آزاد کشمیر کی آواز کون سنے گا؟

بظاہر مہاراجہ کشمیر سے بنیادی انسانی حقوق کی جد و جہد کے لیے چلنے والی تحریک نے بغاوت کی شکل اختیار کر لی جس کے نتیجے میں چار اکتوبر سن سنتالیس کو آزاد ریاست جموں کشمیر کی عبوری انقلابی حکومت قائم ہوئی جس کے پہلے صدر محمد انور گلکار بتائے جاتے ہیں۔ اسکا پہلا صدر مقام پلندری تھا۔ چوبیس اکتو بر کواس حکومت کی از سر نو تشکیل کر کے سردار ابراہیم خان کو صدر اور مظفرآباد کو صدر مقام بنایا گیا۔ وقت کے آقاؤں نے انور گلکار کا نام ہی من پسند اور من گھڑت تاریخ سے خارج کر دیا اور چوبیس اکتوبر ہی کو یوم تاسیس کا نام دیا جانے لگا۔اس ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی۔ صدر۔ وزیر اعظم۔ عدلیہ فوج اور پولیس بنا کر اسے پورے جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت اور باقی ماندہ جموں کشمیر کی آزادی کے لیے بیس کیمپ کا نام دیا گیا۔ آزاد کشمیر کے پہلے جمہوری صدر کے ایچ خورشید نے اسے حقیقی معنوں میں ایک نمائندہ حکومت بنانے کے لیے پاکستان سے آزاد کشمیر کو تسلیم کروانے کی کوشش کی ۔ اس حقیقت کے باوجود کے کے ایچ خورشید قائد اعظم محمد علی جناح کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے ایک قابل اعتبار شخصیت تھے اور بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کا انہیں پورا اعتماد حاصل تھا پاکستان کے خفیہ حکمرانوں نے آزاد کشمیر کے موقع پرست سیاستدانوں کی مدد سے کے ایچ خورشید کو کمزور کر کے آزاد ریاست جموں کشمیر کو اس قدر محدود کر دیا کہ اس کے اصل حکمران وزارت امور کشمیر اورپاکستان سے مسلط کیے گے لینٹ افسران بن گے اور آزاد کشمیر کی اسمبلی بھی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی طرح کٹھ پتلی بن گئی۔ اس نام نہاد قانون ساز اسمبلی کے ذریعے ہی ایکٹ 1974 کے تحت غلامی کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ آزاد کشمیر کا کوئی باشندہ اس نام نہاد آزاد ریاست جموں کشمیر کا چیف سیکرٹری۔ آئی جی پولیس۔ فنانس سیکرٹری اور اکاؤنٹنٹ جنرل نہیں بن سکتا۔ وزیر امو کشمیر کی وہی حیثیت ہے جو ہندوستان میں تاج برطانیہ کے نمائندہ وائسرائے ہند کی تھی۔ آزاد کشمیر کے الیکشن امیدواران کی فہرست پاکستان کے ایک میجر سے ہوتے ہوئے براستہ جی سی او مری وزیر امور کشمیر کو حکومت کی تشکیل کے لیے دی جاتی ہے۔ امیدوار کو میرٹ کا پہلا سارٹفکیٹ ارمی میجر دیتا ہے جس کی شرط یہ ہے کہ کسی امیدوار کی اپنی کوئی رائے نہیں ہو گی صرف حکم کی تعمیل کرنا ہو گی جسے سستے داموں بکنے والے کشمیری سیاستدان بخوشی قبول کر تے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے قدرتی وسائل اور ڈیموں کی رائلٹی پر انکا کوئی اختیار نہ ہو گا۔ جموں کشمیر کی آزادی کا مطلب الحاق ہندوستان یا الحاق پاکستان ہو گا اور جموں کشمیر کے حوالے سے بین القوامی امور کی ذمہ داری مکمل طور پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہو گی جو ابھی تک خود پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خد و خال ظاہر نہیں کر سکا کیونکہ اصل اختیار تو خیر امریکہ بہادر کے پاس ہی ہے لہذا خود پالیسیوں کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے!

