی و بر با دی پر گر یہ فغاں ہیں کہ ریشم و اطلس و کمخواب کے طلسم اب ٹوٹ چکے اب تو جا بجا کو چہ و با زاروں میں خاک وخون میں لتھڑے ہو ئے جسم نظر آتے ہیں موت کا سنا ٹا کھنڈر ہو اایک شہر جس کی کو ئی عما رت سلامت نظر نہیں آتی گھروں کو بے نا و نشان کر دیا گیا ہے کتنے فوت ہو ئے کہاں کون لا پتا ہو گیا؟کچھ نہیں معلوم ! سر دی ،بھوک ،بیما ری اور زخموں سے نڈھا ل بد قسمت شامی زخموں سے چور ہیں لاکھوں افراد جان بچانے کے لئے قریبی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں بہت سے مغربی ممالک اپنی سر حدوں کوخادار تار لگا کر بند کر ہے ہیں ایک عجیب قیامت صغریٰ ہے اور اس سب کے ذمہ دار انسانوں کے حیوانی رو یئے ہیں۔

جنگ کی ہو لنا کی دیکھ کر فا تح سپہ سالار اپنے گھوڑے سے اترکر تلوار پھینک دیتاہے رنجیدہ ہو کر جنگ سے تا ئب ہو تا ہے اس وقت تک اس کے فو جیوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کر لی تھی سوال پیدا ہو تا ہے کہ قبضے ا ور اقتدار کی ہوس محض زمین کے قبضے اور اختیارات کے حصول کا نام ہے انسان کس قدر خود غرض ہو جا تا ہے وہ انسانی جا نوں کو ختم کر نے سے در یغ نہیں کر تا اسے بوڑھے، جوان، عورتیں اور نہ وہ معصوم بچے نظر آتے ہیں جنھوں نے اس دنیا میں ابھی قدم ہی رکھا ہے ایسے سینکڑو ں بچے جن کی آنکھوں میں خوف، دہشت بھری ہے سخت سردیوں میں خانہ بدوشی کے یہ دن کس طرح گزارتے ہوں گے اس کیفیت میں شامی بچے یہ سوال کر تے ہیں کہ ہما را قصور کیا ہے ؟ اس دنیا کو ہما رے لئے جہنم بنا دیاگیا بہن، بھا ئی، ماں ،با پ اور دوست سب کس نے چھین لئے ایک پر امن خوبصورت دنیا کو دیکھنے کا حق صرف طاقت وروں کے لئے ہے زندگی کی آسائشوں میں جینے کا حق ترقی یا فتہ اقوام کے لئے ہے جدید سا ئنس کی ترقی کے ثمرات پر انہی کا اختیار ہے شام کے معصوم بچے نا کردہ گنا ہوں کی سزا بھگتنے کے لئے بھیجے گئے ہیں منو بھائی نے ایک با ر فرما یا تھا کہ یہ دنیا ہم نے آنے والی نسلوں سے ادھار لی ہے جسے ہمیں سود سمیت خو بصورت بنا کر لوٹا نی ہے لیکن! ہم تو ان سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں ؟ کیاطا قت و مفادات کے اس کھیل میں دنیا کو پھر زما نہ جا ہلیت میں پہنچا دیا جا ئے گا ۔

