جنت اور اس کی نعمتیں کس پر حرام ہیں؟

پچھلے چند مضامین میں ہم نے جنت کی نعمت بھری زندگی کے بارےمیں جانا۔اب آئیے یہ جانتے ہیں کہ وہ کون بدنصیب لوگ ہیں جن پر جنت اور اس کی نعمتوں کو حرام کردیا گياہے۔ اس معاملے میں بھی قرآن عظیم نے ہمیں رہنمائي سے محروم نہیں رکھا بلکہ ان لوگوں اور ان کے جرائم و صفات کے بارےمیں بتلا دیا ہے جوکبھی بھی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔آئیے قرآن کی اس رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں تاکہ اگر کہیں ہم بھی انہی لوگوں کے راستے پر جا رہے ہوں تو توبہ کرلیں اور پلٹ آئیں۔

•وہ کافرجنھوں نے کفر کیا اور پھر کفر پرہی مر گئے

جو لوگ کفر کرتے ہیں اور کافر ہی مرتے ہیں قرآن حکیم ان کے بارے میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ان کا یہ گناہ کبھی معاف نہ کیا جائے گا اور وہ جنت میں کبھی نہ جائیں گے:

سورة محمد ( 47)
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ {34}
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا پھر کفر ہی کی حالت میں مر گئے ان کو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔

سورة البقرة ( 2 )
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ{161}خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ{162}
جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر کی حالت میں ہی مر گئے، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں کوئي تخفیف ہو گی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جا‎ئے گی۔

سورة آل عمران ( 3 )
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الأرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ {91}
یقین رکھو،جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی، ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئي مددگار نہ پائیں گے۔

ان کافروں سے قیامت کے روز کہا جائے گاکہ:

سورة الأحقاف ( 46)
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ {20}
پھرجب یہ کافر آگ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا:“تم اپنے حصّے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لُطف تم نے اُٹھا لیا، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں اُن کی پاداش میں آج تم کو ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔

•شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے

اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے، وہی ہمیں رزق دیتا ہے، اسی کی بنائی زمین و کائنات میں ہم رہتے ہیں اور ہماری زندگی کے تمام اسباب و وسائل اسی نے مہیا کیےہیں، ان نعمتوں پرمزید یہ کہ اس نے ہمیں سوچنے سمجھنے والے دل اورعقل عطا فرمائی۔غرض خدا کی نشانیوں میں غور وفکر کیجیے تو جانیں گے کہ کائنات میں بلاشرکت غیرےبس اللہ ہی کی حکومت،بادشاہی اور فرمانروائی چل رہی ہے اور ہماری زندگي کا ایک ایک سانس خالص اسی کی عطا، کرم اور مہربانی ہے جس میں کسی دوسرے کی کوئی شرکت نہیں اور اسی اقرار و عہد کا وہ ہم سے مطالبہ بھی کرتا ہے کہ ہم بس اسی کی بندگی اور اطاعت کریں اور اس کی ذات، صفات، حقوق بندگی، اختیارات، ارادوں، فیصلوں،بادشاہی اور حکومت میں کسی کو شریک نہ کریں۔اب اس ایک ہی اللہ کی تخلیق ہو کر، اس کا دیا ہوا رزق کھا کر اور اس کے بنائے زمین و آسمان کی حدود میں رہ کر جب ہم اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں تو یہ وہ انتہائی سنگین جرم ہے جس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ(بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے) اور یہ بات قرآن میں اپنے محبوب بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کی زبانی ہمیں بتلائی گئي جن کو اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی:

سورة لقمان (31 )
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ {12} وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ {13}
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو ۔ جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے ۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اُس نے کہا “ بیٹا ! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔"


اسی مضمون پرکچھ احادیث مبارکہ بھی ملاحظہ ہوں:

سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد (سیدنا ابو بکر)ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپﷺ نے یہی فرمایا (پھر فرمایا کہ)اللہ کے ساتھ شرک کرنا (یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے ) دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اور رسول اللہﷺ تکیہ لگائے بیٹھے تھے ، آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ فرمانے لگے (تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں) حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپﷺ خاموش ہو جائیں۔ (تاکہ آپ کو زیادہ رنج نہ ہو ان گناہوں کا خیال کر کے کہ لوگ ان کو کیا کرتے ہیں)۔ (صحیح مسلم)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔
2۔ جادو کرنا۔
3۔ اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔
4 ۔ سود کھانا۔
5۔ یتیم کا مال کھا جانا۔
6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔
7۔ اور شادی شدہ ایمان دار ، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، تہمت لگانا۔
(صحیح مسلم)

اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا ظلم اور بدترین جرم ہے۔یہ ایسا بھیانک و گھناؤنا کام اور ایسی خوفناک غلطی ہے کہ جو شخص شرک میں ملوث رہا اور توبہ کیے بغیر مر گیا اور اللہ کے ہاں اس حال میں حاضر ہو کہ ساتھ میں شرک لیے ہوئے ہے تو اس کا یہ گناہ اس دوزخ میں لے جائے گا کیونکہ یہ اللہ کی کتاب میں ناقابل معافی گناہ ہے اور اس کے مرتکب پر اللہ نے جنت حرام کر دی :

سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا {48}
اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔

سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا {116}
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔

سورة المائدة ( 5 )
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ {72}
جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھردایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے او ر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

شرک کی معافی کیوں نہیں اور مشرک پر جنت کیوں حرام ہے ،علماء نے اس بات کو سمجھانے کےلیے بڑی خوبصورت مثالیں دی ہیں۔جن میں سے ایک مثال میاں بیوی کے رشتے کی دی گئی ہے۔وہ اس طرح کہ ایک سلیم الفطرت شخص کبھی اپنی بیوی میں دوسرے کی شراکت برداشت نہیں کر سکتا۔ایک طرف تو وہ اپنی بیوی کے لیے دن رات محنت کر کے کما رہا ہو، اسے کھلا پلا رہا ہو اوراسے ہر سہولت فراہم کر رہا ہو، دوسری طرف اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس کی بیوی کی دلچسپی ، محبت اور تعلق اس کےساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہے یا وہ ان حقوق میں جو خاص اس کے لیے ہی ہیں کسی دوسرے کو بھی شریک کرتی ہے تو اپنی بیوی کی یہ غلطی وہ کبھی معاف نہ کرے گا ہاں باقی جتنی بھی خامیاں ہوں وہ معاف کی جا سکتی ہیں اور ان کوتاہیوں کے ساتھ بھی یہ تعلق تمام عمر نبھ سکتا ہے اور نبھتا ہے لیکن ایک بیوی کی طرف سےشوہر کے خاص حقوق میں دوسروں کی شراکت ایک ایسی غلطی ہے جس کو ایک ایساشوہر جس کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہوکبھی معاف نہ کرےگا۔

اب یہ تو بات سمجھانے کے لیے محض ایک مثال ہے اور ایک ایسے انسانی رشتے کا حال ہے جو چند لفظوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور جس رشتے کی خالق و مخلوق کے رشتے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ غور فرمائیے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق خالق اور مخلوق کا ہے جو کہ ہمارا سب سے پہلا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک ورب مانیں یا نہ مانیں وہ بہرحال ہمارا خالق و مالک ورب ہے۔جس طرح کوئی اپنے والدین کے رشتے سے انکار نہیں کرسکتا اسی طرح اپنے خالق کے رشتے کابھی انکار بھی نہیں کر سکتا۔اسی مثال سے علماء نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں کسی دوسرے کی شرکت کے بغیرپیدا تو اللہ کرتا ہے، رزق دیتا ہے، ہم ساری زندگی اسی کے انتظام پر جیتے ہیں اور کہیں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی دوسرا حقیقتا ہماری زندگی برقرار رکھنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتا توبھلا خدا کی غیرت کیوں یہ گوارا کرے کہ ہم اس کی مخلوق ہو کر اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کریں ۔ ہمیں زندگی وہ عطا کرے اور ہماری نیاز مندیاں دوسروں کے لیے وقف ہوں، ہم رزق کھائیں اللہ کا، زندہ رہیں اللہ کی مہربانی سے اور ہمارا خوف اورہماری امیدیں دوسروں سے وابستہ ہوں، ہمیں سب کچھ عطا اللہ فرمائے اور ہم سر جھکائیں اوروں کے دروں پر جو خود ہمارے ہی جیسی کمزورمخلوق ہیں ۔

