سعودی عرب غیر ملکی ہنر مندوں کی جنت

جہاں سعودی عرب کروڑوں مسلمانوں کے لئے ایک مقدس ملک کا درجہ رکھتا ہے ، وہیں یہ غیر ملکی ہنر مندوں کے لئے ایک بہتر معاشی روزگار کا سب سے اہم ذریعہ بھی ہے۔

گزشتہ چند مہینوں میں سعودی عرب کی کمپنیوں اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکی افراد کی حالت زارکچھ اس طرح غلط انداز میں پیش کی گئی جس کی وجہ سے ا س شعبے سے منسلک لاکھوں افراد شدید متاثر ہوئے اور اس من گھرت منظر کشی کی وجہ سے سعودی عرب اور اس کی کمپنیوں کو بھی بد نام کیا گیا جو کہ سراسر گمراہ کن اطلاعات پر مبنی ہے۔

حقائق کچھ اس طرح سے ہیں کہ تیل کی مسلسل گرتی ہوئی قیمت نے سعودی عرب کی معیشت کو کافی حدتک متاثرکیاجس کی وجہ سے وہاں پر موجودکچھ کمپنیوں کے سعودی گورنمنٹ سے جو معاہدہ تھے وہ بری طرح متاثر ہونے لگے اور جس کی وجہ سے سعودی عرب کی دوبڑی کمپنیوں کے ملازمین عارضی طور پر اس اذیت سے دو چار ہوئے لیکن فوری طور پر سعودی فرمانرواہ نے حکومت کی جانب سے ایک خطیر رقم ان متاثرین کے لئے جاری کی اور یہ معاملہ کا فی حدتک خوش اسلوبی سے طے کرلیاگیا۔ لیکن میڈیا نے ان دو کمپنیوں کے معاملے کو سعودی عرب کی تمام کمپنیوں سے جوڑ دیااور یہ تشہیر کی گئی کہ سب کمپنیوں کا یہی حال ہے اور لوگوں کو نکالا جارہاہے، ان کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں جوکہ سراسر غلط تھا۔ نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ صرف چند کمپنیوں کو مثال بنا کرپورے سعودی عرب اور اس کی کمپنیوں کو بد نام کیا گیا جب کہ باقی تمام کمپنیاں کامیابی کے ساتھ کام کررہی ہیں اور اُن میں کام کرنے والے بھی بہت مطمئن ہیں اور با قاعد گی کے سے اپنے پیاروں کو پیسے بھی بھیج رہے ہیں۔پچھلے دو سالوں میں سعودی عرب نے آمدنی کو بڑھانے کے لئے نئے راستے تلاش کیئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق سعودی عرب اپنے بجٹ کا خسارہ 2017 تک 9.6فیصد پر لے آئے گا جو کے2016 میںGDPکا13فیصد تھا۔

سعودی ویژن2030:
مسلسل تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت کو جو نقصان ہو رہا تھا، اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے اپنی معیشت کا انحصار اب پیٹرول کے بجائے اس کے متبادل ذرائع پر کرنے کے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کو سعو دی 2030ویژن کا نا م دیا گیا۔ اسی پلان کے تحت سعودی عرب نے ایک خود مختار فنڈ تشکیل دیا ہے۔ جس کا نام سرکاری ملکیتی پبلک فنڈ(پی آئی ایف) ہے اب ایک نئے معاہدے کے بعد یہ دنیا کا طا قتور خود مختار فنڈ بن جائیگا ۔ برطانوی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق آئندہ سال سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو کے 5فیصدحصص کی فروخت سے ایک سوارب ڈالرز کی رقم حاصل ہوگی۔اس پلان کے تحت سعودی عرب اب سروسز سیکٹر جن میں صحت، تعلیم ، تعمیراتی اور انفرااسٹکچر اور ٹورزم شامل ہیں ان پر ز یادہ انحصار کرے گا اور پیٹرول پر انحصار ی سے آ زاد ہو نے کی کو شش کرے گا۔اسی نئے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے سعودی عرب گرین کا رڈ اسکیم بھی شروع کرے گا۔

