تربیت اور ڈسپلن!

ہندوستان پاکستان پر ہمیشہ یہ الزام عائد کرتا رہا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کو تربیت دی جاتی ہے اور انہیں پاکستان سے باہر بالخصوص ہندوستان اور کشمیر میں دہشتگردی کی کاروائیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1999تک ہندوستان اور پاکستان کی سرکاری پوزیشن یہ تھی کہ ہندوستان الزام دوہراتا اور پاکستان اسکی سختی سے تردید کرتاتھا۔ لیکن جب 1999میں جنرل مشرف نے پاکستان کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی تو انکے دور میں پاکستان کی سرکاری پوزیشن میں تبدیلی آئی ۔ پاکستان نے پہلی بار سرکاری طور پر مجاہدین کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی کا اعتراف کیا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مجاہدین کو پاکستان کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور یو ں کئی دہائیوں سے پاکستان پر جو الزام عائد کیا جاتا تھا وہ اعتراف جرم بن کر دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان کی سرکاری پوزیشن میں تبدیلی کی جو غلطی جنرل مشرف نے کی اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور یہ اسی اعتراف جرم کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا ہمارے سچ کو بھی سچ ماننے کیلئے تیار نہیں ۔بلاشبہ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑدی ہے اور دہشتگردی کی اس جنگ میں ہماری فوج اور خفیہ اداروں نے بیمثال کارنامے انجام دیئے ہیں لیکن دنیا ہماری کامیابیوں کو سراہتی تو کیا وہ تو وہ ہماری قربانیوں کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک ہم الزام کی تردید کرتے رہے یہ محض الزام ہی رہا لیکن جب ہم نے سچ بول دیا تو یہ ہمارا جرم بن گیا ۔ ایک ایسا جرم دنیا جسے معاف کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام بھی اسی اعتراف سے نکلا ہے ۔ عالمی بیانیہ یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان دہشتگردوں کو تیار کرتا ہے اور دوسری طرف یہ خود دہشتگردی کا شکار ہونے کا رونا بھی روتا ہے ۔ ایک طرف یہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ کا حصہ ہے دوسری طرف یہ انہیں پناہ بھی دیتا ہے تو پاکستان پر بھروسہ کیوں اور کیسے کریں؟

جنرل مشرف کا اعتراف یہ تھا کہ پاکستان ایسا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں کر رہا ۔جنرل مشرف نے یہ اعتراف اسلیئے کیا کہ وہ ہندوستان کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ سیاسی فوائد حاصل کر سکیں اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکال سکیں ۔ مسئلہ کشمیر تو حل نہ ہوا لیکن انکا اعتراف جرم پاکستان کے گلے کی ہڈی بن گیا جسے نہ ہم نگل سکے نہ اگل سکے ۔ آج جہاں بھی پاکستان اوردہشتگردوں کے تعلق پر بحث ہوتی ہے تو مشرف کا اعترافی بیان بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان اب بھی اپنی سابقہ روش پر گامزن ہے ۔

گھر کو صاف کرنے کی بات کرنیوالے محتاط رہیں مشرف کی غلطی دوہرا کر پاکستان کے خلاف عالمی بیانیہ کو تقویت نہ دیں ۔ دہشگردی کی اس جنگ میں پاکستان نے بہت قربانیا ں دی ہیں ۔بار بار گھر کو صاف کرنے کی بات کرکے ان قربانیوں پر پانی نہ پھیریں کیونکہ گھر کو صاف کرنے کی بات کا مطلب وہی ہے جو دنیا کہہ رہی ہے یعنی پاکستان میں اب بھی دہشتگردوں کی پناگاہیں ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ریمنڈیوس سی آئی اے کیلئے کام کرتا تھا ، لیکن کیا امریکہ نے سرکاری طور پر اس حقیقت کو تسلیم کیا، بالکل نہیں ، صدر اباما تک نے یہی بیان دیا کہ ریمنڈیوس ایک سفارتکار ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کلبھوشن یادو بھارتی نیوی کا ایک حاضر سروس آفیسر ہے جو پاکستان میں باقاعدہ دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے ، لیکن کیا ہندوستان نے سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا ، قطعانہیں۔پاکستان میں 90%دہشتگردی کی وارداتوں میں ہندوستان کا ہاتھ ہے ۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہندوستان کی ریاستی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے ۔ لیکن کیا کبھی ہندوستان نے اسے تسلیم کیا ، نہیں ۔ کیا کبھی ہندوستان میں راء پر تنقید کی گئی، کیا کبھی ہندوستان میں راء کے دہشتگرد تنظیموں سے رابطوں کا واویلا مچایا گیا ، ہرگز نہیں ۔ سی آئی اے پوری دنیا میں جو کچھ کررہی ہے کیا کبھی امریکہ میں اسکی کاروائیوں پر کسی نے اعتراض کیا ۔ تو پھر ہم پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ہر وقت تنقید کا نشانہ کیوں بناتے رہتے ہیں ۔ ہم اپنی ہی فوج کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں جیسے دشمن کی فوج بارے بات کر رہے ہوں۔ جب سے یہ دہشتگردی کی جنگ شروع ہوئی ہے تقریبا آدھی دنیا کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں براجمان ہیں کس کا کیا ایجنڈا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ ہمیں اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ایک اکیلی آئی ایس آئی ان تمام ایجنسیوں سے نبرد آزما ہے اور دن رات پاکستان کے مفاد کی حفاظت پر مامور ہے ۔ بارڈر پر شہید ہونے والے فوجی جوانوں کی خبر تو کسی ذریعہ سے عوام تک پہنچ جاتی ہے لیکن خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی شہادت تو خفیہ ہی رہ جاتی ہے ۔ نجانے روز کتنے گمنام مجاہد پاکستان کیلئے اپنی جان کی قربانی دیتے ہیں ۔ ہمیں ان قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے اور بات سوچ سمجھ کر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے یا پھر چپ رہنا چاہیے کیونکہ خاموشی عقلمند کا ہتھیا ر اور بیوقوف کیلئے پردہ ہوتی ہے ۔ سمجھدار کیلئے اشارہ ہی کافی ہے ۔

Zahid Abbasi
About the Author: Zahid Abbasi Read More Articles by Zahid Abbasi: 24 Articles with 22471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.