ارپندر مشرا: رتبہ بڑھا تو ساتھ میں رسوائی بڑھ گئی

ارپندر مشرا وزیر اعظم کے دفتر میں ذاتی سکریٹری کی حیثیت سے زیر ملازمت ہیں ۔ ان کا اپنا نام وزیر اعظم سے مشابہت رکھتا ہے اور خاندانی نام تو چیف جسٹس سے مشترک ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کی سفارش کی ہو لیکن ان کا باہمی تعلق اور دوستی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ عدالت عظمیٰ میں جب زلزلہ آیا اور چار معمر ترین ججوں نے چیف جسٹس کے وقار کو ہی کٹہرے میں لاکھڑا کیا تو پہلی بار ہندوستان کی عوام کو پتہ چلا کہ ایک مشرا جی پردھان سیوک کی سیوا پر بھی مامور ہیں۔ پہلےزمانےکے لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ جمہوریت نے عملاً رہنما کوعوام کا خادم بنا دیا ہے لیکن جب سے وزیراعظم نریندر مودی نے پردھان سیوک کا مکھوٹا چہرے پر چڑھایا ہے پتہ چلا جن تنتر میں جنتا کے سیوک کا جنتا سے اپنی سیوا کرانا ان کا جنم سدھّ ادھیکار (پیدائشی حق) ہے۔ عوام بھی اس خدمت گذاری کو اپنا سوبھاگیہ (خوش بختی) خیال کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چار ججوں نے جب عدلیہ کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھا یا تو حکومت نے اس سے اپنا دامن جھٹک لیا۔ آزمائش کی گھڑی میں سرکار کے نگاہ پھیر لینے سے چیف دیپک مشرا کا چراغ پا ہوجانا عین تقاضائے فطرت ہےکیونکہ مودی سرکار کی خوشنودی کے لیے انہوں نے اپنے عہدے کا پاس و لحاظ تک نہیں رکھا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے کیمرے جب چیف جسٹس کو تلاش کر رہے تھے مشرا جی اچانک ایک ایسے غار میں روپوش ہوگئے کہ جہاں جیو کا سگنل تک نہیں جاتا تھا ۔ اس صورتحال میں ممکن ہے ارپندر کے اندر برادری کی ہمدردی و غمخواری عود کرآئی ہو اور اس نےانہیں دیپک کے دروازے پر پہنچا دیا ہو ؟ سرکار چونکہ اس بابت حقیقت کی پردہ پوشی کررہی ہے اس لیے قیاس آرائیوں کا پیدا ہونا امرلازمی ہے۔ خیر اندر ہی اندر جو بھی کھچڑی پکی ہو ارپندر مشرا اپنے گھر سے نکلے اور دیپک مشرا کے گھر پہنچ گئے۔

دیپک مشرا کا میڈیا سے نظریں چرانا قابلِ فہم ہے لیکن ارپندر مشرا کو اپنے دروازے سے بیرنگ لوٹا دینا معمولی بات نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کے ذاتی سکریٹری ہیں اور ان کے گھر یا پارٹی میں نہیں بلکہ سرکاری دفتر میں ملازمت کرتے ہیں اس لیے ان سے ملاقات سے انکار نہ صرف وزیراعظم کی بلکہ ان کے عہدے کی بھی تو ہین ہے۔ سرکار کی جانب سے یہ صفائی کہ وہ ذاتی قسم کی غیر رسمی ملاقات تھی مزید شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔اس لیے کہ اگر وہ دفتری نوعیت کی ملاقات ہوتی تو جسٹس دیپک مشرا کو آج نہیں تو کل یہ بتانا پڑتا کہ آخر وہ کیوں آئے تھے؟ وزیراعظم نے ان کے ذریعہ کیا پیغام بھیجا تھا؟اور انہوں نے اسے قبول کیا مسترد کردیا وغیرہ وغیرہ ۔ سیاستدانوں کی طرح فراٹے کے ساتھ جھوٹ بولنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ارپندر کو اس روز اپنے دوست کی یاد اچانک کیوں آئی؟ وہ اگر دیپک جی کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے گئے تھے تو اس سے اجتناب کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا واحد جواب یہ ہے کہ دیپک مشرا کے نزدیک وزیراعظم کا یہ تحفہ ان کے زخم پر نمک کا کام کرسکتا تھا ۔ دیپک مشرا نے ارپندر مشرا کو گھر کے باہر سے لوٹا کر وزیر اعظم بے مثال توہین کی ہے ۔