شرک کی بنیاد میں ہی یہ خیال اور یہ عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی کمزوری ، محتاجی اور عیب کو منسوب کیا جائے حالانکہ وہ ہر کمزوری، محتاجی اور عیب سے پاک ہے اور یہ اللہ کی توہین ہے کہ اسی کا ساختہ پرداختہ کوئی شخص اٹھ کر اسی کی مخلوق میں سے کسی کو اس کے ساتھ شریک کرے۔ اور اللہ کی یہ توہین ایک ایسا گناہ ہے جسے وہ کبھی معاف نہ کرے گا۔

بس یہی وہ جرم عظیم ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس کی معافی کوئی نہیں جیسا کہ اوپر آیات میں ذکر آیا اوریہ معاملہ ایسا حساس ہے کہ:

سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخی نے نبیﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔(صحیح مسلم)

اورنیتوں اور دلوں کے خیالات اور وسوسے تک جاننے والا اللہ صرف وہ اعمال قبول فرماتا ہےجو خالص اسی کے لیے کیے جائیں۔ وہ کوئي بھی ایسا عمل قبول نہیں کرتا جس میں اس کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کیا جائے۔جو کوئی ایسا عمل کرے تو پھر اپنے عمل کی جزا کی جھوٹی توقع بھی اسی سے رکھے جسے اس نے اس عمل میں اللہ کے ساتھ شریک کیا۔خدا کے ہاں اس کا یہ عمل مردود ہے۔ حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بے پروا ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور شریک کیا تو میں اس کو اور اس کے شریک کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (یعنی اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)۔ (صحیح مسلم)

سارے اعمال کو برباد کر دینے والے اسی گناہ یعنی شرک سے بچنے کے لیے سارے انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کی طرف یہ وحی کی گئي کہ:

سورة الزمر ( 39 )
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ {65} بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ {66}
(اے نبیؐ )تمہاری طرف اور تم سے پہلےگزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے میں رہوگے۔ لہٰذا تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔

شرک وہ نجاست اور گندگی ہے جس کے ساتھ کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی:

سورة التوبة ( 9 )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ۔۔۔ {28}
اے ایمان لانے والو!مشرکین ناپاک ہیں۔

شرک جنت کو حرام کر دینے والا ناقابل معافی گناہ ہے اس لیے اے ایمان والو شرک سے بچنا:

سورة يوسف (12 )
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ {106}
ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔

اوراگر اب تک اس جرم میں مبتلا رہے ہیں تو زندگي کی اگلی سانس سے پہلے ہی توبہ کر لیجیے کہ توبہ ہر گناہ کو مٹا دیتی ہے:

سورة مريم ( 19 )
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا {60}
البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔

•اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کرنے والے

سورة الأعراف ( 7 )
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ {40} لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ {41}
یقین جانو جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہو گا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۔

•دین کو کھیل تماشااور مذاق بنا لینےوالےوہ لوگ جو اللہ کی باتوں اور احکامات کی توہین کرتے ہیں اوران کاتمسخر اڑاتے ہیں

سورة الأعراف ( 7 )
وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُواْ عَلَيْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ {50} الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَـذَا وَمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ {51}
اوردوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ “اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔"

