صراط المستقیم قسط نمبر ٦

زیبو جب مین روڈ پر بس سے اتری تب شام کے چھے بج چکے تھے ۔۔۔۔ نرم گرم ہوائیں چلنے لگی تھیں ورنہ پورے دن ہی گرمی بہت تھی ۔۔۔۔۔ بس سے اتر کر گھر تک کا راستہ پیدل پچیس سے تیس منٹ کا تھا ۔۔۔۔ آج اسکول میں فنکشن ہونے کی وجہ سے وہ ویسے ہی بہت لیٹ ہوگئی تھی ۔۔۔۔ اس لئے بھی وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ مین روڈ سے گھر تک کا راستہ اوباش اور لوفر لوگوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔۔۔ بے باک اور چچورے لوگوں کی نظروں کا سامنا ہر پیدل چلتی عورت کو کرنا پڑتا تھا ۔۔۔۔ سارا دن بچوں کے ساتھ سر کھپانے کے بعد واپسی میں استقبال کرتی غلیظ اور گندی نگاہیں اسے کوفت میں مبتلا کر دیتی تھیں ۔۔۔۔ اپنی بہن نجو کی طرح وہ منہ پھٹ اور لڑاکا ہرگز نہیں تھی ۔۔۔۔ اس کی کم گوئی پر اکثر نجو چڑ بھی جایا کرتی تھی ۔۔۔۔۔ جہاں بولنا ضروری ہوجاتا وہاں بھی اس کی چپ نجو کا پارہ آسمان پر چڑھنے کا سبب بن جاتی ۔۔۔۔ مگر وہ کیا کرتی اللہ نے فطرت ہی ایسی بنائی تھی اس کی ۔۔۔۔۔ خیر جب وہ گھر کے قریب پہنچی تب تقریباً ساڑھے چھے بجے کا ٹائیم ہوچکا تھا ۔۔۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے ادھ کھلے دروازے سے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے اماں کو پریشانی سے ٹہلتے پایا ۔۔۔۔

کیا ہوا اماں ۔۔۔۔ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں آپ ۔۔۔۔

زیبو پتہ نہیں یہ نجو کہاں چلے گئی ساتھ میں چھیکے کو بھی لے گئی ہے ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں اماں آجائے گی واپس ۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔۔

ماں کی بات سن کر اپنی بڑی سی چادر کو سر سے اتارتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔۔ اور اندر اس چھوٹے سے کمر ے کی طرف بڑھ گئی جو اس کا اور نجو کا مشترکہ کمرا تھا ۔۔۔۔ کپڑے تبدیل کر کے کمرے سے باہر نکلی تو اماں کو دروازے کے باہر جھانکتے پایا ۔۔۔۔۔ وہ اس چھوٹے سے خستہ حال گھر کے واحد چھوٹے سے غسلخانے کے اندر جاتے جاتے رک گئی تھی اور ماں کو پلٹ کر دوبارا دیکھا تو ان کے چہرے سے جھلکتی پریشانی نے اس کے قدم روک لئے ۔۔۔۔

اماں پلیز پریشان نہ ہوں آجائے گی ۔۔۔۔ آپ نجو کو اچھی طرح سے جانتی ہیں ۔۔۔۔ پھر بھی پریشان ہو رہی ہیں ۔۔۔۔

اسی لئے تو پریشان ہو رہی ہوں ۔۔۔ اس لڑکی کی کوئی کل بھی سیدھی ہے بھلا ۔۔۔۔ سارے محلے کے لڑکوں سے تو پنگے لے کر بیٹھی ہے ۔۔۔۔۔ کلو کی ماں کو بھی نہیں بخشا اسے کلن خالہ کہہ کر پکارتی ہے ۔۔۔۔

صالحہ بیگم کی نگاہیں بدستور دروازے کے باہر لگی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ اور اسی پوزیشن میں شکایتی انداز میں بیٹی سے بول رہی تھیں ۔۔۔ وہ ان کی بات سن کر مسکرا دی تھی ۔۔۔۔ مگر کچھ کہا نہیں ۔۔۔۔۔ کہتی بھی کیا ۔۔۔ اس کی بہن تھی ہی ایسی، ٹام بوائے ٹائپ ۔۔۔۔ وہ بھی ماں کے ساتھ وہیں دروازے پر ہی کھڑی ہوگئی تھی کہ اچانک کمرے کے اندر پرس میں رکھا اس کا فون بج اُٹھا ۔۔۔۔ وہ ماں کو وہیں چھوڑ کر کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔ بیڈ پر پڑا پرس اُٹھا کر سیل فون نکالا تو کسی ان نون نمبر اسکرین پر بلنک کرتا دیکھ کر چونک گئی تھی ۔۔۔۔ کان سے لگا کر ہیلو کہا ہی تھا کہ نجو کی کپ کپاتی آواز اُبھری تھی ۔۔۔

