علمی و ادبی شخصیات جن کی سانسوں کا سفر2017ء میں اختتام ہوا

اُداس پاکستان 2017ء

رفتہ گانِ عہد کو یاد رکھنا چاہتا ہوں----------ہے یہ ایک فرض سو نبھانا چاہتا ہوں
زندگی کے سفر میں جو ہوا حاصل رئیسؔ-------زندگی کو بہ احترام لوٹانا چاہتا ہوں
انسان فانی ہے ، جو روح اس دنیا میں آئی ہے اسے ایک نہ ایک دن واپس لوٹ جانا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘ (سورۃ الانبیاء ،آیت 35)، ’اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے (اُس نے موت کا ) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے (سورۃ النساء، آیت 78 )،انسان چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا اَن پڑھ، بچہ ہو یا جوان، عورت ہو یا مرد اسے وقت مقررہ پر اپنے مالک حقیقی کی جانب لوٹ کر چلے جانا ہے۔ سورۃ السجدہ کی آیت 11میں کہا گیا ’’کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری رُوحین قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارا کلی ایمان ہے کہ دنیا فانی ، آخرت کا دن مقرر ہے، ہمیں لوٹ کر اپنے اعمال کے ساتھ اﷲ کی بارگاہ میں حا ضر ہونا ہے ۔

دنیا کی آبادی ایک سروے کے مطابق دسمبر2017ء میں7.6بلین بتائی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے اعدد و شمارکے مطابق دنیا کی آبادی 2100ء میں 11.8بلین تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جس کی آبادی وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 207,774,520ہے۔ اس آبادی میں مردوں کی تعداد 106,443,520 اور خواتین کی تعداد 101,331,00ہے ۔آبادی کے اعتبار سے اس وقت پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پرہے۔ ایک سروے کے مطابق 1955ء میں پاکستان آبادی کے اعتبار سے 14ویں نمبر پر تھا اب پاکستان آبادی کے اعتبار سے 6نمبر پر آچکاہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دنیا سے رخصت ہوجانے والوں کی تعداد ہر ایک ہزار میں سے 8.9فیصد ہے۔

خوشی اور غمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوشیاں انسان کے لیے سکون و راحت کا باعث ہوتی ہیں تو افسردگی اورافسوس ناک واقعات اسے دکھی کردیتے ہیں۔ خوشی کے ساتھ غم اور غم کے ساتھ خوشی باہم جڑے ہوئے ہیں۔ 2017ء میں بے شمار لوگ دنیا سے رخصت ہوئے ۔ علم و ادب کی دنیا کی جن معروف شخصیات کی سانسوں کا سفر اس سال اختتام پزیر ہوا وہ وعلم و ادب کا سرمایہ تھیں۔ ان کی موت سے علم و ادب کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ برسوں پر نہ ہوسکے گا۔ذیل میں ان شخصیات کے بارے میں اختصار سے معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ اگر کوئی علمی و ادبی شخصیت کا ذکر نہ آسکا ہو یا تاریخ وفات میں کچھ فرق آگیا ہو تو اس کی معزرت۔معرف شاعر افتخار عارف کا شعر ؂
اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

اداس پاکستان کے عنوان سے یہ سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے قائم ہے 2015میں پہلی مرتبہ یہ خیال آیا اور اداس2015مرتب کیا اس کے بعد اداس2016مرتب کیا گیا جو ہماری ویب اور دیگر ویب پر آن لائن موجود ہیں ۔ سال کیسے گزر گیا معلوم ہی نہ ہوسکا۔ 2017کے درمیان دنیا سے رخصت ہوجانے والی علمی و ادبی شخصیات کو خراج تحسین ۔ اﷲ سب کی مغفرت فرمائے ۔ مرحومین نے جو علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا س سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس فیچر کی تیاری میں اخبارات کے علاوہ نیٹ بہت معاون ہوتا ہے۔ خاص طور پر عقیل عباس جعفری صاحب کا فیس بک پر پیج بعنوان ’’انا اﷲ و انا علیہ راجیعون‘‘ معاون ثابت ہوا۔

جنوری 2017
ڈاکٹر جمال الدین عطیہ
عرب دنیا کی معروف شخصیت ڈاکٹر جمال الدین عطیہ نے 12جنوری کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ عربی زبان کے محقق اور مصنف تھے ان کی کئی کتابوں کے اردو تراجم بھی شائع ہوئے۔

جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی
جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی جو چند دن سندھ کے گورنر بھی رہے کا انتقال 11جنوری کو ہوا۔ سعید الزماں صدیقی قانون کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے ۔ طویل عرصہ پاکستان کی عدلیہ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے مشرف دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بجائے گھر جانے کو ترجیح دی ۔وہ اپنے اس عمل کے باعث بھی جمہوری حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا جھکاؤ مسلم لیگ نون کی جانب تھا وہ صدارتی امیدوار بھی رہے، آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدر کا الیکشن ہار گئے۔ عین اس وقت جب کہ وہ شدید علیل تھے نوزا شریف نے ان پر نوازش فرمائی، ان کی جسمانی کیفیت کو دیکھے بغیر انہیں سندھ کا گورنر بنادیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ گورنر ہاؤس حلف اٹھانے تو گئے پر فوری اسپتال جاپہنچے اور اﷲ کو پیارے ہوگئے۔

پروفیسر ہاشم قدوائی
پروفیسر ہاشم قدوائی نے 96برس کی عمر میں 10جنوری کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کی معروف تصانیف میں ’اصول سیاسیات‘ اور ’دنیا کی حکومتیں‘ شامل ہیں۔

رخسانہ نور
رخسانہ نور شاعرہ تھیں، انتقال12جنوری کو ہوا۔ وہ فلم انڈسٹریز کی معروف شخصیت سید نور کی اہلیہ تھیں۔

شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان
رئیس وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور کراچی کے معروف دینی مدرسے جامعہ فاروقیہ کے بانی شیخ الحدیث مولنا سلیم اﷲ خان صاحب نے 15جنوری کو رحلت فرمائی۔ وہ عالم دین ، دینی علوم کے اساتذہ میں سے تھے۔ ان کی متعدد تصانیف ہیں۔

فردوس حیدر
فردوس حیدر اردو کی ممتاز افسانہ نگار تھیں انہوں نے 18جنوری کو داعی اجل و لبیک کہا۔

نسیم مغل
نسیم مغل کا انتقال 25جنوری کو ہوا، ان کی تصنیف Shikarpir Heritage:an illustrated journey through historyمشہور ہے۔

پروفیس وقار الملک
پروفیسر وقار الملک تدریس کے پیشے سے وابستہ ، ماہر تعلیم اور کالم نگار بھی تھے، ان کا تعلق ضلع کرک کے معروف خاندان سے تھا ۔ پروفیسر وقار الملک کا انتقال 30جنوری کو ہوا۔

فروری 2017
شہزاد زیدی
شاعرِ اہلبیت شہزاد زیدی کا انتقال یکم فروری کو ہوا۔

پیر علاالدین صدیقی
پیر علاالدین صدیقی کی سانسوں کا سفر 3فروری کو اختتام کو پہنچا اور انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔

بانو قدسیہ
اردو کے شاہکار ناول’راجہ گدھ‘ اور’ امر بیل ‘کی مصنفہ بانو قدسیہ معروف قلم کار اشفاق حسین کی زندگی کی ساتھی اور ادبی ہمسفر بھی تھیں 4 فروری2017 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ دنیائے ادب ایک بلند پائے کی ناول نگار، کہانی نویس اور افسانہ نگار سے محروم ہوگئی۔یوں تو ان کے تمام ہی ناول ، افسانے، کہانیاں اور ڈرامے اپنی اپنی جگہ پسندیدگی کے بلند مقام پر ہیں لیکن ان کے ناول راجہ گدھ اور امربیل کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے جو پاکستانی معاشرے کی سچائی کا آئینہ دار اور تلخ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پر مبنی ہے۔ ان کے ناولوں، افسانوں، کہانیوں اور ڈراموں کو پاکستان ، ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے پسند کیا گیا۔ ان کے اِن شہرہ آفاق ناولوں کو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی پزیرائی ملی ۔ ’راجہ گدھ‘ نے بانوں قدسیہ کو دنیا کے چوٹی کے ناول نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔فیس بک کے شاعر دوست ضیاء شہزاد ؔنے بانو آپا کی جدائی کو خوبصورت الفاظ میں اس طرح خراج تحسین پیش کیا ؂
سُونی سُونی ہوگئی بزمِ ادب
آج بانوؔ آپا بھی رخصت ہوئیں
منتظر جنت میں تھے اشفاق ؔبھی
مرحبا ! وہ داخلِ جنت ہوئیں

حمیدہ کھوڑو
حمیدہ کھوڑو کا تعلق سندھ کے معروف سیاسی و علمی خاندان سے تھا۔ انہوں نے سندھ کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ تاریخ نویس ہونے کے ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ تھیں ۔ان کا انتقال 12فروری کو ہوا۔

پروفیسر محمد طفیل (گوہر ملسیانی)
نام محمد طفیل قلمی نام گوہر ملسیانی ،25 فروی کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ علم و ادب کے حوالے سے ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ تصنیف و تالیف ان کا مشغلہ تھا۔ نعتیہ ادب کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے متعدد کتابیں تحریر کیں جن میں عہد حاضر کے نعت گو، جذبات شوق، ارمغان شوق، انتخاب شکیل بدایونی، اردو انگریزی بول چال، شوق شہادت زندہ ہے، متاع شوق(حمد و نعت)، غم اعلیٰ، مظہر نور (نعت)، اقبال ، علامہ اقبال کیسے بنے، جلتی یادوں کی رات(غزلیات)، حرمین شریفین کی فضاؤں میں (سفر نامہ)، کاروان خیال، اقبال کی نظمیں، سیرت ہادی برحق ﷺ، آفتاب آگہی کا سلسلہ (غزلیات)، سخن کا چراغ۔ رفیع الدین راز، چمن از حقائق (منظومات) ان کے علاوہ بچوں کے لیے ادب کے حوالے ان کی مطبوعات سلطان صلاح الدین ایوبی، پھول و کانٹے،یادوں کے گلاب، روشن کرنیں، طارق بن زیاد، حضرت خالد بن ولید،شیر شاہ سوری شامل ہیں۔ گوہر ملسیانی پر سبط جمال نے ایک کتاب مرتب کی جس کا عنوان ہے ’’گوھر ملسیانی : شخصیت و فن جو2015میں شائع ہوئی۔

مارچ 2017
پروفیسر ڈاکٹر منظور گل
ڈاکٹر منظور گل کریسچن لیجنٹ تھے اور پاکستان کے بل گیٹس کہے جاتے تھے۔ ان کاانتقال یکم مارچ کو ہوا۔

ادیب سہیل( سید محمد ظہور الحق)
ادیب سہیل کا اصل نام سید محمد ظہور الحق تھا وہ معروف ادیب و شاعر تھے۔ 18 جون1927کو چوارہ ضلع مونگیر(بہار ) میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے بعد پہلے سابقہ مشرقی پاکستان میں پھر کراچی میں سکونت اختیار کی، وہ انجمن ترقی اردو کے ادبی رسالے ’قومی زبان ‘ کے مدیر بھی رہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’بکھراؤکا حرفِ آخر ‘ اور کچھ ایسی نظمیں ہوتی ہیں‘‘ شامل ہیں ۔ موسیقی پر ان کی تصنیف ’رنگ ترنگ‘ ، منظوم سوانح عمری ’’غم زمانہ بھی سہل گزرا‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے9مارچ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

