انسانی ہمدردی ایک عبادت

تحریر:شہریار صدیقی
انسانی معاشرہ اکثر قدرتی آفات سے دوچار ہوتا رہتاہے،کرہ ارض کے مختلف حصوں کو زلزلہ،سیلاب،طوفان اور سونامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ 2015ء میں پیش آیا جب پاکستان کے شمالی علاجات کو زلزلہ نے جھنجھوڑکے رکھدیا،اس زلزلہ کا مرکز افغانستان کا شمالی علاقہ تھا۔ مگرپاکستان کے شمالی علاقے بھی قربت کی بناء پر اس سے بے انتہاء متاثر ہوئے۔ چنانچہ پورے کے پورے گاؤں زلزلہ کے شکار ہوئے۔ زلزلے کی خبر پھیلتے ہی پاکستانی قوم ہمیشہ کی طرح جزبہ خدمت خلق سے سرشار اپنے بھائوں کی مدد کیلئے نکلے اور مختلف چراہوں پر متاثرین کیلئے سازوسامان جمع کرنے کی نیت سے کیمپ لگانے لگے۔

اسی جذبہ کو دل میں لئے ہمارے کلاس فیلو اور بہت ہی اچھے دوست شاکر بھائ نے اس بارےمیں ڈاکٹر کنیز فاطمہ سے رجوع کیا اور اپنے نیک ارادے سے انکو آگاہ کیا۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ جو کہ ہماری سوشیالوجی کی ٹیچرہے۔ (اور نہایت ہی مشفق اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے) کلاس میں آئی ۔ اور اس کام کی طرف طلبہ کو راغب کیا۔ کلاس کا سی آر ہونے کی بناء پر اس کام کی ذمہ داری میرے سر ڈالی گئ۔ بوقت حاضر تو سب قبول کر لیا پر بعد میں اندازا ہوا کہ کتنی بھاری ذمہ داری تلے دھب گیا ہوں۔

ابتدائی طور پر ذیشان شہزاد،نعیم اللہ استوری،سیف علی اورعدنان قریشی کو ساتھ لیا اور یہ طے کیاکہ چھوٹے چھوٹے باکس بناکر اس میں نقد رقم کی شکل میں فنڈز اکٹھاکیا جائے۔چونکہ یونیورسٹی سطح پر ایسے کام زیادہ تر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کرتی ہے۔ جبکہ ہمارا تعلق کسی آرگنائزیشن سے نہیں تھا سو ہم کیمپ وغیرہ تو لگا نہیں سکتے تھے۔البتہ چار فیناپلیکس بنوائے جو کہ یونیورسٹی کے مختلف مقامات پر آویزاں کردئے۔ جس میں زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے طلبہ سے اپیل کی گئی تھی۔

اب باری تھی ایسے باکس کی تیاری کی جس میں فنڈز اکٹھا کیا جاسکے۔اس مرحلے میں ہمیں مزید اسٹوڈنٹس سجادحسین،یاسررؤف اور مظفرعلی نے جوائن کیا۔ باکس کے حصول کے بعد یہ طے ہوا کہ اگلے دن صبح کی شفٹ سے ہی فنڈز کلیکٹ کرنا شروع کیا جائے۔ چنانچہ اگلے دن صبح ہی جامعہ پہنچ گئے۔ چونکہ ہمیں پوری یونی کور کرنی تھی،لھذا پوری ٹیم تین حصوں پر تقسیم ہوگئی اور چندہ برائے زلزلہ زدگان کے اس نیک کام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تینوں ٹیمیں مختلف ڈپارٹمنٹ میں پھیل گئیں۔ اور جہاں جہاں طلبہ،اساتذہ یا عملے کے دیگر افراد نظرآتے،ان سے متاثرین کی مدد کیلئے اپیل کرتے، ڈپارٹمنٹ کے چیئرپرسن کے پاس جاتے،اپنا تعارف کراتے اور اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے جس پر وہ انتہائی خوشی کا اظہار کرتےاور ہمیں کلاسز کا دورہ کرواتے۔

جامعہ کراچی میں صبح کی شفٹ میں پڑھنے والے طلبہ یونیورسٹی کی گرمی سے اچھی طرح واقف ہونگے کہ کس طرح سورج اپنی پوری تپش کے ساتھ حاوی ہوتاہے۔ واقعی گرمی سے برا حال ہوجاتا لیکن جب کوئی باکس میں چندہ ڈالتا اور ہمارے اس عمل پر خوشی کا اظہار کرتا/کرتی تو ہماری حوصلہ افزائی ہوتی اور گرمی کی تپش بھول جاتے۔۔۔
ظہر کو جب گھومتے پھرتے تھک کر بھوک سے نڈھال ہوئے تو یہ طے ہوا کہ اگر کچھ تناول نہیں فرمایا تو مزید کام کرنا ناممکن ہوجائےگا۔ چناچہ یونیورسٹی میں واقعی صوفی ڈھابہ کی طرف بڑھے اور پئے پئے چلتے چلتے پہنچے تو کھانے پہ ٹوٹ پڑے گویا کئی دنوں کے بھوکے ہوں۔ جب خوب سیر ہوکر کھایا اور تھکاوٹ بھی کچھ کم ہوئی تو ایوننگ شفٹ کے طلبہ کے آنے کا وقت ہوا لھذا ایک بار پھر کلاسز اور دیگر مقامات کا رخ کیا۔ اگلا دن بھی اسی طرح گزارا کہ تھکاوٹ،گرمی اور بھوک سے بے حال مگر خدمت کا جزبہ دل میں اسی طرح جوان اور مضبوط تھا۔
دو دن یہ مہم چلی پھر جو ذاتی طور پر کچھ رقم پہنچاسکتےتھے انہوں نے پہنچایا۔ کچھ دنوں بعد میم کنیز فاطمہ کے مشورے سے جمع شدہ رقم لیکر کچھ کمبل اور رضائیاں خریدی۔ اب اگلا مرحلہ میں ان تمام کمبل اور رضائیوں کو بیگز میں بند کرنا اور انکی پیکنگ کرنی تھی اس دوران کلاس کے دو اور اسٹوڈنٹس طوبیٰ نسیم اور علی اعزاز نے بھی اس کار خیر میں حصہ لیا اور سعادت سمیٹی۔
یہ سازوسامان کراچی سے بذریعہ مسافر کوچ روانا کیا گیا اور پھر متاثرہ علاقوں میں جب متاثرین میں تقسیم کیا جارہاتھا تو وہ لمحات کیمرےکی آنکھ میں محفوظ ہوکر ہم تک پہنچے۔ ہم نے ان فوٹوز میں لوگوں کو سامان وصول کرتے ہوئے دیکھا انکی آنکھوں کی چمک اور مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر ہمیں لگا کہ واقعی ہم نے بڑا عظیم کام سر انجام دیاہے۔
یہ دو دن اسے حوالے سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ اسکے بعد ڈپارٹمنٹ کے دیگر اسٹوڈنٹس نے بھی سوشل ورک میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اور ہمیں دیکھا دیکھی ڈپارٹمنٹ میں بڑی سطح پر سوشل ایکٹوٹی کا اھتمام ہونے لگا۔
 

Hassan Siddiqui
About the Author: Hassan Siddiqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.