صنم آشنا

شہر میں کپڑا فروشوں کی وہ سب سے بڑی دوکان تھی دوکان کے ماتھے پر کلاتھ ہاؤس کا ایک بڑا سائن بورڈ آویزاں تھا جس کو بجلی کے قمقموں سے رات کو روشن رکھا جاتا تھا تاکہ گاہک کو سجاوٹ سے متاثر کیا جا سکے اس اکیلے سائن بورڈ کا ماہانہ بجلی کا بل ٣ ہزار سے زیادہ تھا دوکان کے مالک کا شمار شہر کے سرکردہ مالدار لوگوں میں ہوتا تھا، کئی کوٹھیوں، پلاٹوں اور گاڑیوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کا نمازی تھا۔ وہ ہر وقت تسبیح ہاتھ میں لئے کاؤنٹر پر بیٹھا رہتا، باریش اور نورانی چہرے میں وہ بہت سجتا تھا۔ اکرم اس دوکان پر سیلزمین کی حثیت سے کام کرتا تھا اور چھ ہزار تنخواہ پاتا تھا۔ اکرم ابھی کالج میں پڑھتا تھا کہ باپ کا انتقال ہو گیا اسے اپنی ماں اور دو بہنوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے پڑھائی چھوڑ کر سیلز مین کی نوکری کرنی پڑی دوکان میں اسکے ساتھ اور بھی بہت سے سیلز مین کام کرتے تھے لیکن یہ سب سے زیادہ محنتی تھا، صبج سویرے دوکان پر آتا جھاڑ پونچھ کرتا اور کپڑے کے تھانوں کو ترتیب دیتا، اسے دوکان کے علاوہ مالک کے دوسرے بھی کئی چھوٹے چھوٹے کام کرنے پڑتے مثلاً چائے کا کہہ آؤ، بجلی کا بل جمع کروا آؤ فلاں چیز گھر دے آؤ فلاں لے آؤ وغیرہ وغیرہ۔ مالک کے دل میں کسی سیلز مین کے لئے کوئی ھمدردی نہ تھی وہ تو بس کام لینا جانتا تھا، کام پر لیٹ آنے یا جلدی جانے سے پیسے کاٹے جاتے تھے دوکان میں کسی قسم کا نقصان بھرنا پڑتا تھا ایک دفعہ اکرم نے غلطی سے آدھا میٹر کپڑا زیادہ کاٹ کر دے دیا مالک جو وضو کر کے مسجد کی طرف جانے کی تیاری کر رہا تھا اس خبر کے پاتے ہی اکرم پر بپھر پڑا اور کہنے لگا کہ میاں یہ تین سو روپے تمہیں دینے ہونگے کپڑا مفت نہیں آتا تمہارا دماغ کام نہیں کرتا تو کام چھوڑ دو ہمیں لڑکے بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں ابھی نماز پڑھ کر واپس آؤں تو تمہارے حساب میں لکھ لوں گا۔ اکرم کے گھر کا خرچہ پہلے ہی مشکل سے چلتا تھا اس بے جا کٹوتی سے وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگا۔