ارپندرمشرا کے ذریعہ سال شروع ہونے کے ۱۳ دن بعد نئے سال کی مبارکباد دینا ایسا مذاق ہے کہ جس پر سال بھر ہنسا جاسکتا ہے۔ اول توآج کل فون کیے بغیر چائے والا بھی سبزی والے کے گھر نہیں جاتا اور اگر سبزی والا فون نہ لے یا نہ لوٹا ئے تو وہ اپنے اپنے آپ کو رسو ا کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا ۔ ارپندر مشرا جیسے آئی ای ایس افسرسے اس حماقت کی توقع کرنا مشکل ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی احمق کے مشورے یا دباو میں آکر ان سے یہ بیوقوفی سرزد ہوئی ہو۔ وہ احمق کون ہو سکتا ہے اس کا اندازہ بہت مشکل کام نہیں ہے۔ ارپندر کی اس رسوا کن واپسی نے ممکن ہے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی ماضی کا ایک واقعہ یاد دلا دیا ہو؟یہ اس زمانے کی بات ہے جب مودی جی گجرات کے وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ اس وقت انہوں نے بھی ایک ایسی ہی جسارت کی تھی اور وہ اسی طرح کے انجام سے دوچار ہوئے تھے۔

جانباز ایس آئی ٹی چیف ہیمنت کرکرے کے بہیمانہ قتل کے بعدایسے کئی شواہد ذرائع ابلاغ کی زینت بنےکہ جن میں زعفرانی دہشت گردی کا ہاتھ نظر آتا تھا ۔ ان میں سب سے اہم وہ دھمکیاں تھیں جن کا ذکر کانگریسی رہنما دگوجئے سنگھ نے کیا تھا۔ہیمنت کرکرےنے جان پر کھیل کر موت کے بھگوا سوداگروں سے لوہا لیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس عظیم قربانی میں گجرات کے سابق وزیراعلیٰ نریندر مودی کو اپنی سیاسی دوکان کو چمکانے کا بہترین موقع نظر آگیا۔انہوں نے سوچا ہوگا کیوں نہ ممبئی کے دھماکے کی مدد سے وزیراعظم کی کرسی سے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے؟ اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول اور سنگھ پریوار کے ماتھے پر لگے کلنک کو دھونے کے لیے مودی جی ممبئی پہنچ گئے۔ مودی جی نے تاج اور دیگر مقامات پر ہونے والے حملے میں مرنے والے ۱۷۶ لوگوں کے گھر جاکر تعزیت کرنے کے بجائےآنجہانی ہیمنت کرکرے کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ کیا تا شام کو تمام ٹی وی چینلس پر اپنی دیش بھکتی کا ڈھنڈورا پیٹا جاسکے۔

ہیمنت کرکرے کی آنجہانی بیوہ کویتا کرکرے کی بصیرت کو سلام کہ وہ اپنے مہمان کے چہرے پر پڑا منافقت کا مکھوٹا پہچان گئیں ۔ اس دلیر اور خوددار خاتون نے نہ صرف ملاقات سے انکار کردیا بلکہ ایک کروڈ کی سرکاری مدد بھی ٹھکرا دی۔ مودی جی بھی دل مسوس کر ارپندر مشرا کی مانند بیررنگ لوٹ آئے۔ انسان کی رسوائیاں عہدے اور مرتبے کا لحاظ کیے بغیر اس کا پیچھا کرتی ہیں اور ایک طے شدہ لمحے میں اسے دھر دبوچتی ہیں۔ ایسا ہوتا رہا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا۔ ان رسوائیوں کی پردہ پوشی تو ممکن ہے لیکن ان سے فرار ممکن نہیں ہے۔کویتا کرکرے اوردیپک مشرا نے عملاً ان اشعار کی تفسیر پیش کردی کہ ؎
یہ چاہتیں ، یہ پذیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں
اسے یہ دکھ ہے میں رسوا ہوں اس کے لیے
مجھے خوشی ہے کہ رسوائیاں بھی جھوٹی ہیں