636ء میں مسلمان یہاں فا تح کی حیثیت سے دا خل ہو ئے ایک طویل عر صے تک اموی اور پھر عبا سی حکمر انوں نے یہاں حکومت کی انیسویں صدی میں یہ عثمانی سلطنت کے زیر نگوں رہا لیکن 1918ء میں فر انسیسی اور بر طا نیہ کے مشترکہ حکومت نے قبضہ کر لیا لیکن بعد میں فرانس نے پورے طور پر اسکا قبضہ سنبھا ل لیا بس ایک نام نہاد کٹ پتلی مقامی سربراہ بر سر اقتدار تھا شا می قوم اس غلا می سے بیزار تھی اس دوران شام میں مزا حمتی کا روائیاں بھی ہو تی رہیں ایک قابض اور محکوم ملک کے درمیان جو ناروا پا لیساں اپنا ئی جا تی ہیں شام بھی ان سب کا شکا ر رہا اسی دوران جنگ عظیم شروع ہو ئی فرانس کی توجہ اس پر مبذول رہی لیکن اس نے شام پر پا بندیاں اور سختیاں بھی مزید تیز کر دی تھیں جس سے شامی با شندوں میں آزا دی کی جد وجہد میں تیزی آ ئی شام کو 17 اپریل 1946ء میں آزاد ی مل گئی لیکن وہاں عر صہ تک فوجی حکو مت اور بغاوتیں جا ری رہیں 23فروی 1966ء کو حا فظ لاسد نے صدر امین حفیظ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اس سے قبل وہ تین سال تک وزیر دفاع رہے تھے اقتدار پر قا بض ہو نے کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک کئی ریفر ینڈم کرواکر کر ملک پر قا بض رہے مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی جس میں گولا ن کی پہاڑی کا کچھ حصہ آزاد کر وایاصدر حا فظ ایک طویل عر صے تک بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگئے اور اب ان کے بیٹے بشرالسد شام کے سربراہ ہیں شام میں اس وقت مورثی حاکمیت قائم ہے اسد حکومت کو اس وقت اپنے ملک میں خانہ جنگی اورمزاحمت کا سامنا ہے جس میں زیادہ ترذمہ دار اسد حکومت کی پالیسیاں رہی جس نے وہاں کے عوام کو ان سے متنفر کر دیا اسد حکومت نے مسائل کو حل کر نے کے بجا ئے فوج کے ساتھ مل کر سختی سے کچلنے کی کو شش کی 2011ء میں جب اسد حکومت کے خلاف شامی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا تو تما م دنیا کے جمہوریت پسند وں نے اس کی حما یت کی اس لئے کہ اسد حکو مت کی مطلق النانی میں روز بروز اضا فہ ہو تا جا رہا تھا فوج کے ہا تھوں عوام کو اذییتں پہنچا ئی جا رہی تھی جیلیں عوام سے بھر نے لگی تھیں لیکن کچھ عر صے بعد اس لڑائی میں انتہا پسند گروہ نظر آنے لگے جو اسد حکومت کے خاتمے اور اپنی حاکمیت کے خواب دیکھ رہی تھی یہ انتہا پسند جما عتیں اپنی نظر یئے اور سلوک سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی صف میں شا مل ہیں ان میں داعش کے نام سے کون واقف نہیں جس کے رہنما ابو بکر بغدادی نے خودکومسلمانوں کا خلیفہ قرا دے کر سب سے بیعت کا حکم دیا حزب اﷲ کی امن ملیشیا بھی اس جنگ میں پیش پیش ہے عرب ممالک پر امن تصفیہ کروانے میں کو ئی کردار ادا نہیں کرنا چا ہتے نہ ہی اسد حکومت قبول کر نے میں دلچسپی رکھتے ہیں ایسی کو ئی تجویز نہیں جس سے ریا ست کو متحد کیا جاسکے تر کی اپنی سر حد کے قریب اسد حکومت کو برداشت نہیں کرنا چا ہتی تو سعودی بھی ترکی کا حامی ہے سعودی اور ترک اسدحکومت کو مٹانے پر سارا زور لگا رہے ہیں تو روس اور ایران اسد کا ساتھ دے رہی ہیں ان عرب ممالک کا ساتھ دینے کو بر طا نیہ،ا مریکہ اور روس بھی پیش پیش ہے شام پر اپنے مفا دات کے لئے فضا ئی بمباری بھی جا ری ہے یہ ممالک ا پنے حملے کے الگ الگ جواز پیش کر رہے ہیں لگتاہے کہ ائندہ کئی بر سوں تک شام کی سر زمین اسی طرح خون سے سرخ رہے گی حریف و حلیب ممالک د ور سے اس بازی کوجیتنے کی کوشش کر تے رہیں گے سودو زیاں کے اس کھیل میں سب زیادہ گھا ٹا ان بے بس وبے گناہ شامی عوام کاہے جو نہ اپنے وطن میں رہ سکتے ہیں نہ انھیں کہیں اور جا ئے پناہ نصیب ہے سو چئے کیا انسان نے ھتیار اسی لئے بنا ئے تھے کہ آبادیاں نیست ونابود کر دی جا ئیں جنگ و جنون کی حو صلہ افزائی ہو زندگی کو ختم کر دیا جا ئے سیاست نے سا ئنس کو ا نسانی فلا ح کے لئے استعمال کر نا تھا اہل اقتدار نے اپنی ہوس پر اسے وار دیا یمن و شام کا نوحہ پوری انسانیت کے لئے با عث شرم رہے گا اس نئی صدی میں رونما ہو نے والا یہ سا نحہ ہم سب کی انسانیت پرسوال اٹھاتا رہے گا۔

Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148270 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.