مسعود عالم مسعود
مسعو د عالم مسعود شاعر تھے 12مارچ کو انتقال ہوا۔

ابن کلیم احسن نظامی
ابن کلیم احسن نظامی کا نام حافظ محمد اقبال تھا وہ پیشے کے اعتبار سے خطاط تھے ، ملتان شہرسے تعلق تھا۔12مارچ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

علی رضوی
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ایگزیکیٹو پروڈیوسر علی رضوی کا انتقال 22مارچ کو ہوا۔

اپریل2017
احمد جاوید
احمد جاوید نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار تھے انتقال 5اپریل کو ہوا۔

اقبال کاظمی
اقبال کاظمی مرثیہ فاؤنڈیشن کے بانی تھے۔ شاعر بھی تھے ان کا مرثیہ جس کے حوالے سے وہ بہت مشہور ہوئے، ان کا انتقال 8اپریل کو ہوا۔
فرش زہرا پر فاطمہ زہرا
لمحہ لمحہ شمار کرتی ہیں
اے عزاداروآؤ مجلس میں
فاطمہ انتظار کرتی ہیں۔

منور بلوچ
شاعر و دانشور ، کالم نگار منور بلوچ کا انتقال 10اپریل کو ہوا۔

مختار مسعود
مصنف و دانشور مختار مسعود کی معروف تصانیف میں ’آوازِ دوست‘، ’لوح ِ ایام ‘‘ اور ’’سفر نصیب‘‘ شامل ہیں۔ مختار مسعود نے 10اپریل کوداعی اجل کو لبیک کہا۔

سلیم سیٹھی
انگریزی زبان کے اینکر و کالم نگار سلیم سیٹھی کا انتقال 14اپریل کو ہوا۔

سید مسعود کاظمی
شاعر، صحافی اور سخن ور فورم کے سینئر رکن تھے۔ 67برس کی عمر میں 22 اپریل کو داعی اجل کو لبیک کہا، کئی کتابیں لکھیں، تعلق ملتان سے تھا، ان کی تصانیف میں ’دبستان ملتان‘، معروف ہے جس میں ملتان کے195قلم کاروں کی زندگی کا احوال قلم بند کیا ہے ۔ ان کی ایک کتاب ’آزادی‘ کے عنوان سے بھی شائع ہوئی۔

فرزانہ ناز
فرزانہ ناز ناز اردو کی نو عمر شاعرہ تھیں۔ ان کی زندگی ایک حادثے کی نظر ہوگئی۔ فرزانہ قومی کتاب میلے کی اختتامی تقریب کے اختتام پر پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کے آڈیٹوریم کے اسٹیج سے نیچے گریں اور شدید زخمی ہوگئی اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 25 اپریل کو دنیا چھوڑ گئیں۔ وہ نوجوان شاعرہ تھیں، 18جنوری1979 کو کراچی میں پیدا ہوئیں تھیں ، ادبی تنظیم ’کسب کمال‘ کی سیکریٹری جنرل تھیں اور اسماعیل بشیر کی شریک حیات تھیں۔وہ شعری مجموعے ’ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے‘ کی خالق ہیں۔

مئی 2017
خاکی جویو
سندھی زبان کے ادیب ، شاعر و تنقید نگار خاکی جویو کا انتقال 2مئی کو ہوا۔

غوث خوہ مخواہ حیدر آبادی
غوث خوہ مخواہ حیدر آبادی کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا وہ طنز و مزاح کے شاعر تھے 88برس کی عمر میں 2 مئی کو داعی اجل کو لبیک کہا-

عفیفہ صوفیہ الحسینی
عفیفہ صوفیہ الحسینی پاکستان ٹیلی ویژن کی پروڈیوسر اور کراچی سینٹر کی جنرل منیجر رہیں، انتقال 3مئی کو ہوا۔

صفیہ رشید
صفیہ رشید صحافت کے پیشے سے وابستہ تھیں ، انتقال 4 مئی کو ہوا۔

انور موراج
انور موراج صحافت کے پیشے سے وابستہ تھے ، اچھے قلم کار بھی، ایکسپریس اور ٹریبیون سے وابستہ رہے۔ انتقال 10مئی کو ہوا۔

نصیر ہمایوں
نصیر ہمایوں شاعر اور دانشور انتقال 21مئی کو ہوا۔

ایم اے راحت
افسانہ نگار و ناول نگار ایم اے راحت صاحبہ نے 24مئی کو داعی اجل کو لبیک کہا۔وہ معروف افسانہ نگار تھیں، ان کے کئی افسانے بہت مشہور بھی ہوئے۔

وجاحت عطرے
موسیقار وجاھت عطرے کا انتقال 26مئی کو ہوا۔

جون 2017
شریف الدین پیر زادہ
معروف ماہر قانون دان ، تاریخ پاکستان اور قانون پر کئی کتابوں کے خالق شریف الدین پیرزہ 2جون کو انتقال کر گئے۔ وہ عملی سیاست میں تو نہ تھے لیکن ملک کی سیاست میں ان کا اہم کردار رہا۔ خاص طور پر فوجی حکمرانوں نے ان کی خدمات سے خوب خوب استفادہ کیا۔آئین کی تشریح کرنے اور آئینی و قانونی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ تاریخ اور قانون پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔

عبد الصمد انصاری
صمدانصاری پر میں نے تفصیلی مضمون لکھا یہاں اس سے اقتباس پیش ہے:’’صمد انصاری کے اندر ایک شاعر اور ادیب موجود تھا لیکن اس معاملے میں وہ لاپروا رہا۔ کم لکھا پر اچھا لکھا،ادبی مزاج خاندانی ہے، لیکن اس نے اپنے اندر کے قلم کار کو پوری طرح باہر آنے ہی نہیں دیا، شعر کہتا تھا اور اچھے شعر کہے، لیکن بد قسمتی یہ کہ اس نے نہ تو جم کر نثر لکھی اور نہ ہی اپنے اندر کے شاعر کو آزادی سے باہر آنے دیا، گویا یہ زندگی کے کسی بھی حصہ میں اس جانب سنجید ہ نہیں رہا، باوجود اس کے کہ یہ نثر لکھنے والوں کے درمیاں رہا انہوں نے لاکھ ٹکریں ماریں کہ یہ سنجیدگی سے نثر لکھے، لیکن اس نے ان کی ایک نہ سنی ، جب خودجی چاہا لکھا، اسی طرح شاعروں کی صحبت میں رہا ، لیکن شاعری میں بھی اسی طرح ڈنڈی مارتا رہا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دامن میں چند غزلیں، چند نظمیں اور کچھ پیروڈیز ہوں گی، اسی طرح چند مضامین بھی۔ہاں دو کتابوں کا شریک مصنف ضرورہے ‘‘۔دوسروں کے لیے کچھ کرنے کی لگن پائی جاتی تھی۔ صمد انصاری کی ایک خوبی یہ تھی کہ انہیں وقت ، حالات اور لمحہ موجود کے حوالہ سے اشعار اور واقعات بہت جلد سوجھ جاتے تھے اور یہ اُسی وقت شعر سنادیتے یا اس سے مناسبت رکھتا ہوا کوئی قصہ۔ نعیم فاطمہ تو قیر جو ان کی دادی ہوتی ہیں امریکہ میں مقیم ہیں کے مجموعے ’’لمحۂ فکر‘‘ پر مجھ سے پیش لفظ لکھنے کے لیے اس قدر بے چینی کہ کوئی حد نہیں، میرا مضمون بعنوان ’’لمحۂ فکر کی شاعرہ ۔نعیم فاطمہ توقیر‘‘ لمحہ فکر کے علاوہ سہ ماہی کتابی ’’سلسلہ‘‘ کرچی میں بھی شامل ہے۔ موج دریا کے مجموعہ کلا م ’موج دریا‘ پر لکھوانے میں بے قرار، ریاضؔ انصاری پر لکھنے پر مجھے مجبور کردیا ۔ میں کہا بھی کرتا کہ یار تم مجھ سے اچھے شاعراور لکھاری ہو تم خود لکھو لیکن بس دوسروں کے لیے فنا فل ہونا اس کی عادت تھی۔ کیا کیا خوبیوں کا مالک تھا وہ شخص ، جس نے جو کہا خاموشی اختیار کر لی۔ خوبیوں کا مجوعہ تھا وہ شخص۔ انسانی کمزوریوں سے کوئی مبر ہ نہیں۔ صمد انصاری کے گھر کا ماحول علمی اورشاعرانہ تھا،خاندان کا تقریباـ ًہر شخص شاعری کے ہنر سے واقف تھا انکے بزرگوں میں ریاض جیوری ، معین الدین شیدا ،عبدالرحمن دریاؔ، پروفیسر یوسف جمال ، محفوظ الرؤف ، نعیم فاطمہ توفیق اور آصف جمال خاصے معروف ہیں بڑی بہن اور بھائی شعری ذوق رکھتے تھے۔ ان کی چھوٹی بہن حبیبہ انصاری مرحومہ شعر کہا کرتی تھیں۔ صمد انصاری میں شعری ذوق ابتدا ء ہی سے تھا آٹھویں کلاس میں بچوں کی نظموں سے شاعری کی ابتداء ہوئی ، روزنامہ جنگ میں بچوں کے صفحہ میں ان کی نظمیں شائع ہوئیں۔پاکستان میں اولین رہائش مارٹن کواٹر میں تھی ،گلو کار ایم کلیم ، احمد رشدی ، مسرور انوراور راغب مراد آبادی ان کے ہمسائے تھے۔گھر کا ماحول شاعرانہ تھا، ان کے گھر ادبی نشستیں بھی ہوا کرتیں تھیں سلیم احمد، اطہر نفیس ، خالد علیگ، صادق مدہوش، شیدا گجراتی، اسد محمد خان اور ساقی فاروقی ان شعری نشستوں میں شریک ہو ا کرتے۔صمد انصاری مشاعرے کے شاعر نہیں تھے لیکن انہیں بے شمار موقع محل کی مناسبت سے شعر یادتھے، شعر کہتے بھی تھے۔پیروڈی کے بھی ماہر تھے۔مجلسی انسان تھا، دوستوں میں رہنا، ہنسی مزاق ، تفریحی ماحول کے شوقین ، دوستوں کے دوست، یاروں کے یار، جس محفل میں ہو ، نمایاں نظر آتے ، برملا شعر سنانایا گفتگو کی مناسبت سے کوئی چٹکلا چھوڑنے میں مہارت رکھتے تھی۔ 10 اکتوبر1944 میں شروع ہونے والی زندگی کا اختتام پاکستان کے شہر کراچی میں21جون 2017 میں 73 سال کی عمر میں ہوا ۔ میری اس کی دوستی 42 برس پر محیط رہی ، اب کچھ صورت اس شعر کی سی ہے ؂
ہوتا ہے تیرے درد کا ہر روپ انوکھا
آتی ہے تیری یاد کئی روپ بدل کر

حکیم سید مجاہد محمود برکاتی
برکاتی خاندان حکمت، علم و فضل میں ہمیشہ سے ہی یکتا رہا ہے۔ حکمت کے حوالے سے ان کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔ حکیم سید مجاہد محمود برکاتی کے والد قبلہ حکیم سید محمود برکاتی کو شہید کیا گیا۔ سید مسعود محمود برکاتی صاحب مانامہ ہمدرد نونہال کے مدیر کی حیثیت سے اور بچوں کے لیے لکھنے کے حوالے سے معروف تھے۔ حکیم سید مجاہد محمود برکاتی ادیب ، سماجی رہنما، سابق یوسی ناظم گلبرک ٹاؤن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان کا انتقال 23جون کو کراچی میں ہوا۔

رضوان حیدر برنی
رضوان حیدر برنی کا تعلق شوبیز صحافت سے تھا، وہ ہفت روزہ نگار کے سینئر سب ایڈیٹر بھی رہے۔ رضوان حیدر برنی نے 24جون کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