زز زیبو ۔۔۔۔ تم جلدی آجاؤ پلیز مم چھیکا ۔۔۔۔۔

کک کیا ہوا چھیکے کو ۔۔۔۔ تم کہاں سے بول رہی ہو ۔۔۔۔۔

ہوسپٹل سے ۔۔۔۔ پلیز آجاؤ جلدی ۔۔۔۔

کون سے ہوسپٹل ۔۔۔ پلیز مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔ جلدی بتاؤ ۔۔۔۔

وہ بہن کی آواز سن کر پریشان ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔ پھر اس پر اس کا کپکپاتا لہجہ اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کا سبب بن رہا تھا ۔۔۔۔۔

زکریا ہاسپٹل ۔۔۔۔

زکریا ہاسپٹل ۔۔۔ تم وہاں ہر کیسے پہنچ گئیں ۔۔۔۔

پلیز زیبو ۔۔۔۔

وہ اس کے دوبارہ سوال کرنے پر جھنجلائے لہجے میں روتے ہوئے بس اتنا ہی بولی تھی ۔۔۔ اور فون بند کردیا ۔۔۔۔ ادھر زیبو کے ہاتھ پیر پھولنا شروع ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ اس کے دونوں بہن بھائی ہسپتال کیسے پہنچ گئے تھے وہ بھی شہر سے باہر ایک مہنگے ترین ہاسپٹل ۔۔۔۔ مگر یہ ان باتوں کو سوچنے کا وقت نہیں تھا ۔۔۔۔ تیزی سے تہہ کر کے ابھی رکھی اپنی چادر الماری سے نکال کر دوبارہ سر پر اچھی طرح اوڑھ کر اپنا پرس اُٹھا کر باہر کمرے سے نکل آئی ۔۔۔۔

اماں ۔۔۔۔ مجھے ابھی کہیں جانا ہے ۔۔۔۔۔ کیا آپ میرے ساتھ چل سکتی ہیں ۔۔

ہیں ! یہ اچانک تمہیں کیا کام یاد آگیا ۔۔۔۔ پتہ ہے ناں شام کو تمہارے ابا باہر نکلنے سے منع کرتے ہیں ۔۔۔۔

وہ جو بدستور باہر چھوٹی بیٹی کی راہ تکتے دروزے سے لگی کھڑی تھیں نے پلٹ کر بڑی بیٹی کو دیکھا تھا ۔۔۔۔

اماں پلیز ۔۔۔۔ ابھی آپ چلیں میرے ساتھ ۔۔۔۔

تمہاری بہن بھی ابھی تک نہیں آئی ہے واپس گھر اور تم ۔۔۔۔۔

اماں پلیز چلیں ۔۔۔۔۔ ہم چھیکے اور نجو کے لئے ہی جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

وہ ان کی بڑی سی چادر انہیں تھماتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ تو ایک لمحے کو حیرت سے دیکھا تھا اسے پھر ۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ سے لے کر چادر اوڑھ لی ۔۔۔۔

کہاں ہیں وہ لوگ ۔۔۔۔

ہسپتال میں ۔۔۔

انکے پوچھنے پہ جب اس نے انہیں بتایا تو وہ بیٹی کو حیرت اور پریشانی سے دیکھنے لگیں ۔۔۔

××××××××××

چھیکے میرے بھائی آنکھیں کھولو پلیز ۔۔۔۔

وہ بے سدھ پڑے چھیکے کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ تبھی ایک اجنبی آواز پر چونک کر سر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔۔

آپ ٹھیک ہیں ناں ۔۔۔۔

کک کون ہیں آپ ۔۔۔۔۔

پلیز گھبرائے نہیں ۔۔۔۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔۔۔۔

کپکپاتے شکی لہجے میں پوچھا تھا تو ڈاکٹر ظہیر نے اسے تسلی دیتے ہوئے بولا تھا اس سے ۔۔۔۔ ڈاکٹر لفظ پر چونکی تھی ۔۔۔۔۔

آآ آپ ڈاکٹر ہیں ۔۔۔۔۔ پلیز دیکھیں میرے بھائی کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔

وہ روہانسے لہجے میں ان سے بولی تھی ۔۔۔۔ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر وہ بے ہوش چھیکے پر جھک گئے تھے ۔۔۔۔

انہیں فوراً ہسپتال لے جانا پڑے گا ۔۔۔۔

پھر وہ گاڑی سے چھیکے کو ہاتھوں پر اُٹھائے باہر نکل آئے تھے ۔۔۔۔ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر وہ بھی باہر نکل آئی تھی ۔۔۔۔ ذرا دور پڑے ہائے ہائے کرتے کلو اور شاہد پر نظر پڑی تو غصے اور نفرت کی نگاہ ان پر ڈالتی آگے بڑھ گئی ۔۔۔ دل تو چاہا تھا ان پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردے مگر اس وقت بے سدھ بھائی کی فکر اسے زیادہ تھی ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ظہیر تیزی سے چھیکے کو اُٹھائے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے تھے وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے تیزی سے چلتی ہوئی ان کی گاڑی تک پہنچی تھی ۔۔۔