تحریک آزادی کا تقاضا تھا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا مشترکہ سیٹ اپ بنا کر ایک ایسی ماڈل ریاست بنا دیا جاتا جسے دیکھ کر بھارتی مقبوضہ کشمیر والوں کے اندر امنگ پیدا ہوتی کہ وہ بھی اسکا حصہ بنیں لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دوریاں پیدا کر کے ان دونوں خطوں کو بے بسی کی تصویر بنا دیا گیا ہے۔ حال ہی میں کوٹلی یونیورسٹی میں سفارتکاری اور انسانی حقوق پر لیکچر کے دروان ایک طالب علم نے مجھے سوال کیا کہ ماڈال ریاست سے آپکی کیا مثال ہے تو میں نے کہا کہ اس سے مراد ایک اچھا تعلیمی۔ صحت روزگاراور عدالتی نظام ہے لیکن یہاں یہ ساری چیزیں ایک شریف اور عام شہری کے لیے ناپید ہیں اور سیاسی وفاداری کے بغیر کوئی ادارہ ایک چپراسی بھی بھرتی نہیں کر سکتا۔ عدالتی کیس غیر ضروری طور پر اتنی طوالت اختیار کر جاتے ہیں کہ فریق مر جاتے ہیں اور کیس چلتے رہتے ہیں۔ زکوۃ غرباء و مسکین کے لیے ہوتی ہے لیکن یہاں صاحب ثروت اور حکمران طبقہ خو دلے جا کر یورپ میں علاج کرواتا ہے جبکہ تعلیم سب سے زیادہ مہنگی ہو گئی ہے ۔ آزاد کشمیر میں تعلیم حاصل کرنے والے گلگتی طلباء پوچھتے ہیں کہ اگر وہ کشمیری ہیں تو انکے لیے کوٹہ سسٹم کیوں رکھا گیا ہے اور ریاستی باشندوں کی لسٹ سے وہ کیوں فارغ ہوئے ہیں۔ معاہدہ کراچی کو مسترد کیوں نہیں کیا جاتا۔ گلگتی بہن بھائیوں کا اب آہستہ آہستی علم ہو رہا ہے کہ ہمارے لیے یہاں آزاد کشمیر میں شہد کی نہریں نہیں بہہ رہئیں۔ ہم بھی انکی طرح استحصال کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران ہمارے محافظ نہیں بلکہ لوٹ مار کا ایک ٹولہ ہے۔

چالیس فی صد غیر ملک سے پیسہ کشمیری بھیجتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی ہوائی اڈہ ہے نہ اپنا بنک۔ آزاد کشمیر نام کا ایک بنک ہے لیکن پاکستان کے سٹیٹ بنک نے اس پر ایسی شرائط عائد کر رکھی ہیں کہ وہ آن لائن بنکنگ نہیں کر سکتا جسکی وجہ سے کاروباری کشمیری اس بنک کے ساتھ بزنس نہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ ریاستی اخبارات بھی اظہار رائے کی آزادی کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتے ۔رواں پاک۔ بھارت گولہ باری کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی تسلی بخش رپورٹنگ نہیں ہو سکی۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انکی رپورٹیں آئی ایس پی آر کی پابندیوں کی نذر ہو رہی ہیں جسکا موقف ہے کہ جانی و مالی نقصانات کی خبریں علاقہ میں خوف و ہراس پیدا کریں گی۔ دنیا کی نظر میں تو پاک۔ ہند کے درمیان چار جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان جموں کشمیر کے محاز پر غیر اعلانیہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی جسکی وجہ سے اایل او سی کے قریب رہنے والے دونوں اطراف کے کشمیر ہر وقت زہنی و جسمانی ازیت کا شکار رہتے ہیں۔ میں نے اقوام متحدہ کے نمائندوں سے ملاقات کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں پاکستان کے مقامی کمانڈر کو درخواست دے کر ملنا پڑے گا اور اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کہتا ہے کہ جب تک ہندوستان اور پاکستان راضی نہ ہوں تب تک مسلہ کشمیر کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا ہے۔ المختصر کہ ایک تحصیل اور تھانے سے لے کر اقوام متحدہ تک کوئی کشمیریوں کی آواز سننے والا نہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کا مسلہ پھر بھی سیاسی بنیادوں پر کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر اٹھایا جا رہا ہے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اپنی حکومتیں اپنے عوام کی آواز اور مسائل دبا رہی ہیں لہذا انکے پاس ان حکومتوں کے ظالمانہ رویوں کے خلاف سڑکوں پر آنے کے علاوہ کیا چارہ کار رہ گیا ہے۔ انکی آواز اگر کوئی عالمی سطع پر اٹھا سکتا ہے تو وہ صرف تارکین وطن ہیں لیکن وہ بھی اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتے جب تک وہ کشمیری اور پاکستانی جماعتوں کی شاخیں ختم کر کے ایک کمیونٹی کے طور پر متحدہ منظم نہیں ہوتے گویا ہم کشمیریوں کو ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے-

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.