سید انیس شاہ جیلانی
معروف انشاء پرداز، ادیب ، شاعر ، محقق ایک درجن سے ذائد کتب کے خالق سید انیس شاہ جیلانی کا انتقال رحیم یار خان میں 26جون کو ہوا۔ رحیم یار خان کی سب سے بڑی نجی لائبریری ’’مبارک اردو لائبریری‘‘ کی تمام تر رونقین اور خدمات ان ہی کے دم قدم سے تھیں۔ افسوس اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔

عرفان غازی
عرفان غازی صحافی تھے ۔26 جون کو ان کا انتقال ہوا۔ وہ اردو کے لکھاری بھی تھے۔

جولائی 2017
عبد الحفیظ
فلم اور ٹی وی ڈائریکٹر عبد الحفیظ کا انتقال یکم جولائی کو ہوا۔

آصف علی پوتا
آصف علی پوتا پیشے کے اعتبار سے صحافی تھے ان کا انتقال 8 جولائی کو ہوا ۔ وہ معروف گلوکارہ ناہید اختر کے شوہر تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر فرید الدین بقائی
ڈاکٹر فرید الدین بقائی کی خدمات طب و صحت کے حوالے سے اظہر من شمس ہیں۔ حکیم محمد سعید شہید کے قریبی دوست اور ساتھی تھے۔ معالج کی حیثیت سے اور بقائی اسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر فرید الدین بقائی کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ بقائی فاؤنڈیشن کے چیرٔ مین بھی تھے۔ ڈاکٹر فرید الدین بقائی نے 10جولائی کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ ڈاکٹر فرید الدین بقائی جیسے قوم کے ہمدرد مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔

حسن اکبر کمال
کراچی کی معروف علمی و ادبی شخصیت ،شاعر حسن اکبر کمال نے 21جولائی کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ حسن اکبرکمال14 فروری 1946 میں آگرہ میں پیدا ہوئے انگریزی میں ایم اے کیا ، کراچی کے مختلف کالجوں میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں، وہ غزل و گیت نگار اور نعت ، سلام و منقبت نگاری میں یکساں دسترس رکھتے تھے۔ان کے شعری مجموعے ’سخن، خزاں میرا موسم، خوابو جیسی بات کرو اور التجا شامل ہیں ۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’کمال کے مضامین‘ شائع ہوچکے ہیں۔ پاکستان رائیٹرز گلڈ نے انہیں آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا۔

اگست2017
اویس احمد دوراں
اویس احمد دوراں شاعر، ادیب اور خود نوشت بھی تھے ان کا انتقال 9اگست کو ہوا۔

ثاقت ساقی
سرائیکی شاعر ثاقب ساقی نے11اگست کو داعی اجل کو لبیک کہا

ڈاکٹر رتھ فاؤ(جرمن ڈاکٹر)
جرمن ڈاکٹررتھ فاؤ نے پاکستان میں جذام کے علاج اور جذامیوں کی خدمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے رکھاان کی آخری رسومات 19اگست 2017کوکراچی میں سرکاری اعزازات کے ساتھ ادا کی گئیں۔وہ60کی دہائی میں اپنا وطن جرمنی چھوڑ کر پاکستان آئی۔ اس وقت اس کا پاکستان آنا ممکن ہے سیر و سیاحت کی غرض سے ہوا ہو یا کوئی اور مقصد بھی ہوسکتا ہے۔ وہ انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سر شار تھی ، اپنے اس جذبے کے تحت وہ کچھ ایسا کرنا چاہتی تھی جو مختلف ہو اور انسانیت کے خدمت سے اس کا تعلق ہو۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران وہ کراچی پہنچی اس زمانے میں کراچی مختصر ، صاف ستھرا ، ہنگاموں، ڈرو خوف، دہشت گردی سے پاک صاف ہوا کرتا تھا۔ لوگ سرکاری بسوں ، گھوڑا گاڑیوں ، تانگوں ،بگیوں، سائیکل رکشاؤں، ٹرام اور پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کا گزر میکلورڈ ر(آئی آئی چندریگرروڈ) پر سٹی اسٹیشن کے عقب میں ایک مخصوص بستی میں ہوا ، ہوسکتا ہے اُسے کسی نے بتا یا ہو کہ کراچی میں ایک ایسی خوف ناک بستی بھی موجود ہے جہاں کے مکین نہ امیدی اور بے سہارگی کی زندگی بسر کررہے ہیں، لوگ ان کے نزدیک جاتے ہوئے خوف کھاتے ہیں۔ یہ جوان لڑکی کراچی کی اس بستی میں پہنچی۔ اس نے جب اس بستی کے مکینوں کی حالت زار کو دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اسے اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ پاکستانیوں نے ایسے مریضوں کو ایک الگ تھلگ علاقے میں بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے ۔جس طرح موت اﷲ کے اختیارمیں ہے اسی طرح موت کا سبب بننے والا مرض بھی اﷲ ہی کی عطا ہے ۔ وہ مرض دیتا بھی ہے، شفاء بھی دیتا ہے اور وہ مرض اسی کے حکم سے موت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ اس بستی کے مکینوں کو دیکھ کر ڈاکٹر رتھ فاؤ حیران و پریشان ہوئی کہ کتنے ہی لوگ کوڑھ جیسی بیماری میں مبتلہ کرب و اذیت کی زندگی گزار رہے تھے ۔ ان کوڑھیوں اور جذامیوں کا دکھ رتھ فاؤ کے اندر سرائیت کر گیا اس نے اُسی وقت یہ فیصلہ کیا کہ اُسے اس کے خواب اور خواہش کی تعبیر مل گئی،وہ ایسے ہی دکھی لوگوں کا سہارا بننا چاہتی تھی جنہیں لوگ اپنے لیے خطرہ اور مصیبت سمجھ کر اپنے سے جداکردیتے ہیں، نہ ان کے کھانے کی فکر ، نہ علاج کی فکر، کھلے آسمان تلے انہیں اﷲ کے سہارے چھوڑ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ آج تو بے سہارا افراد کی بحالی کے بے شمار مراکز قائم ہیں اُس دور میں تو اس قسم کے ادارے بھی ناپید تھے۔ اب وہ ایسے ہی دکھی انسانیت کی خدمات میں اپنی باقی زندگی گزارنے کا عہد کرچکی تھی۔اسے کراچی کی اس کوھڑیوں کی بستی اور باقی شہر کے مکینوں کے درمیان ایک دیوار حائل نظر آئی جس دیوار کو مسمار کرنے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہوا اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس دیوار کو ایک نہ ایک دن گراکر دم لے گی۔ یہی جذبہ اس بات کا سبب بنا کہ اس نے اب اپنے وطن جرمنی نہ جانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی بقیہ زندگی جذامیوں کے علاج اور انہیں سہارا دینے میں بسر کرنے کا مسمم ارادہ کر لیا۔ ان مریضوں اور بے سہارا لوگوں کے علاج اور انہیں تسلی و تشفی دینے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ زندگی بسر کرنا شروع کی۔ علاج تو بعد کی بات تھی جب وہ ان دکھی اور بے سہارا مریضوں کے قریب گئی ، انہیں گلے لگایا، تسلی تھی، حوصلہ دیا تو وہ مکین حَیرَت و تحیُرکی مورت بن گئے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی نوجوان لڑکی اس طرح انہیں گلے لگا ئے گی، تسلی و تشفی دے گی، وہ تو دور دور سے لوگوں کو چلتے پھرتے دیکھا کرتے تھے، لوگ کھانا بھی دور ہی سے انہیں ڈال دیا کرتے تھے۔ یقینا اس وقت ان مریضوں کے دل سے جو دعا نکلی ہوگی وہ سیدھی پروردگار کی بارگاہ میں پہنچی ہوگی تب ہی تو ڈاکٹر رتھ فاؤ اپنے مقصد میں قائم رہی اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتی رہی۔ ڈاکٹر رتھ فاؤنے اپنے کام کا آغاز کیا وہ تو تنہا ہی چلی تھی جانب منزل لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا لیکن اس نیک کام کا بیڑا ڈاکٹر رتھ فاؤ نے تنہا ہی اٹھا یا تھا۔ نیک اور اچھے کام میں یقینا لوگوں نے اور حکومتوں نے اس کی مدد کی ہوگی تب ہی تو وہ پورے پاکستان میں170 لپروسی ڈسپنسریا اور اسپتال قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کی خدمات کا کراچی کے ایک چھوٹی سی کلینک سے ہوا تھا جو بڑھ کر پورے پاکستان میں پھیلا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات سے جذام جیسا مرض پاکستان سے ناپید ہوگیا۔