اور سیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کا پاکستانی معیشت میں کردار:
یہ وہ محرومی کاشکار طبقہ ہے کہ جس کی محنت تگو دو اور کو ششوں سے لاکھوں افراد بیرونِ ملک روزگارحاصل کرنے جاتے ہیں اور پاکستان کو سا لا نہ ار بوں روپے کی جو ترسیلات زر آتی ہیں اُس میں ایک بہت بڑا حصہ ان پروموٹرز کا ہوتا ہے ۔یہ وہ طبقہ ہے جو ہمیشہ سے حکومتی سر پرستی کا محتاج رہا۔اور ان کے متعلق غلط باتیں منسوب کی جا تی ر ہیں۔بعض دفعہ تو ان کو انسانی اسمگلرز سے بھی جوڑا جا تارہا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔یہاں یہ بات ہم سب کواچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ پروموٹرز نہ تو ایجنٹ ہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کے غیر قانونی کام میں ملوث ہوسکتے ہیں عام عوام کی معلومات میں اضافے کے لئے یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ پرومو ٹرز بیرونِ ملک نوکری پر بھیجنے کے لئے پاکستانی حکو مت سے اورسیز ایمپلائمنٹ لا ئسنس حاصل کرتے ہیں جو کہ خود ایک طویل عمل ہے جس میں تین حکومتی ادارے اِن کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے ہیں جو کہ وزرات داخلہ کے ما تحت ہیں ۔اس کے بعد بیورو میں ان کا انٹرویو ہو تا ہے ۔ پھر کہیں جا کر ان کو حکومتی لائسنس دیا جاتا ہے۔اُس کے بعد بھی ہر نو کری کی ڈیمانڈ پر ان کوحکومت سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی ہے ۔ اتنے سارے مراحل سے گزر کر پھر کہیں جا کہ یہ پاکستانی افرادی قوت یہاں سے بیرونِ ملک بھیجتے ہیں۔اور ان تمام موٹرز کا ریکارڈ حکومت کے پاس ہمیشہ محفوظ ہوتا ہے ۔اس صورتِ حال میں یہ کسی غیر قانونی عمل میں ملوث ہو ہی نہیں سکتے اس لئے ہمیں ان کے کردار کو سرہا نہ چاہیئے اور ان کو غیر قانونی کام کرنے والے لوگوں سے کسی بھی نہیں ملانا چا ہیئے۔ ان پروموٹرزحضرات نے اپنے حقوق اور اپنی بات حکومت تک پہنچانے کے لئے اپنی ایک تنظیم بنائی جو حکومت میں(POEPA)پاکستان اورسیز ایمپلائمنٹ ایسوسی ایشن کے نام سے رجسٹر ہے۔ اس تنظیم نے ہمیشہ پروموٹرز کی بھلائی اور اُن مسائل حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی اور آج بھی کررہے ہیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ آج تک حکومت نے اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو انڈ سٹری کا درجہ نہیں دیا۔جو کہ بہت پہلے مل جا نا چاہیئے تھا۔یہ پروموٹرز پاکستان سے ایک بڑی تعداد میں لوگ حکومتی قواعدضوابطہ کے مطابق برآمد کرتے ہیں ۔جس سے پاکستان کو بہت زیادہ غیر ملکی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔لیکن ان پروموٹرز کی کاوشوں کو نہ توسراہا جاتا ہے اور نہ ہی اِن کو وہ مقام دیا جاتا ہے تو دوسرے برآمدگان کو حاصل ہے۔جس کی وجہ سے اِن میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔اگر حکومت اِن پروموٹرز کی سر پرستی کرے اور اِن کوساتھ لے کے چلے تو یہ پاکستانی افرادی قوت کی حالیہ تعدادمیں کافی حدتک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اور اس سے پاکستان کے زر مبادلہ میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہو گا ۔ ان حالات میں حکومت کو بہت سنجیدگی سے پروموٹرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے۔شایدپہلے کبھی نہیں تھی اور پروموٹرز بھی حکومت کی طرف سے اُٹھانے والے اقدامات کے بے چینی سے منتظر ہیں تا کہ پاکستانی معیشت کو ایک مستحکم سہارا دیا جا سکے جو کہ 2016َْ؁ء کے آخر سے سعودی عرب سے کم ہو تی ہوئی ترسیلات زر کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے ۔