ارپندر مشرا وزیر اعظم کے دفتر میں ذاتی سکریٹری کی حیثیت سے زیر ملازمت ہیں ۔ ان کا اپنا نام وزیر اعظم سے مشابہت رکھتا ہے اور خاندانی نام تو چیف جسٹس سے مشترک ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کی سفارش کی ہو لیکن ان کا باہمی تعلق اور دوستی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ عدالت عظمیٰ میں جب زلزلہ آیا اور چار معمر ترین ججوں نے چیف جسٹس کے وقار کو ہی کٹہرے میں لاکھڑا کیا تو پہلی بار ہندوستان کی عوام کو پتہ چلا کہ ایک مشرا جی پردھان سیوک کی سیوا پر بھی مامور ہیں۔ پہلےزمانےکے لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ جمہوریت نے عملاً رہنما کوعوام کا خادم بنا دیا ہے لیکن جب سے وزیراعظم نریندر مودی نے پردھان سیوک کا مکھوٹا چہرے پر چڑھایا ہے پتہ چلا جن تنتر میں جنتا کے سیوک کا جنتا سے اپنی سیوا کرانا ان کا جنم سدھّ ادھیکار (پیدائشی حق) ہے۔ عوام بھی اس خدمت گذاری کو اپنا سوبھاگیہ (خوش بختی) خیال کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چار ججوں نے جب عدلیہ کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھا یا تو حکومت نے اس سے اپنا دامن جھٹک لیا۔ آزمائش کی گھڑی میں سرکار کے نگاہ پھیر لینے سے چیف دیپک مشرا کا چراغ پا ہوجانا عین تقاضائے فطرت ہےکیونکہ مودی سرکار کی خوشنودی کے لیے انہوں نے اپنے عہدے کا پاس و لحاظ تک نہیں رکھا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے کیمرے جب چیف جسٹس کو تلاش کر رہے تھے مشرا جی اچانک ایک ایسے غار میں روپوش ہوگئے کہ جہاں جیو کا سگنل تک نہیں جاتا تھا ۔ اس صورتحال میں ممکن ہے ارپندر کے اندر برادری کی ہمدردی و غمخواری عود کرآئی ہو اور اس نےانہیں دیپک کے دروازے پر پہنچا دیا ہو ؟ سرکار چونکہ اس بابت حقیقت کی پردہ پوشی کررہی ہے اس لیے قیاس آرائیوں کا پیدا ہونا امرلازمی ہے۔ خیر اندر ہی اندر جو بھی کھچڑی پکی ہو ارپندر مشرا اپنے گھر سے نکلے اور دیپک مشرا کے گھر پہنچ گئے۔

دیپک مشرا کا میڈیا سے نظریں چرانا قابلِ فہم ہے لیکن ارپندر مشرا کو اپنے دروازے سے بیرنگ لوٹا دینا معمولی بات نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کے ذاتی سکریٹری ہیں اور ان کے گھر یا پارٹی میں نہیں بلکہ سرکاری دفتر میں ملازمت کرتے ہیں اس لیے ان سے ملاقات سے انکار نہ صرف وزیراعظم کی بلکہ ان کے عہدے کی بھی تو ہین ہے۔ سرکار کی جانب سے یہ صفائی کہ وہ ذاتی قسم کی غیر رسمی ملاقات تھی مزید شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔اس لیے کہ اگر وہ دفتری نوعیت کی ملاقات ہوتی تو جسٹس دیپک مشرا کو آج نہیں تو کل یہ بتانا پڑتا کہ آخر وہ کیوں آئے تھے؟ وزیراعظم نے ان کے ذریعہ کیا پیغام بھیجا تھا؟اور انہوں نے اسے قبول کیا مسترد کردیا وغیرہ وغیرہ ۔ سیاستدانوں کی طرح فراٹے کے ساتھ جھوٹ بولنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ارپندر کو اس روز اپنے دوست کی یاد اچانک کیوں آئی؟ وہ اگر دیپک جی کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے گئے تھے تو اس سے اجتناب کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا واحد جواب یہ ہے کہ دیپک مشرا کے نزدیک وزیراعظم کا یہ تحفہ ان کے زخم پر نمک کا کام کرسکتا تھا ۔ دیپک مشرا نے ارپندر مشرا کو گھر کے باہر سے لوٹا کر وزیر اعظم بے مثال توہین کی ہے ۔