آپ پلیز پیچھے سیٹ پر بیٹھ جائیں میں آپ کے بھائی کو پھر پیچھے لٹا دیتا ہوں ۔۔۔۔

ان کی بات سن کر سر ہلاتی ہوئی وہ پیچھے بیٹھ گئی تو بہت احتیاظ سے چھیکے کوپچھلی سیٹوں پر نجو کی مدد سے لٹا دیا تھا ۔۔۔ اس نے بھائی کا سر اپنے زانوں پر رکھ لیا تھا ۔۔۔۔

چچ چھیکے کی ناک سے خون بہہ رہا ہے ۔۔۔۔ کک کان سے بھی ۔۔۔

جی جانتا ہوں آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔ اللہ سب خیر کرے گا ۔۔۔۔

وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے ایک نظر پیچھے بے سدھ پڑے چھیکے پر ڈالی تھی اور واپس گاڑی کا رخ اپنے ہسپتال کی طرف موڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔

××××××××××××××

مگر صاحب یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ گرو جی کو بہت برا لگے گا ۔۔۔۔۔ کہیں ہمیں نکال باہر ہی نہ کردے ۔۔۔۔

شبنم بولی تو وہ سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔

کیا آپ چاہتے ہیں شہباز خود کشی کی دوبارہ کوشش کرے ۔۔۔۔۔ اور بار بار کرتا رہے ۔۔۔۔

اللہ نہ کرے صاحب ۔۔۔۔

تو پھر جیسا میں کہہ رہا ہوں ۔۔۔ ویسا ہی کرئے ۔۔۔۔ اور یقین کیجئے کہ انشاء اللہ اب جو بھی ہوگا وہ آپ کے شیباز کے حق میں ہوگا ۔۔۔۔

بات کرنا بہت آسان ہے صاحب ۔۔۔۔ ابھی جذباتی ہورہے ہیں آپ ۔۔۔۔ مگر کل جب دنیا والے اُنگلی اُٹھائینگے نا ں آپ پر تب ہمیں کوڑا کرکٹ کی طرح گھر سے باہر پھیک دو گے ۔۔۔۔

میں دعوے نہیں کرتا ۔۔۔عمل پر یقین رکھتا ہوں ۔۔۔۔ مجھ پر نہیں اللہ پر بھروسہ رکھئے بس ۔۔۔ اور اس پر یقین کر تے ہوئے میرے ساتھ چلئے ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔

مگر سر ۔۔۔۔

اب میں تم سے اگر مگر کی کہانی نہیں سن نا چاہتا شہباز ۔۔۔۔ جو میں کر رہا ہوں وہ ایک استاد کی حیثیت سے کر رہا ہوں بس ۔۔۔۔ بس اب آپ دونوں میرے ساتھ چل رہے ہیں ۔۔۔۔۔

وہ قطعی لہجے میں بولے تھے دونوں سے اور شہباز اور شبنم ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔

×××××××××

گرو جی ایک ہفتہ ہوگیا ۔۔۔۔ یہ شبنم اور شیلا (شہباز) کب واپس آئینگے ۔۔۔۔

دو دن بات کا کہا تھا ۔۔۔ اے پارو ذرا نمبر تو ملاؤ شیلا کا ۔۔۔۔۔

رومی کو جواب دیتے دیتے ایک دم پاس ہی بیٹھی چنے چباتی پارو سے بولی تھی ۔۔۔۔۔

جی گرو جی ابھی ملاتی ہوں ۔۔۔۔۔

پارو اپنا سستا سا سیل فون اُٹھا کر شیلا کا نمبر ڈائل کر نے لگی ۔۔۔۔مگر نمبر آف جا رہا تھا ۔۔۔۔۔

گرو جی کوئی اُٹھا نہیں رہا ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں میں خود چلے جاتی ہوں ۔۔۔۔۔ اچھا کیا نام تھا پارو ہسپتال کا ۔۔۔۔

زکریا ہوسپٹل ۔۔۔۔

چل رومی میرا وہ مردانا جوڑا نکال دے ۔۔۔۔ اس حلیہ میں تو کوئی مجھے اندر گھسنے بھی نہیں دے گا ۔۔۔۔

جی گرو جی ۔۔۔۔

رومی کہتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور گرو جی کسی گہری سوچ میں ڈوبی غیر ارادی طور پر سامنے پڑے طوطے کے پنجرے کو گھورے جا رہی تھی ۔۔۔۔

×××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 215605 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More