•کسی مومن کو ناحق جان بوجھ کر قتل کرنےوالے

سورة النساء ( 4)
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا {93}
جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

علماء نے اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص کسی مومن کے ناحق قتل کو جائز سمجھ کر اسے قتل کرتا ہے وہ اس زمرےمیں آتا ہے نہ کہ وہ جس سے غلطی یا اتفاقی غصہ کی بنا پر یہ جرم سرزد ہوجائے۔( واضح رہے کہ حق کے ساتھ قتل کیا جانا اسلامی حدود و قوانین کے نفاذ میں قتل کیا جاناہے مثلاقصاص میں قتل کیا جانا، شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جانا وغیرہ)۔

ایک مومن کی جان اللہ کی نگاہ میں کس قدر قیمتی ہے اس کا اندازہ آپ اوپر کی آیت سے لگا لیجیے۔یہ وہ سخت ترین سزا ہے(جہنم میں ہمیشہ رہنا، اللہ کا غضب ، اللہ کی لعنت اور عذاب عظمی) جو کسی ایک گناہ کی قرآن میں بیان کی گئی ہےلہذا اس آیت سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے گا کیونکہ آج کے پر فتن دور میں وہ تمام لوگ جو اہل ایمان کے قتل ناحق کو جائز سمجھتے ہیں، اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل درآمد کرتے ہیں اس آیت کی زد میں آتے ہیں۔ بھلے وہ حکومتی اقتدار کو استعمال کر کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے مسجدوں کے اندر اپنے کلمہ گو بھائیوں، بیٹوں اور بیٹیوں کو شہید کرنے والے ظالم ہوں ،محض اپنا رعب و دبدبہ بٹھانے کے لیے سرعام سڑکوں پرعام لوگوں پر فائرنگ کرنےوالے ہوں، خوف و ہراس پھیلانے کےلیےٹارگٹ کلنگ کرنےوالے ہوں، دوسروں کو محض اس لیے قتل کر دینےوالے ہوں کہ وہ ہمارے فرقے یا پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا، مسجدوں کو غیر محفوظ بنانے والے ہوں، یا پھر دشمن کے آلہءکار بن کر چوکوں ، چوراہوں اور عام لوگوں کی مصروف گزرگاہوں پر دہشت پھیلانے کے لیےبم دھماکے کر کےمعصوم اہل ایمان کی ناحق جان لینے والے ہوں۔ان سب کو قرآن کی اس آیت کے آئینے میں اپنا چہرہ اور انجام دیکھ لینا چاہیے۔

اسی بارے میں کچھ روایا ت میں تو اس طرح آیا ہے کہ مومن کی جان کی حرمت بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ کعبۃ اللہ کی حرمت، اور یہ کہ مومن کو ناحق قتل نہ کیا جائے بھلے زمین و آسمان جلادیے جائیں۔

مومن کی جان تو کیا اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کسی ایسے کافر کو ناحق قتل کیا جائے جو ذمی ہو۔ حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

سیدنا عبداللہ بن عمر وؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی ذمی کا فر کو نا حق قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم)

انسانی جان اسلام کی نگاہ میں اتنی قیمتی ہے کہ قرآن نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے:

سورة المائدة ( 5 )
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۔۔۔ {32}
جس نے کسی انسان کو خُون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانون کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

اسلام تواپنی جان لینے کو یین خود کشی کو بھی سخت قابل مذمت فعل اورحرام موت قرار دیتا ہے۔ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

سیدنا جندبؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ ایک شخص کے کچھ زخم لگ گیا تھا، اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے مجھ سے سبقت کی (یعنی اپنی جان خود دے دی) لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔"(صحیح مسلم)

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اپنی جان گلا گھونٹ کر دیتا ہے وہ اپنا گلا دوزخ میں برابر گھونٹا کرے گا اور جو شخص زخم لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے وہ دوزخ میں برابر اپنے آپ کو زخم لگایا کرے گا۔"(صحیح مسلم)