کراچی میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا لپروسی اسپتال فیرئیر روڈ پر نویک کلینک کے سامنے صدر کے علاقے میں قائم ہے۔ کوئی تیس چالیس سال قبل کی بعد ہوگی میرے ایک عزیز نوید کلینک میں داخل ہوئے، میں انہیں دیکھنے گیا ، اس وقت میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف بھی نہیں تھا نوید کلینک سمجھ کر میں اس کے سامنے کی بلنڈنگ میں چلا گیا ۔ اوپر گیا تو دیکھا کہ وہاں اپنے اپنے بیڈ پر موجود ہر مریض ایک ہی قسم کی بیماری میں مبتلا دکھائی دیا ، ہر ایک کے ہاتھوں کی انگلیوں پر پٹی بندھی تھی ، ناک بھی کچھ عجیب سی تھیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ وہی اسپتال ہے جو ایک جرمن خاتون نے کوڑھ یا جذام کے مریضوں کے لیے قائم کیا ہے۔ جذام یا کوڑھ ایک ایسا خطرناک اور موزی مرض ہے کہ جس میں مریض اپنے جسم کے مختلف اعضاء خاص طور پر ہاتھ اور پیر کی انگلیوں سے رفتہ رفتہ محروم ہوجاتا ہے۔ مریض کے عزیز رشتہ دار اس ڈر و خوف سے کہ یہ مرض گھر کے کسی اور فرد کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اس مریض کو اپنے سے جدا کر دیتے ہیں۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ جرمن خاتون ڈاکٹر رتھ فاؤ ہیں جنہوں نے جذامیوں کے علاج اور قیام کے لیے یہ ادارہ قائم کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے اپنی تمام زندگی لپراسی کے علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال میں صرف کر دی۔ انہوں نے اپنے وطن کو خیر باد کہا، اپنی نجی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا، اس کا مقصد لپراسی کے مریضوں کا علاج اور انہیں سہارا دینا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنی جوانی، اپنا بڑھاپہ سب کچھ نچھاور کردیا۔ یقینا اﷲ اس کی جزا اُسے ضرور دیں گے۔بدھ16 اگست 2017کو ڈاکٹر رتھ فاؤ اﷲ کو پیاری ہوئیں۔ وہ پاکستانی تھیں لیکن اپنے مذہب پر قائم رہیں ۔ آنجہانی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری رسومات ان کے عقیدہ کے مطابق 19اگست 2017کو کراچی میں صدر میں واقع سینٹ پیٹرکس چرچ میں ادا کی گئیں۔انسانیت کے لیے ان کی عظیم الشان خدمات کے اعتراف میں ان کی آخری رسومات سرکاری اعزازات کے ساتھ ادا کی گئیں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی مدر ٹریسا کا لقب بھی دیا گیا۔ جذام کے مریضوں اور جذام جیسے مرض کو پاکستان سے ناپید کرنے میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نے جو خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

شکیل عثمانی
ممتاز محقق ، نقاد اور متعدد کتابوں کے مصنف شکیل عثمانی نے 26اگست کو داعی اجل کولبیک کہا۔

امتیاز ساغر
شاعر امتیاز ساغر نے30اگست کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ ان کا خوبصورتشعر ؂
دو گھڑی کی بہار ہے دنیا
اور تو چل رہا ہے اترا کار