ظہر کی نماز سے پہلے ڈرائیور مالک کا کھانا لے کر آتا اکرم اسے بڑے سلیقے سے سائیڈ والے کمرے میں سجاتا پانی کی سیلڈ بوتل رکھتا کھانا کئی قسم کا اور سویٹ ڈش کے ساتھ ہوتا مالک سے جتنا کھایا جاتا کھا لیتا باقی کا واپس ٹفن میں بند کر کے رکھ دیتا کہ کوئی دوست یار آئے گا تو اسے پیش کروں گا یا پھر گھر واپس لے جاؤں گا ۔ جب مالک سیر ہو چکتا تو اکرم کو آواز پڑتی کہ جاؤ کھانا کھا آؤ اور دیکھو جلدی آنا دوسرے لڑکوں کو بھی جانا ہے۔ اکرم گھر سے لائی ہوئی دال دلئے کی پوٹلی اٹھاتا اور قریب ہی ایک پٹھانوں کے تنور سے دو روٹیاں لے کر ٹوٹے ہوئے میز کرسی پر بیٹھ کر پیٹ پوجا کرتا اور پٹھانوں کے گندے گلاس اور جگ سے جی بھر کر پانی پیتا۔ کچھ دنوں سے اکرم کو تین ہزار روپے کی سخت ضرورت تھی اسکی بہن کا داخلہ میٹرک کے بعد کالج میں ہو چکا تھا اور داخلہ فیس ادا کرنی تھی کچھ پیسے کم پڑتے تھے وہ سوچ رہا تھا کہ کسی طرح مالک سے ادھار لے لیا جائے آہستہ آہستہ واپس کر دوں گا۔ جب بھی وہ بات کرنے لگتا اسکی ہمت نہ پڑتی آخر ایک دن اس نے حوصلہ کر کے پیسے مانگ لئے پہلے تو اس نے دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ آج کل بہت مندہ ہے ورنہ تمہارے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرتا لیکن پھر شام کو اس نے اکرم کو اس شرط پر پیسے دیے کہ اگر ایک ماہ کے اندر اندر واپس نہ کئے تو تنخواہ سے کاٹ لئے جائیں گے اور تمہیں ایک پکی تحریر لکھ کر دینا ہوگی وہ جب یہ باتیں کر رہا تھا تو برابر اسکے ہاتھ میں تسبیح اللہ ھو کا ورد کرتی جا رہی تھی۔ اکرم کو اسکی ساری شرطیں قبول تھیں مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا دنیا کی پرانی ریت ہے۔ اتنی دیر میں مالک کا بیٹا اپنی گاڑی میں دوکان پر آیا اسے ایک شادی میں جانا تھا اور وہ بیس ہزار روپے کا امپورٹڈ سوٹ خریدنا چاہتا تھا باپ نے فوراً دراز سے نکال کر پیسے بیٹے کو دیے تسبیح سائیڈ پر رکھ کر بیٹے کو پیار کیا اور نصیحت کی کہ گاڑی آہستہ چلایا کرو مجھے ہر وقت تمہاری فکر رہتی ہے۔ آج اکرم بہت خوش تھا کہ اسے تنخواہ کے ساتھ اضافی تین ہزار بھی ملے تھے وہ چاہتا تھا کہ چلو وہ تو نہیں پڑھ سکا کم از کم بہنیں تو گریجویشن کر لیں۔ وہ اپنے خیالات میں گم جب چلتی بس سے اترنے لگا تو اسکا پاؤں موچ کھا گیا اور گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ اسکی ماں نے ادھر ادھر سے قرض اٹھا کر اسکا علاج کروایا لیکن ایک مہینے کے اندر اندر اسکا گھر تیس ہزار کے قرضے کے نیچے دب گیا۔

مالک نے تین دفعہ ڈرائیور کو قرضے کے مطالبے کے لئے بھیجا اکرم کی ماں مزید مہلت کا مطالبہ کرتی رہی جب ذرا اکرم چلنے کے قابل ہوا تو اسے ایک دوسری دوکان پر بہتر تنخواہ پر نوکری مل گئی اکرم نے سوچا کہ پہلی تنخواہ پر سب سے پہلے مالک کا قرض ادا کروں گا۔ مگر ابھی مہینے میں کافی دن تھے اور مالک اتنا لمبا انتظار نہیں کرسکتا تھا۔

بڑی عید میں ابھی کچھ دن باقی تھے اور مجھے نماز عید کے لئے ایک عدد سفید کھدر کے جوڑے کی ضرورت تھی جب میں ایک کلاتھ ہاؤس پر پہنچا تو ایک باریش آدمی ہاتھ میں تسبیح لئے اکرم کے گلے میں کپڑے کا پھندہ ڈالے کھڑا تھا میں نے اکرم کو پہچان لیا تھا ہم دونوں چھٹی تک اسکول میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے لیکن عمر کی شکست و ریخت کی وجہ سے وہ مجھے نہ پہچان سکا۔ سیٹھ صاحب دوسرے سیلز مین سے کہنے لگے دیکھو میں نماز پڑھ کر آتا ہوں اسے جانے نہ دینا اور باندھ کر رکھنا میں آ کر اسے پولیس کے حوالے کرتا ہوں۔ میں نے کہا سیٹھ صاحب آپ ایک بندہ خدا کو باندھ کر نماز پڑھنے جا رہے ہیں کیا ایسی نماز قبول ہوگی اس نے کیا کیا ہے۔ سیٹھ صاحب گرج کر بولے اجی آپ مذہب کو بیچ میں نہ لائیں اس نے میرا قرض دینا ہے، قرض تو ہم سے لیا اور جب دینے کی باری آئی تو دوسری دوکان پر کام شروع کر لیا میں نے کہا کہ قرض کی رقم کتنی ہے بولے تین ہزار میں نے جیب سے کپڑوں کے پیسے نکال کر سیٹھ صاحب کے حوالے کر دئے اور کہا کہ مسجد میں جانے سے پہلے اقبال کا یہ شعر ضرور پڑھ لیجئے۔
ہوا سر بہ سجدہ جو میں کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

دو دن بعد جب میں عشا ء کی نماز سے فارغ ہوا تو دروازے پر دستک ہوئی دیکھا تو وہی سیٹھ صاحب ہاتھوں میں کھدر کا سوٹ لئے زار و قطار رو رہے تھے آج انکے ہاتھ میں تسبیح نہ تھی کہنے لگے مجھے بھی معافی مل سکتی ہے میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں ہے میں نے کہا اگر آپ دوسروں کے بجوں کا خیال رکھیں گے تو اللہ آپ کے بجے کا بھی خیال کرے گا جائیں اس سے معافی مانگیں۔

بقول اقبال

نہ جہاں میں کہیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 22017 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More