•سود کھانے والے جو توبہ نہ کریں

سورة البقرة ( 2 )
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {275}
جو لوگ سُود کھاتے ہیں ، اُن کا حال اُس شخص کاسا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چُھوکر باوٴلا کر دیا ہو۔اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:”تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی چیز ہے “، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔

•دماغوں میں بسی جھوٹی بڑائی اور تکبر کے باعث سچائی کو نہ ماننے والے، اللہ کے احکامات کی پروا نہ کرنے والے اور دوسروں کو حقیر جاننے والےمغرور اور متکبر لوگ

سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا(اوروں سے ) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے ؟) آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے ) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔ (صحیح مسلم)

متکبرین کے متعلق اللہ کے یہ فرامین بھی ذہن میں رہیں:

سورة الأعراف ( 7 )
سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الرُّشْدِ لاَ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ {146} وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَلِقَاء الآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ {147}
میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کِسی حق کے زمین میں تکبر کرتے ہیں (بڑے بنتے ہیں)، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے ، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ اُنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھُٹلا یا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔ ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھُٹلا یا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ کیا لوگ اِس کے سِوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟

سورة النساء ( 4) إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا {36}
یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔

سورة لقمان (31 )
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ {18}
بے شک اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔

سورة الحديد ( 57 )
وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ {23}
اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں۔

کچھ احادیث مبارکہ:

سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عزت اور بڑائی اللہ تعالیٰ کی چادر ہے (یعنی یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں) پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ جو کوئی یہ مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو عذاب دوں گا۔(صحیح مسلم)

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا غرور سے زمین پر کھینچے (گھسیٹے )۔(صحیح مسلم)

کچھ احادیث مبارکہ اہل جنت کے بارے میں:

سیدنا حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کی خبر نہ دوں (کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں )؟ جنتی ہر وہ شخص جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر و ذلیل ہو اور اللہ کے بھروسے پر کسی بات کی قسم کھا لے تو اللہ اس کو پورا کر دے اور کیا میں تمہیں دوزخیوں کی خبر نہ دوں ( کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں )؟ دوزخی شریر،مغرور،اور متکبر لوگ ہوتے ہیں۔ ‘‘(صحیح بخاری)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’ دوزخ اور جنت نے آپس میں بحث کی۔ دوزخ نے کہا کہ میں متکبر اور ظالم لوگوں کو عذاب دینے کے لیے مخصوص کر دی گئی ہوں اور جنت نے کہا کہ معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ مجھ میں تو وہ لو گ آئیں گے جو(دنیا کے لحاظ سے) غریب ، محتاج ، نظر سے گرے ہوئے ہوں گے۔(صحیح بخاری و مسلم)

متکبرہوناصرف اللہ کی صفت ہے اور تکبر صرف اللہ ہی کو جچتا اورزیب دیتا ہے ۔اب کوئی اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے تو ہم کہتے ہیں کہ مغرور ہو گيا ۔غرور کےلفظی معنی ہیں دھوکہ۔ یعنی کوئی تکبر کرنے لگے تو مطلب یہ ہواکہ وہ دھوکے میں پڑگیا ہے۔دنیا کی زندگی بھی متاع الغرور یعنی دھوکے کا سامان ہے۔مخلوق تو نام ہی محتاجی اور کمزوری کا ہے اور مخلوق کی بڑائی اکڑنے میں نہیں بلکہ اس میں ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک پروردگار کے سامنے جھک جائے، اس کا تقوی اور عاجزی اختیار کرے کیونکہ اسی میں مخلوق کی عزت ہے۔