ستمبر2017
سید انور محمود
سید انور محمودمعدودِ چند کالم نگاروں میں سے تھے جو ہر موضوع پر بے باکی ، نڈر اور بلا خوف سچ کو سچ اور غلط کو غلط لکھا کرتے تھے۔سید صاحب جیسے بہادر لکھاری کم کم پائے جاتے ہیں۔سید انور محمود سے میرا تعلق علمی ، ادبی ، سماجی اور کالم نگار کے حوالے سے تھا۔ ہمارے درمیان تعلق کی بنیاد اردو کی معروف ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ ہے۔ ہماری ویب نے کالم نگار کی حیثیت سے میرا تعلق سید صاحب سے قائم جوڑا۔ آج صحافت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے اور کالم نگار بڑی تعداد میں میرے قریبی دوست ہیں ۔ 3ستمبر کو داعی اجل کو لبیک کہا ؂
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدمؔ
بھول جانے کے سوا کوئی تو چارہ نہ تھا

محمد یوسف
محمد یوسف کا تعلق کتابوں کی دنیا سے تھا ۔ اسلام آباد کا معروف کتاب گھر مسٹر بک کے مالک تھے، علم و ادب سے تعلق رکھتے تھے ،4ستمبر کو اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔

احمد صغیر صدیقی
شاعر ، نقاد اور افسانہ نگار احمد صغیر صدیقی کا انتقال امریکہ میں12ستمبر کو ہوا۔

اکتوبر2017
تصدق سہیل
تصدق سہیل مصور اور افسانہ نگار تھے انہوں نے 2اکتوبر کو داعی اجل کو لبیک کہا

ولی رازی
ولی رازی صحافی تھے کراچی پریس کلب کے سیکریٹری بھی رہے ، اپنے زمانے کے نامور مقرروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ خوش مزاجی اور بذلہ سنجی ان کی شخصیت کی پہچان تھی۔ روزنامہ مشرق سے وابستہ رہے بعد میں K2چینل سے منسلک ہوگئے تھے۔ان کا انتقال 3اکتوبر کو ہوا۔

عبدالوہاب خان سلیم
علم و ادب کی معروف شخصیت عبدالوہاب خان سلیم 7اکتوبر2017کو امریکہ میں انتقال کر گئے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ وہاب صاحب 70کی دہائی میں امریکہ چلے گئے تھے پھر وہ وہیں ۔ وہا ب صاحب کو پاکستان کی بے شمار علمی و ادبی حلقے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ رہتے امریکہ میں تھے لیکن پاکستان کے علمی و ادبی لوگوں سے ان کے بھائیوں کی طرح مراسم تھے۔ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے درست لکھا کہ عبد الوہاب خان سلیم کا ذکر چھیڑ یے تو یہ مصرع یاد آئے گا کہ: ’’سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے‘‘ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے اپنے مضمون میں لکھا’ عبد الوہاب خان سلیم نہ تو دانش ور ہیں نہ ہی حکیم و عبقری ، اس کے باوجود خان صاحب دانشوروں ، حکما اور عباقر کے چہیتے‘۔ عظیم اختر نے اسی بات کو اس طرح کہا کہ ’اردو دنیا میں ایک ایسا اردو والا بھی موجود ہے جو بنیادی طور پر شاعر ہے نہ ادیب، پروفیسر ہے نہ نقاد ، بس اردو لکھنے ، پڑھنے اور بولنے والا ایک عام سا اردو والا ہے ، جس کواردو رسائل و جرائد اور کتابیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے ‘ ۔ وہاب صاحب اردو کی ہزاروں کتابیں امریکہ جیسے شہر میں جمع کر چکے ہیں جہاں پر لوگوں کو سر چھپانے کے لیے ایک کمرہ مشکل سے نصیب ہوتا ہے یہ شخص ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ کیے ہوئے ہے۔یہ نہ صرف اپنے لیے کتابیں جمع کرتا ہے بلکہ دنیا میں جس کو کتاب کی ضرورت ہوئی اس نے اسے وہ کتاب اپنے خرچ سے پہنچانے کو اپنا فرض سمجھا۔ ہندوستان سے کتابیں پاکستان ور پاکستان سے کتابیں ہندوستان کے کتب خانوں میں محٖفوظ کرنا اس فرشتہ صفت انسان کا محبوب مشغلہ ہے۔

رومی انشاء
معروف شاعر ابن انشاء کے صاحبزادے رومی انشاء نے 17اکتوبر کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔

عرفان لاحق صائم
شاعر و ادیب بلوچستان سے تعلق دل کا دورہ پڑنے کے باعث 24 اکتوبر کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے

نومبر2017
محمد ابراہیم جویو
شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش کے دن یعنی 9نومبرکو ایک افسوس ناک خبر سننے کو ملی کہ سندھ دھرتی کی ایک قابلِ احترام علمی وادبی شخصیت ، روشن خیال و ترقی پسند ادیب و دانشورہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لے جد ا ہوگئی۔محمد ابراہیم جویو ہم سے جدا ضرور ہوگئے ، موت بر حق ہے، ہر ایک کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جاناہے ۔ لیکن ابراہیم جویو اپنے پیچھے اپنی ایسی عظیم یادیں چھوڑ گئے، اتنا علمی و ادبی ذخیرہ چھوڑ گئے جو ہمیشہ انہیں زندہ رکھے گا۔ ان کا تخلیق کیا ہوا علمی سرمایا طالبان علم کی پیاس تا دیر بجھاتا رہے گا۔ ابراہیم جویو 13اگست1915کو سندھ کے ضلع دادو(اب جامشورو) کے گوٹھ ’آباد‘ میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے طویل عمر پائی اور 102سال کی عمر میں 9نومبر2017کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔وہ ایک با اصول اور نظریاتی انسان تھے۔پیشے کے اعتبار سے معلم تھے۔ اسکول کے استاد کی حیثیت سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ جاوید سومرو کے مطابق سندھ سے والہانہ محبت اور سیاسی ذہنی پختگی نے انہیں کم عمری میں ہی ممتازشخصیت بنادیا تھا۔ 1931میں جب ان کی عمر صرف 26برس کی تھی ان کو کراچی کے سندھ مدرستہ الا سلام جو اب یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے کا استاد منتخب کر لیا گیا، ساتھ ہی ان کا قلم و قرطاس سے بھی انہوں نے رشتہ استوار کر لیا، اپنی تحریروں کے توسط سے انہوں نے سندھ کے لوگوں کو خاص طور پر حکمرانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ انہوں نے ایک کتاب تحریر کی ’’سیو سندھ ، سیو دی کانٹینینٹ Save Sindh Save Continent، اس کتاب پر سندھ کے حکمران ان سے ناراض ہوگئے اور انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ واضح رہے اس وقت وزیر تعلیم پیر الہٰی بخش مرحوم تھے ۔ ابراہیم جو نے کسی دوسرے پیشے کا انتخاب نہیں کیا بلکہ خاموشی سے ٹھٹھہ کے ایک اسکول میں معلم ہوگئے۔ ابراہیم جویو سندھ میں ترقی پسندی ، روشن خیالی اور سیکو لرزم کے حامی تھے۔ کیوں کہ وہ ایک نظریاتی تھے اس لیے ان کی تحریریں ان کے نظریات کا پرچار کرتی اور اپنے نظریے کی بھر پور حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔

مشکور حسین یادؔ
مشکور حسین یاد معروف انشائیہ نگار، مزاح نگار ، ادیب و شاعر اور ماہر تعلیم بھی تھے ۔ انتقال 11نومبر کو ہوا

ڈاکٹر فضل الیٰ
ڈاکٹر فضل الیٰ ادیب اور لکھاری تھے تعلق کوئٹہ سے تھا ،11نومبر کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

احساس فکری
شاعر و ادیب ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم تھے13نومبر کو انتقال ہوا۔

نجم الحسن رضوی
افسانہ نگار نجم الحسن سرطان کے مرض میں مبتلہ رہنے کے بعد جمعہ 17نومبر کو ملک حقیقی سے جا ملے۔ وہ 23اپریل 1944کو پیدا ہوئے تھے۔نجم الحسن رضوی صحافت کے شعبے سے وابستہ رہے، ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ماروی اور مرجینا‘‘ کے نام سے ، انشائیوں کا مجمودہ ’’ہمارا بد معاشی نظام‘، اور خود نوشت سوانح عمری ’’آواذپا ‘‘ کے نام شائع ہوئی تھی ، کہانیوں کا مجموعہ نجم الحسن رضوی کے بہترین افسانے اور ا ن کے فن وشخصیت پر ایک کتاب ’’شہر ہنر میں‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔

ڈاکٹر یوسف قمر
معروف نعتِ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم “ میں تو پنچتن کا غلام ہوں ‘‘ کے لکھنے والے ڈاکٹر یوسف قمر ؔ برمنگھم میں 17نومبر کو اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

مغیث احمد صمدانی
مغیث احمد صمدانی نے طویل علالت کے بعد22نومبر 2017ء کو داعی اجل کو لبیک کہا داداشیخ محمدابرہیم آزادؔ جو میرے پر دادا ہوتے ہیں نعت گو شاعر تھے ان کا دیوان 1923میں’دیوان ِ ٓزاد ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، مغیث صمدانی نے دیوان کا دوسرا ایڈیشن 2005میں شائع کرایا۔ جو ان کے ادبی ذوق کی دلیل ہے۔ وہ اپنے جدِ امجد جناب آزاد ؔ سے بہت متاثر تھے ،وہ دوران گفتگو ان کے اشعار کوٹ کیا کرتے تھے۔

خواجہ اکمل (26نومبر)
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اداکار خواجہ اکمل نے 26نومبر کو داعی اجل کو لبیک کہا

دسمبر 2017
مسعود احمد برکاتی
معروف قلم کار ، صحافی، طویل عرصہ بچوں کے رسالے ہمدرد نونہال کے مدیررہنے والے مسعود احمد برکاتی ہم سے جدا ہوگئے،بچوں کے معروف رسالہ ’’ ہمدرد نونہال‘‘ کی ادارت 1953ء سے مسلسل کی گویا وہ 64 برس اس کے مدیر رہے ، ’ہمدرد صحت ‘کے مدیر منتظم بھی ہیں۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ملک میں کو ئی ادیب مسلسل 64 برس تک بچوں کے ادب سے وابستہ اور بچوں کے رسالے کا مدیر نہیں رہا۔ صحافیوں کی تنظیم APNSنے 2 مارچ 1996ء میں آپ کو ’’نشان سپاس‘‘ سے نوازا۔ بر کاتی صاحب کے کرشماتِ قلم سے اب تک15 سے زیادہ کتب اور سینکڑوں مضامین منظر عام پر آچکے ہیں ، شہید پاکستان پر آپ کو بلا شبہ ایک مستند اور معتبر لکھاری ہونے کا درجہ حاصل ہے، شہید پاکستان پر آپ نے بہت کچھ لکھا مضا مین کے علاوہ آپ کی مختصر تصانیف ’انکل حکیم محمد سعید ‘، ’سعید پارے ‘ ، ’ وہ بھی کیا دن تھے ‘ کے علاوہ انگریزی میں حکیم صاحب کی ’پروفائل‘ شامل ہے۔برکاتی صاحب نے 10دسمبر بروز اتوار داع اجل کو لبیک کہا۔

ماسٹر عاشق حسین
دمادم مست قلندر کے موسیقات ماسٹر عاشق حسین لاہور میں 26 دسمبر کو انتقال کر گئے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Death is biggest fact of world as every person believe that he has to die one day but he doesn’t know when and how. It is surprise of God that will revel on time otherwise a man could not live his life comfortably so should spend our life with great character and good deeds as we face success in our life of world and life after death.Here is the list of Famous Pakistani Celebrities Died In 2017;