ارپندرمشرا کے ذریعہ سال شروع ہونے کے ۱۳ دن بعد نئے سال کی مبارکباد دینا ایسا مذاق ہے کہ جس پر سال بھر ہنسا جاسکتا ہے۔ اول توآج کل فون کیے بغیر چائے والا بھی سبزی والے کے گھر نہیں جاتا اور اگر سبزی والا فون نہ لے یا نہ لوٹا ئے تو وہ اپنے اپنے آپ کو رسو ا کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا ۔ ارپندر مشرا جیسے آئی ای ایس افسرسے اس حماقت کی توقع کرنا مشکل ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی احمق کے مشورے یا دباو میں آکر ان سے یہ بیوقوفی سرزد ہوئی ہو۔ وہ احمق کون ہو سکتا ہے اس کا اندازہ بہت مشکل کام نہیں ہے۔ ارپندر کی اس رسوا کن واپسی نے ممکن ہے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی ماضی کا ایک واقعہ یاد دلا دیا ہو؟یہ اس زمانے کی بات ہے جب مودی جی گجرات کے وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ اس وقت انہوں نے بھی ایک ایسی ہی جسارت کی تھی اور وہ اسی طرح کے انجام سے دوچار ہوئے تھے۔

جانباز ایس آئی ٹی چیف ہیمنت کرکرے کے بہیمانہ قتل کے بعدایسے کئی شواہد ذرائع ابلاغ کی زینت بنےکہ جن میں زعفرانی دہشت گردی کا ہاتھ نظر آتا تھا ۔ ان میں سب سے اہم وہ دھمکیاں تھیں جن کا ذکر کانگریسی رہنما دگوجئے سنگھ نے کیا تھا۔ہیمنت کرکرےنے جان پر کھیل کر موت کے بھگوا سوداگروں سے لوہا لیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس عظیم قربانی میں گجرات کے سابق وزیراعلیٰ نریندر مودی کو اپنی سیاسی دوکان کو چمکانے کا بہترین موقع نظر آگیا۔انہوں نے سوچا ہوگا کیوں نہ ممبئی کے دھماکے کی مدد سے وزیراعظم کی کرسی سے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے؟ اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول اور سنگھ پریوار کے ماتھے پر لگے کلنک کو دھونے کے لیے مودی جی ممبئی پہنچ گئے۔ مودی جی نے تاج اور دیگر مقامات پر ہونے والے حملے میں مرنے والے ۱۷۶ لوگوں کے گھر جاکر تعزیت کرنے کے بجائےآنجہانی ہیمنت کرکرے کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ کیا تا شام کو تمام ٹی وی چینلس پر اپنی دیش بھکتی کا ڈھنڈورا پیٹا جاسکے۔

ہیمنت کرکرے کی آنجہانی بیوہ کویتا کرکرے کی بصیرت کو سلام کہ وہ اپنے مہمان کے چہرے پر پڑا منافقت کا مکھوٹا پہچان گئیں ۔ اس دلیر اور خوددار خاتون نے نہ صرف ملاقات سے انکار کردیا بلکہ ایک کروڈ کی سرکاری مدد بھی ٹھکرا دی۔ مودی جی بھی دل مسوس کر ارپندر مشرا کی مانند بیررنگ لوٹ آئے۔ انسان کی رسوائیاں عہدے اور مرتبے کا لحاظ کیے بغیر اس کا پیچھا کرتی ہیں اور ایک طے شدہ لمحے میں اسے دھر دبوچتی ہیں۔ ایسا ہوتا رہا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا۔ ان رسوائیوں کی پردہ پوشی تو ممکن ہے لیکن ان سے فرار ممکن نہیں ہے۔کویتا کرکرے اوردیپک مشرا نے عملاً ان اشعار کی تفسیر پیش کردی کہ ؎
یہ چاہتیں ، یہ پذیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں
اسے یہ دکھ ہے میں رسوا ہوں اس کے لیے
مجھے خوشی ہے کہ رسوائیاں بھی جھوٹی ہیں
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224001 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.