تکبر بدبختی کا نام ہے بعض سلف نے کہا ہے کہ غرور کرنے والا علم اور معرفت سیکھ ہی نہیں سکتا۔داعیان الی اللہ کی زندگی کاتجربہ ہے کہ جو لوگ متکبر و مغرورہوتے ہیں انہیں حق بات کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ ہم بڑے ہیں اور دوسروں سے افضل ہیں اس لیے ہم سےبہتر کوئی نہیں جانتا اور یوں یہ لوگ سچائی کی رہنمائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔حالانکہ صحیح رویہ یہ ہے کہ حکمت کے موتی جہاں سے بھی ملیں اپنی جھولی میں ڈال لینے چاہییں۔

تفسیر ابن کثیر سے تکبر کی مذمت میں کچھ جملے ملاحظہ فرمائیے:
انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔پھر اپنی نافرمانی کے عذاب میں پھنس جاتا ہے۔تکبر کی مذمت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی پیدائش کے بیان میں فرمایا کہ دوشخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے اور اس طرح اس بیان فرمایا کہ سننے والے گھن کرنے لگے۔حضرت حسن کا مقولہ ہے کہ وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بنا پر تکبر کرتاہے۔امام محمد بن حسین فرماتے ہیں کہ جس دل میں جتنا گھمنڈ اور تکبر ہوتا ہے، اتنی ہی عقل اس میں کم ہوتی ہے۔(بحوالہ تفسیر ابن کثیر،تفسیرسورۃ لقمان آیت 18)

غور کیجیے کہ جو انسان زندگی کی ایک ایک سانس کے لیے محتاج ہے، جو اپنے پیٹ میں پاخانہ لیے گھومتا ہے اسے بھلاتکبر کیونکر زیب دے سکتا ہے۔

تکبر شیطان کی سب سے بڑی غلطی ہے جس نے اسے مقرب سے مردود کر دیا۔دل میں اگر اپنی بڑائی کا کیڑا پڑ جائے تو اللہ کی ہدایت کے راستے بند ہوجاتے ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر آیت میں پڑھا۔انسان کی خیر، بھلائی اور فلاح اللہ کے سامنے جھک جانےمیں اور اللہ کی غلامی قبول کر لینے میں ہے۔اسلام اور ہدایت بندگي ءرب کا اور بس اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔دلوں کو تکبر کا مرض لگ جائے تو یہ انسان کو جھکنے نہیں دیتا اور شیطان کے راستے اور انجام پر ڈال دیتا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی اور رسول کی مخالفت کرنے والے اس معاشرے کے متکبرکھاتے پیتے لوگ اور سردار تھے۔ اللہ ہمیں اس خطرناک مرض سے محفوظ رکھے۔

مختصرا یہ کہ
•کفر
• شرک
• اللہ کی آیات کو جھٹلانا، ان کے مقابلے میں سرکشی کرنا، ان کی توہین کرنا اور ان کا مذاق اڑانا۔
•کسی مومن کا ناحق قتل
•سود کھانا
•غرور و تکبر اور دوسروں کو حقیر جاننا

یہ سب وہ خطرناک ترین گناہ ہیں کہ اگر ان سے توبہ نہ کی جائے اور ان پر انسان کو موت آجائے تو یہ انسان کو جنت اور ا س کی نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں۔

یہ بھی واضح رہے کہ کسی جرم کی سزا اس کے دورانیے پر نہیں بلکہ نوعیت پرہوتی ہےاوراوپر پیش کردہ جرائم خدا کی نظر میں ایسی سنگین نوعیت کے ہیں کہ جوانسان کے لیے جنت سے محرومی اور جہنم کی سزا کی صورت میں بہت بڑے نقصان اورخسارے کا باعث بن جاتے ہیں۔

آئیے اللہ کے حضور توبہ کریں تاکہ اگر ہم سے جانے یا انجانے میں یہ گناہ سرزد ہوئے ہوں تو اللہ ہمیں معاف فرما دے اور دعا کریں کہ اللہ آئندہ ہمیں ان تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہم پر جنت کو حرام کر نے کا باعث بن سکتے ہیں۔(آمین)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45795 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.