افرادی قوت برآمدکرنے میں حکومتوں کا کردار:
ان تمام ممالک جن کی افرادی قوت کی مانگ دوسرے ممالک میں ہمیشہ رہی ہے وہ تما م ممالک اپنی افرادی قوت بیرونِ ملک بھیجنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ذرمبادلہ اِن کے ملک میں آسکے۔لیکن اگر حکومتیں سُست روی کا شکار رہیں تو وہ بیرونی منڈی میں اپنا حصہ کھوسکتے ہیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 2016 ؁ء میں صرف سعودی عرب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر5.9عرب ڈالر سے بھی زیادہ تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بیرونِ ملک افرادی قوت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کرداراداکررہی ہے۔ لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتاہے کہ اس ملک کی اہم معاشی ستون کونہ تو کبھی اہمیت دی گئی اور نہ ہی اس کی سرپرستی کی گئی حتیٰ کہ ان ممالک سے جہاں ہماری افرادی قوت کی مانگ ہے اُن سے کبھی بھی نتیجہ خیز مزاکرات نہیں کیئے گئے۔جبکہ دوسرے ممالک تیزی سے اُن تمام ممالک سے اپنے سفارتی تعلقات بہتر سے بہتر بنارہے ہیں ۔ حال ہی میں بنگلہ دیش نے اپنی پہلی جاب فیئر ـــــ سعودی عرب میں منعقد کی ہے۔ جو کہ فروری2017 کے پہلے ہفتے میں ریاض اور جدّہ میں مرحلہ وارشروع کی گئی۔اس نمائش کامقصد سعودی عرب کی کمپنیوں کو بنگلہ دیش کی افرادی قوت اور اورسیزپروموٹرزسے متعارف کرانا تھا اور نئے معاہدے کرنا تھا۔ اس نمائش میں بنگلہ دیش کے سفیر ، منسٹر کے سیکر یٹری اور بنگلہ دیش سے بیرونِ ملک بھیجنے والے پروموٹرز کی تنظیم کے صدربھی موجود تھے۔ اس طرح سے بنگلہ دیش کی حکومتی کا وشوں کے نتیجے میں اس کی افرادی قوت پرملائشیاء کی طرف سے لگی پابندی بھی ہٹالی گئی دوسری طرف انڈیا اور نیپال بھی بڑی تیزی سے قطر کی منڈی میں اپنی افرادی قوت بھیجنے کے لئے تگو دو کررہے ہیں۔ہماری حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ اس طرف ایمرجنسی بنیاد پر توجہ دے کیو نکہ حالیہ بدلتے ہوئے دنیاوی معاشی حالات میں ہمیں ہر سطح پراپنے سفارت خانے کے ذ ریعے کو شش کرنا ہونگی۔ ایشین اکانومک انٹر یگریشن رپورٹ2016(AEIR)؁ء کے مطابق پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے جن کے پاس بڑھتی ہوئی افرادی قوت ہے جو کہ بیرونِ مما لک میں اچھی تعداد میں برآمد کی جا سکتی ہے۔ پاکستان اُن خوش قسمت ممالک میں ہے جہاں کی آبادی کا زیادہ تناسب نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ ہماری حکومت کو اس نعمت کافائدہ اٹھانا چاہیے اور ان تمام ممالک میں اپنے وفود بھیجنے چاہیئے جن میں پاکستان اورسیز ایمپلائمنٹ ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی حکومتی وفد کے ساتھ شامل ہوں اور مل کر پاکستان کی بہتر معیشت کے لئے ان تمام ممالک سے جہاں جہاں پاکستان کی افرادی قوت کی ضرورت ہے کامیاب مزاکرات کیئے جائیں۔دوسرے ممالک کی طرز پر سعودی عرب میں ایک جاب فیئر کا انعقاد کیا جا ئے جس میں سعودی مقامی ریکروٹرز اور وہاں کی کمپنوں کو دعوت دی جائے اور پاکستان سے اورسیز مین پاور ریکروٹرز کے وفد کو بھی بلایاجائے لیکن افسوس کہ ابھی تک حکومتِ وقت اس اہم مسئلے پر خاموش ہے۔

Danish Hussain
About the Author: Danish Hussain Read More Articles by Danish Hussain: 7 Articles with 8306 views Member - FPCCI Standing committee for Manpower Export
Member – Pakistan Overseas Employment Promoters Association (POEPA)
British Council Trained Sr
.. View More